محققین نے باقیات پر 800 کے قریب زخم پائے جن کے پیٹرن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حملے کے وقت متاثرہ شخص کے زندہ ہونے کے زیادہ امکانات تھے اور موت کے بعد اسے کسی مردار نے نہیں کھایا۔
سائنس دانوں نے ایک تحقیق میں تین ہزار سال قبل ہلاک ہونے والے ایک شخص کی باقیات کا تجزیہ کرنے کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ یہ شارک کے حملے کا شکار ہونے والا سب سے پہلا انسان ہو سکتا ہے جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔
جاپانی جزیریوں کے سلسلے کے درمیان واقع ’سیٹو ان لینڈ‘ سمندر کے قریب سے دریافت ہونے والی باقیات کے تجزیے سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس انسان کی موت غالباً 1370 سے 1010 قبل مسیح کے درمیان ہوئی ہوگی۔
آرکیالوجیکل سائنس اور فرانزک تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی ایک ٹیم سمیت محققین کے بین الاقوامی گروپ نے شارک کے حملے کے دوران ہونے والے واقعے کی دوبارہ منظر کشی کی۔
سائنسی جریدے ’جرنل آف آرکیالوجیکل سائنس‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے باقیات پر پائے جانے والے زخموں کا نقشہ تیار کرنے اور اس کو سمجھنے اور تجزیے میں مدد کے لیے انسانی ڈھانچے کا تھری ڈی ماڈل بنایا۔
محققین نے باقیات پر 800 کے قریب زخم پائے جن کے پیٹرن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حملے کے وقت متاثرہ شخص کے زندہ ہونے کے زیادہ امکانات تھے اور موت کے بعد اسے کسی مردار نے نہیں کھایا۔
محققین نے اس مطالعے میں لکھا ہے کہ ’متاثرہ شخص کے جسم پر موت کے وقت کم از کم 790 شدید زخم لگے جو شارک کے حملے کی نشاندہی کرتے ہیں، ان میں گہرے زخم، ہڈیوں پر خراشیں، سوراخ، گھاؤ، کٹاؤ اور ہڈیاں ٹوٹنا شامل ہیں جو انہیں مرتے وقت آئے۔‘
بنیادی طور پر بازوؤں، ٹانگوں سینے اور پیٹ کے سامنے والے حصے پر لگنے والے زخموں کا تجزیہ کرنے والے سائنس دانوں نے کہا کہ وہ ان زخموں کے لیے کسی دوسرے انسان سے ان کی لڑائی یا عام درندوں کے حملوں یا مردہ خور جانوروں کے ان کو نوچنے کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’زخموں کی حالت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حملے کے وقت متاثرہ شخص زندہ تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ کو چیڑ پھاڑ دیا گیا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس ہاتھ سے اپنا دفاع کر رہا تھا۔‘ان باقیات کی ابتدائی دریافت اس وقت سامنے آئی جب سائنس دان کیوٹو یونیورسٹی میں قبل از تاریخ دور کے شکار پر انحصار کرنے والے افراد کے ڈھانچوں پر پرتشدد زخموں کے شواہد کی تحقیق کر رہے تھے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں جے الیسا وائٹ اور پروفیسر رک سکلٹنگ نے کہا: ’ہم ابتدا میں اس پریشانی سے دوچار تھے کہ آخر کیا چیز اس شخص کو پہنچنے والے کم از کم 790 گہرے اور اذیت ناک زخموں کا سبب بن سکتی تھی۔
اتنے زیادہ زخموں کے ساتھ بھی اسے کمیونٹی کے سوکومو نامی پہاڑی قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔‘آکسفورڈ کے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ حملے کے وقت یہ شخص اپنے ساتھیوں کے ساتھ مچھلیوں کا شکار کر رہا ہو گا۔دانتوں کے نشانات اور ان کی تقسیم کی بنیاد پر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان پر حملہ کرنے والی ٹائیگر یا وائٹ شارک تھی۔
جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ اور اس مطالعہ کے شریک مصنف مارک ہڈسن نے مزید کہا: ’اس دریافت سے نہ صرف قدیم جاپان کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ اس نے ماہرین آثار قدیمہ کو قبل از تاریخ کے سماج کی زندگی کے ڈرامائی پہلوؤں کو سمجھنے کا نادر موقع بھی فراہم کیا۔
یہ ایک بالغ مرد کی باقیات تھیں جس کو ’سوکومو نمبر 24 ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس شخص کے جسم پر شدید زخموں کے نشانات تھے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شارک کے حملے کے فوراً بعد ہی اس کی لاش کو برآمد کر لیا گیا تھا اور اسے اپنے لوگوں کے ساتھ قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔
خؒبر کا سورس
“