شعر و ادب کی دنیا میں شاید یہ واحد مثال ہے کہ 3 بہنوں نے شاعری بھی کی اور ناول بھی لکھے اور تینوں بہنوں کے نام عالمی ادب میں صف اول میں شامل ہیں۔ البتہ اردو ادب میں 2 بہنوں کی جوڑی مشہور ہے یہ دونوں بہنیں بھی بہت مشہور ہوئیں اور اردو ادب میں ان کا بہت بڑا نام ہے اور یہ بہنیں خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کے نام سے دنیائے ادب میں صف اول کی ادیبہ کی حیثیت سے مشہور ہیں ۔ انگریزی ادب کی یہ تینوں بہنیں بہت باصلاحیت اور پختہ عزم رکھنے والی لڑکیاں تھیں لیکن پھر بھی ان کی کامیابی کے لیے میں اس محاورے کے برعکس یہ کہوں گا کہ بہت سی خواتین کی کامیابی میں کسی نہ کسی طرح کسی مرد کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے ۔ عورت کی کامیابی میں مرد کے ہاتھ کی کئی مثالیں ہوں گی لیکن میں ان 3 بہنوں کے بارے میں کہوں گا کہ ان کی کامیابی کے پیچھے ان کے والد صاحب کا ہاتھ تھا اور وہ بھی ایک پادری باپ یعنی مذہبی مرد ۔ یہ 3 باکمال ادیبہ اور شاعرہ بہنیں برطانیہ کی شارلٹ برونٹے، پیدائش 21 اپریل 1816 ایملی برونٹے تاریخ پیدائش 30 جولائی 1818 اور این برونٹے تاریخ پیدائش 17 جنوری 1820 ۔ یہ تینوں بہنیں برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ کے ایک قصبے ہاورتھ میں پیدا ہوئیں ان کے باپ کا نام پیٹرک برونٹے اور ان کی ماں کا نام ماریہ بران ویل تھا ۔ یہ بہنیں اس دور میں پیدا ہوئیں جب برطانیہ سمیت یورپ بھر میں خواتین کو دوسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا تھا نہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کا حق تھا اور نہ ہی انہیں ووٹ ڈالنے یا ووٹ دینے کا حق حاصل تھا ۔ برونٹے بہنوں کا باپ ایک مذہبی شخص اور عیسائی پادری تھا وہ مصنف بھی تھا اور شاعر بھی تھا ۔ پیٹرک برونٹے کی 5 بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ۔ اس نے اپنے بیٹے بران ویل کو تو ویسے ہی تعلیم دلانے کا سوچ رکھا تھا لیکن اس نے اپنی پانچوں بیٹیوں کو بھی تعلیم دینے کا فیصلہ کر کے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا کیوں کہ اس دور میں لڑکیوں کو تعلیم دینے کے عمل کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔
باپ پیٹرک برونٹے نے اپنی بیٹیوں کو پرائمری تعلیم کے بعد اپنے قصبے سے باہر ایک قریبی شہر میں داخل کروایا لیکن اس اسکول میں طلبہ کو ناقص غذا دی جاتی تھی چناں چہ یہ پانچوں بہنیں ناقص خوراک کے باعث بیمار پڑ گئیں فاقہ کشی کے باعث کمزور پڑ گئیں جس کی وجہ سے وہ تپ دق ( ٹی بی) کے موذی مرض میں مبتلا ہو گئیں جن میں سے ان کی 2 بہنوں الزبتھ اور ماریہ برونٹے کا انتقال ہو گیا جن کی موت کا ان باقی 3 بہنوں کو بہت دکھ ہوا ۔ جب یہ تینوں بہنیں اسکول سے واپس گھر آئیں تو یہ بھی تپ دق میں مبتلا ہو چکی تھیں ۔ ان تینوں بورنٹے سسٹرز کو ناول لکھنے اور شاعری کرنے کا شوق پیدا ہوا ۔ لیکن ان کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اس دور میں خواتین یا لڑکیوں کی شاعری کرنے اور ناول وغیرہ لکھنے کا تصور ہی نہیں تھا ۔ اس لیئے انہوں نے اپنے لیئے مردانہ قلمی نام اختیار کیا جس کے مطابق شارلٹ برونٹے نے اپنے لیئے کیور ربل، ایملی برونٹے نے اپنے لیئے ابلس بل اور این برونٹے نے اپنے لیئے اسکیٹن بل کا مردانہ قلمی نام اختیار کیا یہاں پر بھی مجھے اردو زبان و ادب کی متعدد ایسی خواتین ادیبائوں اور شاعرائوں کے نام ذہن میں آتے ہیں جنہوں نے مرد معاشرے میں اپنا مردانہ قلمی نام اور تخلص اختیار کیئے یا پھر اپنا نام مخفف کے طور پر استعمال کیا تاکہ ان کی اصلیت ظاہر نہ ہو سکے ایسی خواتین میں زاہدہ خاتون شیروانیہ مشہور شاعرہ ہیں جنہوں نے اپنے نام کے مخفف ز خ ش کو بطور قلمی نام استعمال کیا تھا زاہدہ خاتون شیروانیہ کا پہلا شعری مجموعہ " آئینہ حرم " کے نام سے شائع ہوا تھا جبکہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ " فردوس تخیل " ان کی وفات کے بعد شایع ہوا تھا ۔ تینوں بہنوں نے ناول نگاری بھی شروع کر دی اور شاعری بھی ۔ تینوں بہنوں نے پہلے اپنی نظموں پر مشتمل شاعری کا ایک مجموعہ شایع کروایا اور اس کے بعد انہوں نے اپنے ناول چھپوائے ۔ شارلٹ برونٹے کا پہلا ناول " جین آئر " 1847 میں لندن سے شایع ہوا جس کو دنیا بھر کی ادبی دنیا میں پسند کیا گیا اور ان کی یہ کتاب " بیسٹ بک سیلر " قرار پا گئی ۔ ایملی برونٹے کا پہلا ناول " ود رنگ ہائٹس " تھا اس کی بھی خوب پذیرائی ہوئی این برونٹے کا پہلا ناول " ایگنس گرے " تھا اس کو بھی بہت پسند کیا گیا ۔ کچھ عرصہ بعد لوگوں کو ان کی اصلیت کا پتہ چل گیا کہ ان ناولوں کے مصنف مرد نہیں بلکہ یہ تینوں برونٹے بہنیں ہیں تب تک ان کا دنیائے ادب اور معاشرے میں ایک اہم مقام بن چکا تھا ۔ بعد میں ان کی شایع ہونے والی کتابیں ان کے اصل نام کے ساتھ شایع ہوئیں ۔ ان تینوں بورنٹے سسٹرز کی ادبی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد برطانوی حکومت نے ہاورتھ میں ان کے گھر کو میوزیم کا درجہ دے دیا جبکہ ان کے ناولز اور خود ان کی زندگی پر فلمیں بنائی گئیں اور ڈرامے بھی اسٹیج کیے گئے ۔ ایملی برونٹے کا 1848 میں 30 برس کی عمر میں انتقال ہوا این برونٹے کا 29 مئی 1849میں 29سال کی عمر میں اور شارلٹ برونٹے کا 31 مارچ 1855 کو 38 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...