تین کتابوں پر تبصرہ
دل کاآئینہ جو ٹوٹا (شعری مجموعہ)
شاعرہ:سیدہ زیب النساء
صفحات144: قیمت:300روپے،
ناشر:نیو کالج پبلی کیشنز۔لاہور،کوئٹہ
بلوچستان سے اردو ادب کے حوالے سے سامنے آنے والی ہر آواز ہمارے لیے خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ لیکن اُس علاقہ سے کسی شاعرہ کا سامنے آنا بہت ہی خاص بات ہو جاتی ہے۔ بلوچستان کی شاعرہ سیدہ زیب النساء کا شعری مجموعہ’’دل کا آئینہ جو ٹوٹا‘‘ ملا تو میں نے اسے خوشگوار حیرت کے ساتھ دیکھا اور دلی مسرت کے ساتھ مطالعہ کیا۔اس مجموعہ میں غزلیں ،نظمیں اور متفرق اشعار شامل ہیں۔
اک صنم زاد کو پوجا تو خطا میری تھی
دل کا آئینہ جو ٹوٹا تو خطا میری تھی
میں ان پہاڑوں پہ بے یقینی کے باب جتنے بھی لکھ چکی ہوں
ہوا نے ان میں سے اک بھی پڑھ کر تمہیں سنایا تو رو پڑوں گی
مکیں اچھے نہ ہوں جس کے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
شجر جیسا بھی ہو تو بے ثمر اچھا نہیں لگتا
انتہا عشق کا تقاضہ ہے
عشق میں کوئی اعتدال نہیں
میری آنکھوں میں ایک دریا ہے
تشنگی کا کوئی سوا ل نہیں
اس نوعیت کے اشعار میں سیدہ زیب النساء کے جو شعری امکانات موجود ہیں، ان کی بنیاد پر ان کے اگلے مجموعوں سے اچھی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ ادبی دنیا میں اس شعری مجموعہ کی بھی بھر پور حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوہ قاف کے اس پار (ہزارہ قبائل کی لوک کہانیاں)
ترجمہ:پروفیسرشرافت عباس ناز
صفحات164: قیمت:400روپے،
پبلشر:ادارۂ فروغِ تعلیم و ادبیاتِ بلوچستان،کوئٹہ
بلوچستان کے ممتاز شاعرشرافت عباس ناز نے اپنے لوک ورثہ کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے یہ کتاب شائع کی ہے۔ ہزارہ قبائل اس وقت ہزارستان، پاکستان، ایران اور افغانستان میں آباد ہیں۔ یہ قبائل منگول سرداروں کی بر صغیر پر یلغاروں کے زمانے میں یہاں آنا شروع ہوئے۔ امیر تیمور، ظہیرالدین بابر اور دوسرے مغل بادشاہوں کے ہاں بھی ان قبائل کا ذکر مل جاتا ہے۔ محمد جواد خاوری نے اپنے قبائل کی سولہ کہانیوں کو جمع کرکے فارسی میں شائع کیا۔
شرافت عباس ناز نے ہزارہ قبائل کے مختصرتعارف کے ساتھ ان سولہ میں سے منتخب بارہ لوک کہانیوں کو اردو میں ترجمہ کرکے پیش کیا ہے۔ برِصغیر کی دوسری لوک داستانوں کی طرح ان کہانیوں میں بھی ملتے جلتے رنگ ملتے ہیں۔امیری، غریبی، قسمت، مقدر، اخلاقیات، خوا ہشات، ۔۔ایسی داستانیں جو جنگل کے دور اور تہذیب کے درمیانی عرصہ میں ایک کڑی کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔
ہر کہانی ایک پورے دور کا منظر سامنے لے آتی ہے۔ ابتدائی اور قبائلی دور کے انسان کی نفسیاتی گرہوں کو ہلکا سا کھولتی ہوئی یہ دلچسپ کہانیاں اردو دنیا کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہوں گی۔ اور بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھی جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی غزل ہے فروزاں (شعری مجموعہ)
شاعر: شرافت عباس ناز
صفحات200: قیمت:200روپے،
پبلشر:ادارۂ فروغِ تعلیم و ادبیاتِ بلوچستان،کوئٹہ
شرافت عباس ناز کا پہلا شعری مجموعہ’’ابھی غزل ہے فروزاں‘‘غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ اس مجموعہ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں دونوں شعری اصناف میں اظہار پر یکساں قدرت حاصل ہے۔غزل کے چند اشعار سے ان کی شعر گوئی کے تیورکو دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
دریا میں موج،موج میں دھارا ہی اور ہے
اب کے تو نا خدا کا اشارہ ہی اور ہے
بہت دن ہو گئے شیخ و برہمن سے کشاکش میں
مذاقاََ ہی سہی اس بار کچھ تعظیم کر دیکھوں
چڑھتا ہے جو دریا وہ اتر جاتا ہے سائیں
اک روز تو دل خود سے بھی بھر جاتا ہے سائیں
سارا دن اس کو بھلانے کی تگ و دو میں کٹا
شام کے سائے ڈھلے تو اس کی یاد آئی بہت
عجب نہیں کہ چلے ہم سراب کی جانب
عجب تو یہ ہے کہ دریا دلی کے ساتھ چلے
شرافت عباس ناز کی نظموں کا انداز بھی ایسے ہی لب و لہجے اور شان کا حامل ہے۔ہمارے ہاں کوئٹہ کے شاعروں کے لیے عام طور پر پنجابی لہجہ میں’’کوٹے کا شاعر‘‘کا طنز کردیا جاتا ہے۔ شرافت عباس ناز کی شاعری نے اس طنزکو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ان کی شاعری اردو کی شاعری ہے اور ان کی ذات کے بھرپور اظہار کے ساتھ بھرپور شاعری ہے۔
میں اس مجموعہ کا کھلے بازؤں کے ساتھ خیر مقدم کرتا ہوں!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“