ایک زمانہ میں امت مسلمہ کے اندر گیارہ یا اس سے بھی زیادہ مکاتب فکر کا رواج تھااور شرق و غرب میں اتنی ہی تعداد کے ائمہ کی پیروی کی جاتی تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مکاتب فکر معدوم ہوتے گئے اور تاریخ کا حصہ بن گئے،جیسے اندلس میں جب مسلمانوں نے قدم رکھا تو کم و بیش ایک یا ڈیڑھ صدی تک وہاں امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کی فکر غالب رہی لیکن بعد میں فقہ مالکی نے اس کی جگہ لے لی۔یہی صورت حال پوری امت میں رہی کہ ایک جگہ پر کسی ایک فکر نے غلبہ پائے رکھا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اس فکر پر کوئی دیگر مدرسہ غالب آگیا۔اب صدیوں سے پوری امت کے اندر بالاجماع پانچ مکاتب فکر رائج ہیں جنہیں مذاہب خمسہ یا پانچ فقہی مسالک بھی کہتے ہیں۔یہ مسالک اگرچہ اپنے بانیان کے نام سے ہی موسوم ہیں جیسے امام نعمان بن ثابت ابو حنیفہ کا مسلک،فقہ حنفی،امام مالک بن انس کی فکر فقہ مالکی،امام احمد بن حنبل کی فقہ فقہ حنبلی،امام محمد بن ادریس شافعی کی فقہ فقہ شافعی اور امام جعفرصادق کی فقہ فقہ جعفری کہلاتی ہیں۔لیکن ان مسالک کی قانون سازی میں صدیوں سے بے شمار دیگر ماہرین قوانین اسلامیہ کی کاوشیں داخل رہی ہیں اور بعض اوقات تو انہیں مسالک کے قوانین اپنے بانیان کی رائے کے خلاف بھی مرتب ہوئے ہیں لیکن بہرحال تاریخ نے ان مدرسہ ہائے فکرکو ان کے بانیان سے ہی موسوم کر رکھا ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (150-204ھ)کااصل نام محمد بن ادریس تھا،آپ عربی النسل تھے،عبدمناف پر جاکرآپ کا شجرہ نسب محسن انسانیتﷺسے مل جاتاہے جبکہ آپ کا ننھیال یمنی قبائل میں سے تھا۔امام شافعی 150ھ بمطابق 768ء میں فلسطین کے مشہور مقام غزہ میں پیداہوئے۔آپ کے والد محترم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے تو غزہ میں آباد ہوئے تھے،آپ کے جد امجد کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ جنگ بدرمیں بنوہاشم کی طرف سے علم بردارتھے،مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتارہوئے اور رہائی پاکراسلام قبول کرلیا۔امام شافعی ؒ کی ولادت کے کچھ ہی عرصہ بعد والد کاانتقال ہوگیاتو والدہ نے واپس مکہ مکرمہ کاقصد کیااس وقت امام صاحب کی عمر مبارک فقط دوسال ہی تھی،چنانچہ امام شافعی کی ابتدائی زندگی اور تعلیم و تربیت مکہ مکرمہ کے مقدس وبابرکت ماحول میں ہی ہوئی۔مسلم بن خالد الزنجی جو مفتی مکہ تھے امام صاحب کے پہلے استاد مقررہوئے اور یوں علم کے منارے کا سفر معرفت شروع ہوا۔روایات کے مطابق سات سال کی مختصرعمر میں قرآن مجید کا حفظ مکمل کیا۔ابتداََعربی زبان و ادب کی طرف متوجہ ہوئے لیکن استادمحترم مسلم بن خالد زنجی نے بے پناہ قوت حافظہ کے باعث تعلیم فقہ کی طرف مائل کردیا۔چنانچہ اسی نیت سے آغاز شباب میں اسفارعلمیہ کی خاطر سب سے پہلا سفر مدینۃ النبیﷺکاکیااور وہاں امام مالک بن انس سے موطاکادرس لیا۔امام مالک ؒحیران تھے کہ یہ نوجوان کتنی جلدی سے اسباق کو یادکرلیتاہے کیونکہ دس سال کی مختصر عمر میں ”موطا امام مالک“آپ کو زبانی یاد تھی۔اس کے بعدمکہ مکرمہ اورپھر بغدادجیسے علمی شہر کی طرف سدھارگئے جہاں انہوں نے بہت سے جید علمائے حدیث و فقہ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیااور خاص طورپر امام محمد بن الحسن الشیبانی کی بھی شاگردی اختیار کی جو کہ امام ابوحنیفہ کے بہت مشہور طالب علم ہیں۔