اے ہٹ دھرم انسان، یہ ایک جھیل کی داستان ہے جس میں تین خوبصورت اور فربہ مچھلیاں رہتی تھیں۔ ذرا دیکھ اُن پر کیا بِیتی..
•••
تُم نے اِسی سے ملتی جُلتی داستان قدیم ہندوستانی ادب کے شاہکار "پنچہ تنترا" میں پڑھی ہو گی۔ 3 سو قبل مسیح میں ایک ہندوستانی مفکر ویشنو شرما نے اپنے بادشاہ کے لیے سنسکرت میں پنچہ تنترا تحریر کی جس میں جانوروں اور پرندوں کو انسانی خصوصیات کا حامل دکھایا گیا تھا۔ پوری دنیا میں جو شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے، یہ تشبیہہ پنچہ تنترا سے ہی باقی دنیا کو پہنچی ہے۔ دنیا میں کسی بھی ملک و قوم اور زبان کے ادب میں جو جانور اور پرندے باتیں کرتے ہیں، وہ سَب پنچہ تنترا کی وجہ سے ہیں۔ 8 ویں صدی عیسوی میں ابن المقافہ نے پنچہ تنترا کا عربی میں ترجمہ کیا اور اُس کا نام "کالیلا و دمنہ" رکھا۔ عربی سے دنیا بھر کی زبانوں میں تراجم ہوئے اور منطق الطیر کی بنیاد بھی یہیں سے پڑی۔ علم و حکمت کی بات جہاں سے بھی مِلے، اُس کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ کہانی بھی یہی کہانی سُنا رہی ہے۔ اگرچہ اِس اصل شاہکار کا بنیادی مقصد بادشاہ اور اُس کی سلطنت کی تعریف و توصیف تھی مگر ہماری مثنوی میں ہم نے اِس میں مزید گہرے بھید شامل کیے ہیں۔
•••
تو، ایک جھیل تھی جس میں تین خوبصورت اور فربہ مچھلیاں رہتی تھیں۔ کچھ مچھیروں کا اُدھر سے گزر ہوا تو اُنہوں نے اِن تین مچھلیوں کو دیکھ لیا۔ اور مچھیروں کو بھلا کیا چاہیے ہوتا ہے۔
مچھیرے بھاگ کر اپنا جال لے آئے۔ مچھلیوں کو اندازہ ہو گیا کہ مچھیرے کیا کرنے لگے ہیں۔
#پہلی_مچھلی اُن تین میں سے نہایت ذہین اور بہادر تھی۔ اُس نے فوراً صورتحال جانچ کر خود سے کہا "اب یہ جھیل خطرے سے خالی نہیں اس لیے یہاں سے ہجرت کر لینی چاہیے، اگرچہ بہت مشکلات پیش آئیں گی مگر میری منزل بحرِعظیم ہو گی۔ اِس سلسلے میں مَیں کسی اور مچھلی سے مشورہ نہیں لوں گی، وہ اپنے خوف و ہراس کی وجہ سے مجھے بزدل بنا دیں گی۔ مَیں آزاد مچھلی ہوں، درخت نہیں کہ ایک ہی جگہ ٹِکی رہوں۔ آزاد روح کو زیب نہیں دیتا کہ نامناسب حالات میں اگر ہجرت کر سکتی ہو تو پھر بھی نہ کرے۔ جھیل ہو یا سمندر ہو، سَب ایک ہی مالک کی ملکیت ہیں۔ بزدل مچھلیاں مجھے یہاں روک لیں گی اور اِس جگہ کی محبت کا جال پھینکیں گی۔"
•••
اے دوست، اچھی رائے حاصل کرنے کے لیے ایسا شخص چاہیے جس کی روح سیراب ہو چکی ہو، وہی تمہیں کم تر چیزوں سے بچانے کا ہنر جانتا ہو گا۔ ایسا شخص کہاں ملے گا؟ اے مہم جو مرد، مہم جوئی کے مسائل کے لیے کسی تجربہ کار مہم جو سے پوچھو، گھر کی خاتون سے پوچھو گے تو وہ تمہارے پاؤں باندھ دے گی۔ لہذا ایسا شخص نہ ملے تو تُم خود وہی شخص ہو۔
وطن کی شدید محبت بھی ایک جال ہے جو تمہیں باقی دنیا سے الگ کر دے گی۔ اے روح تیری سلطنت اِس جھیل میں نہیں، بحرِعظیم میں ہے جس تک پہنچنے میں مشکلات تو ہیں مگر تیری جان اِسی مہم جوئی کی وجہ سے بخشی جائے گی۔ پیامبرِ عظیم کے اُس قول کو زیادہ تر لوگ غلط انداز میں سمجھ لیتے ہیں جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ "وطن سے محبت ایمان کا جُز ہے۔" یاد رہے کہ بعض اوقات وطن کی محبت تیرے ایمان کا سودا بھی کروا دے گی، لہذا سمجھ بوجھ کر قدم رکھنا۔
