تین ہیروں والی انگوٹھیزلفی کی شادی نوجوانی میں اس کی فرسٹ کزن شیریں سے ہو گئی تھی۔ لیکن اس کا دل شادمان نہیں تھا۔زلفی کو اپنی ہمشیر منا کی سہیلی نصرت اصفہانی پسند آ گئی۔۔۔نصرت کافی امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ شادی کے تحائف میں زینت واچ اور تین ہیرے کی انگوٹھی بھی شامل تھی۔
زلفی خوبصورت، خوش قامت اور خوش لباس تھا۔ زینت واچ اور تین ہیروں والی انگوٹھی نے اس کی دلکشی اور بڑھا دی۔ گھڑیاں اور انگوٹھیاں زلفی کے لیے نئی نہیں تھیں۔ وہ ریاست جوناگڑھ کے دیوان ( وزیرِ اعظم )کا بیٹا تھا۔ لیکن نصرت کی محبت نے ان تحائف کو انمول بنا دیا ۔
حسن کے ساتھ ساتھ قسمت کی دیوی بھی زلفی پرفریفتہ تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ جہاں جاتا کیمروں کے فلیش تعاقب کرتے۔ وہ عوام کے دلوں میں دھڑکنے لگا۔ اسے قائد عوام اور فخرِ ایشیاء کے القابات دے گئے۔
وہ خداد ذہانت کا حامل تھا۔ اس نے اپنی پارٹی تشکیل دی جس کا نام تین ''پیز'' سے شروع ہوتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملک کی مقبول ترین پارٹی بن گئی۔ اس کا تین لفظی نعرہ ؛ روٹی، کپڑا اور مکان ملک کا مقبول ترین سیاسی نعرہ بن گیا۔
اس کی تقریر میں جادوئی کشش تھی۔ اس کے سیاسی جلسوں میں لوگ کھچے چلے آتے۔ تقریر کے دوران اکثر گھڑی تو کف میں چھپ جاتی لیکن تین ہیروں والی انگوٹھی جگمگاتی رہتی۔ وہ جب سامراج کو للکارتا تو اس کے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور بائیں ہاتھ کی چھنگلی میں سجی انگوٹھی پر عوام کی نظریں جم جائیں۔
مقبولیت اتنی بڑھی کہ وہ ملک کا ہر دلعزیز وزیر اعظم بن گیا۔ محترمہ نصرت بھٹو خاتونِ اول ٹھہریں۔ شادی کی پچیسویں سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔ بھٹو صاحب نے ایک ہیرے والی اپنی خاندانی انگوٹھی بیگم نصرت بھٹو کو تحفتاً دی۔
خوابوں کی تعبیر ملنا شروع ہو گئی تھی۔ جمہوریت، ایٹمی پلانٹ، اسلامی بلاک۔ سامراج حیران تھا کہ خاکستر میں یہ چنگاری کیسے بھڑک اٹھی۔ وہ ہر قیمت پر اسے بجھانا چاہتا تھا۔۔۔ مقامی شاہ دولوں کے لیے اشارہ ہی کافی تھا۔۔۔ ملک گیر تحریک چل پڑی۔۔۔5 جولائی کو مارشل لاء لگا دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ہتھکڑی لگانے آئے تو وہ سفید عوامی سوٹ، کالی پشاوری چپل، کلائی میں زینت گھڑی اور چھنگلی میں تین ہیروں والے انگوٹھی پہنے ہوئے تھے۔
سامراج انہیں عبرت بنانا چاہتا تھا۔ایف آئی آر درج ہوئی، مقدمہ چلا، سلطانی گواہ پیش ہوئے اور موت کی سزا دے دی گئی۔
1979 کا موسم بہار آ گیا۔۔۔ بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کر دیا گیا۔ وہ ہفتے میں ایک مرتبہ بھٹو صاحب سے علاحدہ علاحدہ ملاقات کرتیں۔ ایک دن بیٹی کی بے بس نگاہیں باپ کی انگلی پر ٹھہر گئیں۔ جس میں انگوٹھی وقت کی طرح گردش کر رہی تھی۔ مسلسل نظر بندی اور اذیت نے انہیں کمزور کر دیا تھا۔
24 مارچ کو سپریم کورٹ نے ان کی اپیل خراج کی۔ 3 اپریل شام کے وقت ماں بیٹی کو اکھٹے ملاقات کے لیے لے جایا گیا۔ یہ آخری ملاقات تھی۔۔۔ مناظر ناقابلِ بیان حد تک جذباتی تھے۔۔۔ماں بیٹی کی دھاڑوں سے تمام جیل لرز اٹھی۔۔۔موت کے قیدی، حوالاتی، عملہ سب رو رہے تھے۔۔۔کتابیں، سلیپر، گاؤن ایک ایک چیز بیگم صاحبہ کے حوالے کی جا رہی تھی۔۔۔۔ گھڑی اور انگوٹھی کا نمبر آیا تو نصرت بھٹو کی چھلکتی آنکھوں اور لرزتے ہاتھ رکاوٹ بن گئے۔۔۔!