امام شافعی ؒ کے اساتذہ کی تعداد اکیاسی تک پہنچتی ہے جن میں امام سفیان بن عیینہ جیسی نابغہ روزگار ہستی بھی موجود ہیں۔امام نے بہت جلداہلیان علم میں اپنا مقام پیداکرلیااور پندرہ سال کی عمر میں فتوی کی اجازت حاصل کر لی، جس کے باعث عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے انہیں نجران کا قاضی تعینات کردیا۔اپنی منصبی ذمہ داریوں کے دوران جب علویوں نے ملوکیت کے جبرواستبدادکے خلاف بغاوت کی تو امام شافعی نے ان کاساتھ دیاجس کے باعث شاہی افواج نے انہیں پابندسلاسل کردیااور ”رقہ“نامی شہر میں ہارون الرشیدکے سامنے پیش کیا۔اس وقت امام محمد الشیبانی قاضی القضاہ تھے جن کی سفارش پر بادشاہ نے آپ کی جان بخشی کردی لیکن منصب قضا سے ہاتھ دھونے پڑے۔یہ 187ھ کی بات ہے۔
امام شافعی ؒنے میدان عمل کے بعد ایک بار پھر مدرسہ علم میں قدم رکھااورابتداََبغدادکو اپنا مرکز بناکر فقہی فتاوی دینے لگے،یہ فتاوی فقہ حنفی اورفقہ مالکی کی روشنی میں اجتہادذاتی سے مرتب کیے گئے تھے۔آپ کے اس زمانے کے فیصلے ”المذہب القدیم للامام الشافعی“کہلاتے ہیں یعنی امام شافعی کے قدیم فیصلے۔امام شافعی چونکہ خود مجتہدتھے اس لیے ان کے بعض فتاوی احناف کے مخالفت میں آنے لگے توشہر بغدادجوکہ حنفیوں کا گڑھ تھاوہاں ان کی مخالفت شروع ہو گئی۔مخالفت کے نتیجے میں فتنے سے بچنے کے لیے امام شافعی نے 188ھ میں بغدادکو خیرآبادکہااورمکہ کی طرف سدھارگئے۔مکہ میں ایک لمباعرصہ گزارنے کے بعد ایک بار پھرامام کو بغدادکی صحبتیں یادآنے لگیں تو 197ھ میں باردیگر بغدادمیں قدم رنجہ فرمایا۔اب کی دفعہ ان کا پایہ علمی اس قدر بلندہوچکاتھا کہ خلیفہ وقت مامون الرشیدنے انہیں منصب قضا پیش کیا۔مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجاتاکے مصداق امام نے اس منصب جلیلہ کی پیشکش ٹھکرادی کیونکہ بادشاہوں کے ہاں قاضی بننے کا مطلب ہے کہ فیصلہ بادشاہ کااور دستخط منصف کے۔دریامیں رہ کر چونکہ مگرمچھ سے بیر نہیں رکھاجاسکتااس لیے بادشاہ کوانکارکے بعد عافیت اسی میں تھی قیام بغدادکوترک کردیاجائے۔امام کی طبیعت نے دار موسی علیہ السلام کوپسندیدگی عطاکی اور قاہرہ کو مسکن بنایا۔یہاں انہوں نے اپنے شاگردوں کوکثرت سے املاء کروائی جس سے متعدد کتب وجود میں آئیں۔ان میں سے کئی کتب کاامام شافعیؒ نے لکھوانے کے بعد بغرض اصلاح دوبارہ سماع بھی کیاتاکہ لکھنے میں کی گئی غلطیوں کا تدارک کیاجاسکے۔ مورخین اس بات پرمتفق ہیں کہ امام شافعیؒ سے منسوب کم و بیش کل تحریری مواداسی دورمیں مرتب کیاگیا۔علوم اسلامیہ کا یہ منارہ نور 29رجب 204ھ کو 54سال کی عمر میں مصر کے شہر فسطاط میں دائی اجل کو لبیک کہ گیا۔
مزاج میں بہت سادگی تھی،آپ کی روٹی کبھی بھی آپ کے ہاتھ سے بڑی نہ ہوسکی اسی لیے ساری عمر پتلے دبلے جسم کے مالک ہی رہے۔سخاوت خاندانی ورثہ تھااورگفتگومیں ادبیت اور فصاحت و بلاغت غالب رہا کرتی تھی اورآپ کے سامعین میں ایک معقول تعدادصرف آپ کی زبان دانی سے محظوظ ہونے آتی تھی۔بعد میں آنے والے ماہرین عربی زبان جنہیں صرفی و نحوی عالم کہاجاتاہے،انہوں نے آپ کے اشعارکو عربی گرائمرکی بنیادقراردیا۔تعامل سنت نبویﷺ اثاثہ حیات رہا اس لیے امت نے آپ کو ”ناصر السنۃ“کا لقب بھی عطا کیاہے۔آپ اپنی رات کے تین حصے کرتے تھے،ایک حصہ تعلیم،دوسرا حصہ عبادت و ریاضت اور تیسرے حصے میں آرام فرماتے تھے۔گالوں پر گوشت بہت کم تھا،جب چہرے پر ہاتھ رکھتے تو ریش مبارک ہتھیلیوں میں چھپ جاتی تھی،گھنگریالے بالوں پر رنگ حناجماتے تھے۔طبیعت میں نفاست و نزاکت بہت زیادہ تھی اسی لیے عطریات کابہت اعلی ذوق پایاتھا حتی کہ مسجد کے جس ستون سے سہارالے کر درس ارشادفرماتے تھے وہ بھی معطر کیاجاتاتھا۔درازقد تھے اور خوش لباسی میں اپناثانی نہیں رکھتے تھے۔