•••
آخرکار بہادر مچھلی نے ہجرت کا آغاز کر دیا.. وہ خوبصورت جھیل کے خطرناک پانیوں سے منہ موڑ کر بحرِعظیم کی جانب بڑھ گئی۔ وہ یوں بڑھتی چلی جا رہی تھی جیسے ایک ہرن پیچھا کرتے خونخوار کُتے سے بچ کر مسلسل بھاگتا چلا جاتا ہے۔ ایسا خرگوش جو اُس وقت سو جائے جب اُس کے پیچھے خونخوار درندہ ہو، یقیناً وہ جلد لقمہء اجل بن جائے گا۔
اُس بہادر مچھلی نے بحرِعظیم کو چُن لیا تھا اس لیے اُس نے بڑے خطرات سے اپنی جان بچا لی۔
#دوسری_مچھلی پہلی جتنی ذہین تو نہ تھی مگر کچھ نہ کچھ ذہانت رکھتی تھی۔ اُس نے مچھیروں کو جال پھینکتا دیکھا اور خود سے کہا "ہائے میری دوست مجھ سے بچھڑ گئی۔ اُس نے بغیر کسی سے مشورہ کیے فیصلہ کر لیا اور بدذوق خطرات سے منہ موڑ کر باذوق خطرات میں جا پڑی۔ بحرِعظیم کے خطرات زندگی کی حفاظت کے ضامن ہیں۔ مجھ میں ہجرت اور سفروں کی ہمت نہیں.. مگر میرے لیے میری دوست مچھلی سے بھی زیادہ خطرہ ہے۔ اب مَیں اپنی جان کیسے بچاؤں؟"
اِس دوسری مچھلی نے کچھ دیر سوچا اور اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آ گئی۔ اُس نے خود کو پانی میں الٹ لیا، یوں کہ پیٹ اوپر کی جانب تھا اور منہ نیچے کی جانب۔ وہ مردار کی اداکاری کرنے لگی۔ اُس نے خود سے کہا "مَیں مردہ ہو گئی ہُوں۔ مَیں نے تیرنے کی بجائے بہنا شروع کر دیا ہے.. اب یہ جھیل مجھے جہاں بھی سیر کراتی رہے۔ ہر جاندار کے مصطفیٰ نے حکم دیا تھا کہ 'مر جاؤ مرنے سے پہلے ورنہ تُم شدید رنج و الم میں مرو گے۔' بالکل یہی، مرنے سے پہلے مر جانے میں سلامتی ہے۔"
یوں وہ مچھیروں کے جال میں آ گئی مگر اُس نے بالکل حرکت نہ کی۔ ایک مچھیرے نے کہا "یہ تو مردہ مچھلی ہے، خراب ہو گئی ہو گی۔" اُس نے مچھلی کو جال سے نکال کر پانی کے قریب کنارے پر پھینک دیا اور باقی مچھیروں کے ساتھ جال میں پھنسے مزید شکار کو دیکھنے لگا۔
مردہ مچھلی نے تھوڑی بہت حرکت کے ذریعے خود کو دوبارہ پانی میں ڈال لیا اور فرار ہو گئی۔ اِس مچھلی نے زیادہ بڑا خطرہ مول لیا تھا۔
جبکہ #تیسری_مچھلی ذرا عقل سے عاری تھی۔ اُس نے پہلی اور دوسری مچھلی سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ جال میں آتے ہی اُس نے ہڑبڑا کر اِدھر اُدھر بھاگنا شروع کر دیا اور یُوں اپنے ذائقہ کا راز فاش کر دیا۔ یقیناً جو مچھلی جتنا اچھلتی کودتی ہے، وہ نہایت ذائقہ دار ہوتی ہے اور یوں اُس کا ذائقہ خود اُس کے خلاف نبردآزما ہو جاتا ہے۔
کچھ دیر میں وہ آگ پر دہک رہی تھی۔ وہ شکار ہو چکی تھی۔ جب اُسے صرف اتنا ہوش تھا کہ خود اپنے پکنے کی مہک آئے، تب ایک پکارنے والے نے اُسے پکارا "کیا تجھے علم سکھانے کو کوئی نہ پہنچا؟"
تیسری مچھلی جب اُس مقام پر پہنچ گئی جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے تب اُسے سارے زمانے کا علم آ چکا تھا مگر اب وہ کسی کام کا نہ تھا۔
اُس نے کہا "جی ہاں، آئے تھے۔"
کافی لذیذ تھی…
•••
From English book "Tales of Mystic Meaning"
Excerpts of Masnavi Rum
by R.A.Nicholson
Translation from Eng to Urdu by مُسافرِشَب