گھڑی اور انگشتری کے علاوہ تسبیح، سگار اور پرفیوم بھی باوقار رخصتی کے لیے چھوڑ دیا گیا۔۔۔رات کو تازہ شیو بنائی، پرفیوم چھڑکا۔۔۔ سنتِ سقراط کو تازہ کرنے کے لیے آخری تقاضا چائے کا پیالی کا کیا۔۔۔بیگم شیریں امیر کی تحفے میں دی گئی تسبیح گلے میں ڈال کر سنتِ منصور کا اعادہ کیا۔
تین اور چار اپریل کی درمیانی شب دو بج کر چار منٹ پر وقت کا مسیحا باوقار قدموں کے سے تختہء دار پر آیا۔ تارا مسیح نے اپنی سیاہ انگلیوں اور کھردرے انگوٹھوں سے نقاب چڑھارہا تھا اس کی نگاہیں گھڑی اور انگوٹھی پر لگی ہوئی تھی۔
وقت کے مسیحا کا جسم آدھ گھنٹا لٹکتا رہا۔ تارا مسیح کی نگاہیں گھڑی اور انگوٹھی پر لگی ہوئی تھیں۔۔۔ جسم اتار گیا۔۔۔تارا مسیح نے اسے سیدھا کرتے ہوئے گھڑی اور انگوٹھی اتار لی۔۔۔!
غسل دیا گیا۔ نمازِ میت کے بعد کسی کا ذہن انگوٹھی اور گھڑی کی طرف چلا گیا۔ جیل حکام نےاسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مجید قریشی کو گھڑی اور انگوٹھی لانے کو کہا۔ گھڑی تو مل گئی مگر انگشتری نہیں تھی۔ تلاشی لی گئی تو تارا مسیح کے جیب سے نکلی۔
رات بھر سہالہ ریسٹ ہاؤس میں ماں بیٹی کی سسکیاں سنائی دیتی رہیں۔ ویلیم کی گولیاں بھی انہیں رات بھر نہ سلا سکیں۔ صبح دستک ہوئی تو بے نظیر نے لپک کر دروازہ کھولا جیلر مسیحا کا سامان لیے کھڑا تھا۔۔۔دھاڑیں ریسٹ ہاؤس کی دیواریں چھنا گئیں۔۔۔دو گھنٹے جیلر آخری لمحات کی تفصیل بیان کرتا رہا۔۔۔ پھر بیٹی نے اپنے عظیم باپ کے سامان پر نگاہ ڈالی۔۔۔سب سامان موجود تھا۔۔۔ تسبیح، قران پاک، جائے نماز، گھڑی، کراکری، شلوار قمیض، پشاوری چپل ۔۔۔لیکن تین ہیروں والی انگوٹھی نہیں تھی۔۔۔۔ کافی ٹال مٹول کے بعد جیلر نے اسے جیب سے نکالا۔
تارا مسیحاؤں کو ادراک ہی نہیں تھا کہ وہ جسے مصلوب کر رہے ہیں وہی وقت کا مسیحا ہے۔ ہیروں والی انگوٹھی ہی نہیں اس کے وجود کو مس کرنے والی ایک ایک چیز انمول ٹھہرے گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“