امام شافعی ؒنے فقہ شافعی کی بنیاد رکھی اور اسلامی قوانین کو مرتب کرنے کے لیے قانون سازی کی۔اس مکتب فکر کے ماننے والے ”شوافع“کہلاتے ہیں۔امام شافعی کی کتب میں سب سے اہم کتاب ”الرسالہ“ہے جس میں انہوں نے اسلامی قانون سازی کے جملہ اصول مر تب کیے ہیں۔مجتہدین مطلق میں سے صرف امام شافعی واحد ایسے امام ہیں جنہوں نے اپنے اصول ہائے فقہ کو خود مرتب کیا،باقی ائمہ کے اصولوں کو ان کے بعد آنے والوں نے یاان کے شاگردوں نے مرتب کیا۔”کتاب الام“ بھی امام شافعیؒ کی مرتب کردہ کتاب ہے جو فقہ شافعی کی امہات الکتب میں شمار کی جاتی ہے۔امام شافعی ؒکی روایت کردہ حدیثوں کو ”مسند امام شافعی“کے نام سے جمع کیاگیاہے،ان کے علاوہ امام شافعی سے کئی عربی نظمیں اور اشعاربھی منسوب ہیں جو ادب کی کتب میں گاہے گاہے نظر آتے ہیں۔ان کی فقہ نے امت مسلمہ میں صدیوں طویل پزیرائی حاصل کی۔آج بھی انڈونیشیا،ملائشیا،سری لنکاکے مسلمان اور کچھ افریقی و عرب ممالک کے خطے کلی یا جزوی طورپر فقہ شافعی کے پیروکار ہیں۔صلاح الدین ایوبی ؒنے امام شافعی کے مزار پر ایک بہت بڑامدرسہ بھی بنوایا جہاں مسلمان نوجوانوں کو دینی تعلیم فراہم کی جاتی تھی۔امت مسلمہ کی تاریخ میں بعض بڑے بڑے نام فقہ شافعی کے پیروکار رہے ہیں،ان میں امام بیہقیؒ،حکیم النیشاپوریؒ،جلال الدین سیوطیؒ،امام الذہبیؒ،امام غزالیؒ،ابن حجرالعسقلانیؒ،یحیی بن شرف النووی ؒاور امام الماوردیؒکے اسما ء سرفہرست ہیں۔
فقہ شافعی میں اسلامی قانون کا سب سے بڑا ماخذکتاب اللہ کومانا گیاہے یعنی قانون سازی کرتے ہوئے سب سے پہلی ترجیح قرآن مجید ہوگا،پھر سنت رسول اللہ ﷺ کوجس میں محسن انسانیت ﷺ کے اقوال،افعال اور سکوت شامل ہیں،قانون سازی میں تیسری ترجیح اجماع امت ہے جس میں اولین مقام اجماع اصحاب رسولﷺکا ہے اور پھر بعد میں آنے والے علمائے حق کا اجماع۔دیگرمکاتب فکرمیں اجماع کے بعد قیاس کااعتبارکیاجاتاہے لیکن فقہ شافعی میں اجماع کے بعد کسی ایک صحابی کے فتوی کومعتبرجاناجاتاہے،یعنی قیاس سے پہلے دیکھاجائے گا کہ نوپیش آمدہ مسئلہ میں کسی صحابی کا قول ہے؟؟اگرقول میسر آگیاتو قیاس پر عمل نہیں کیاجائے گااورقول صحابی کو کسی بھی قیاس پر ترجیح حاصل ہو گی تب اس کے بعد قیاس شرعی کی باری آتی ہے۔دیگرمدرسہ ہائے فقہ کے معتبر ماخذاستحصان اوراستصلاح سے شوافع انکارکرتے ہیں اور ان کی شرعی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ان دونوں ماخذوں میں انسانی سہولت کوپیش نظر رکھ کر احکام شریعت سے گنجائش نکالی جاتی ہے لیکن فقہائے شافعیہ اس قانون سازی کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔اس فقہ کوتاریخ اسلام میں سلجوقیوں نے،ایوبیوں نے،مصر کے مملوکوں نے، شام کے حکمرانوں ”الزنکیہ“نے اور ماضی قریب میں شریف مکہ نے اپنی اپنی ریاستوں میں بطورسرکاری قانون کے نافذ کیا۔ابتدامیں عثمانی ترکوں نے بھی فقہ شافعی کو ہی ملکی قانون کے طورپر اپنی ریاست میں نافذکیاتھالیکن بعد میں بوجوہ فقہ حنفی کونافذ کردیاگیا۔فی زمانہ اس مسلک اسلامیہ کے پیروکارزیادہ تر مشرقی مصر،صومالیہ،اریتیریا،ایتھوپیا،جبوتی،یمن،فلسطین،لبنان،وسطی ایشیائی ریاستیں اورانڈونیشیا،ملائشیا،سری لنکا،مالدیپ،سنگاپور،برونائی فلپائین اورتھائی لینڈ میں پائے جاتے ہیں۔
اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر...