(Last Updated On: )
تاریخی حقائق:
٭… پاکستان رائٹرز گلڈ
29 جنوری 1959ء کو کراچی (کے کے جی اے ہال) میںملک بھر سے آئے ہوئے 212 ادیبوں کا ایک کنونشن شروع ہوا جو تین دن تک جاری رہا۔ اس کنونشن میں پاکستان کے ادیبوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک انجمن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا نام ’’پاکستان رائٹرز گلڈ ز‘‘رکھا گیا۔ پاکستان رائٹرز گلڈکے پہلے اجلاس کی صدارت بنگالی زبان کے معروف شاعر جسیم الدین نے کی جب کہ اس میں استقبالیہ خطبہ پیش کرنے کا اعزاز اُردو کے مشہور ادیب شاہد احمد دہلوی کے حصے میں آیا۔ کنونشن کی افتتاحی تقریر مرزا محمد سعید نے کی۔ کنونشن کا آخری اجلاس 31 جنوری 1959 ء کو منعقد ہوا۔ صدارت مولوی عبدالحق نے کی ۔اس اجلاس میں صدر مملکت جنرل ایوب خان نے ایک عام مہمان کی طرح شرکت کی۔ اس اجلاس میں رائٹرز گلڈکا منشور پڑھنے کا اعزاز ابن الحسن کے حصے میں آیا جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ پاکستان رائٹرز گلڈز پاکستان کے ادیبوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم ہوئی تھی چنانچہ اس کی بڑی پزیرائی ہوئی۔ پاکستان کے طول و عرضسے سینکڑوں معتبر ادیب اور شاعر اس ادارے کے رکن بنے۔ رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام متعدد ادبی انعامات کا آغاز بھی ہوا جو ملک کے سب سے بڑے اور سب سے اہم ادبی انعام قرار پائے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کی فعالیت کم ہوتی چلی گئی‘ ان دنوں یہ ادارہ برائے نام ہی زندہ ہے۔
٭… مقصود احمد ( پاکستانی کرکٹر)
29 جنوری 1955ء کا واقعہ ہیکہ لاہور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹیسٹ میچ جاری تھا۔ جب پاکستان کے کھلاڑی مقصود احمد کا انفرادی اسکور 99 رنز پر پہنچا تو انہیں گپتے کی گیند پر تھمانے نے اسٹمپڈ کردیا۔ مقصود احمد کے آئوٹ ہونے کی خبر سن کر نواب شاہ میں ایک شخص دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگیا۔جبکہ ملک کے کئی حصوں سے کئی افراد کے بے ہوش ہونے کی خبریں بھی موصول ہوئیں۔ مقصود احمد ٹیسٹ کرکٹ میں 99 رنز کے اسکور پر آئوٹ ہونے والے پاکستان کے پہلے کھلاڑی تھے۔وہ اس کے بعد بھی کبھی سنچری اسکور نہیں کرسکے۔ وہ دنیا کے ان 9 کھلاڑیوں میں شامل ہیں جن کا ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ سے زیادہ انفرادی اسکور 99 رنز ہے۔ ان کھلاڑیوں میں پاکستان کے عاصم کمال بھی شامل ہیں۔ اسی ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی ٹیم میں ایک نیا کھلاڑی میران بخش بھی شامل تھا۔ جس کی عمراس ٹیسٹ میچ کے آغاز کے وقت 47 سال 284 دن تھی یوں میران بخش کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے پاکستان میں سب سے زیادہ عمر میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔اس پہلے ٹیسٹ میں میران بخش نے 86 رنز کے عوض 2 وکٹیں حاصل کیں اور ایک رن بناکر ناٹ آئوٹ رہے۔
ولادت:
٭… ڈاکٹر عبد السلام ( پاکستانی نوبیل انعام یافتہ سائنس دان )
29جنوری1926 ء پاکستان کے واحد نوبیل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی تاریخ پیدائش ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام موضع سنتوک داس ضلع ساہیوال میں پیدا ہوئے ۔ جھنگ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہورسے ایم ایس سی کیا۔ ایم ایس سی میں اوّل آنے پر انہیں کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالر شپ مل گیا ۔چنانچہ 1946ء میں وہ کیمبرج چلے گئے جہاں سے انہوں نے نظری طبعیات میں پی ایچ ڈی کیا۔ 1951ء میں وہ وطن واپس آئے اور پہلے گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سر انجام دینے لگا۔ 1954ء میں وہ دوبارہ انگلستان چلے گئے وہاں بھی وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے ۔ 1964ء میں ڈاکٹر عبدالسلام نے اٹلی کے شہر ٹریسٹ میں انٹرنیشنل سینٹر برائے نظری طبعیات کی بنیاد ڈالی۔ 1979ء میں انہیں طبعیات کا نوبیل انعام دیا گیا۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی تھے۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز کے اعزازات بھی پیش کئے ۔ ڈاکٹر عبد السلام کو دنیا کی 36یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں بھی دیں ۔ اس کے علاوہ انہیں 22ممالک نے اپنے اعلیٰ اعزازات سے نوازا ۔ جن میں اُردن کا’’ نشانِ استقلال‘‘، وینزویلا کا’’ نشانِ اندرے بیلو‘‘، اٹلی کا نشانِ میرٹ’’ ہاپکنز پرائز، ایڈمز پرائز‘‘،’’ میکسویل میڈل، ایٹم پرائز برائے امن، گتھیری میڈل، آئن اسٹائن میڈل اور لومن سوف میڈل ‘‘سرِفہرست ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے نظری طبعیات اور تیسری دنیا کی تعلیمی اور سائنسی مسائل کے حوالے سے 300 سے زیادہ مقالات تحریر کئے۔ جن میں سے چند کتابی صورت میں شائع بھی ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے 21 نومبر 1996ء کو لندن میں وفات پائی۔وہ ربوہ میں دفنہیں ۔
وفات:
٭…حضرت علی بنِ ابو طالب ( چوتھے خلیفہ ،حضور نبی کریم ؐ کے داماد )
وِیکی پیڈیا( آزاد دائرۃ المعارف )کے مطابق ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُریشی (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء) نبی ٔ آخر الزماں ، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ کے چچا زاد اور داماد تھے۔ حضرت عثمانؓ بن عفان کے بعد چوتھے خلیفہ کے طور پر سنہ 656ء سے 661ء تک حکمرانی کی، لیکن انہیں شیعہ مسلمانوں کے ہاں خلیفہ بلا فصل، پہلا امام اور وصی رسول اللہ سمجھا جاتا ہے۔
ابوالحسن اورابوتراب کنیت، حیدر (شیر)لقب، والد کا نام ابوطالب اوروالدہ کا نام فاطمہ تھا۔ پوراسلسلہ نسب یوں ہے:
علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مروہ بن کعب بن لوی
چونکہ ابوطالب کی شادی اپنے چچا کی لڑکی سے ہوئی تھی۔ اس لیے حضرت علی ؓ نجیب الطرفین ہاشمی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی تھے۔
روایات کے مطابق حضرت علیؓ، مقدس ترین اسلامی شہر مکہ میں کعبہ کے اندر جائے حرمت میں پیدا ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ بچوں میں پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے، اور کچھ مصنفین کے مطابق پہلے مسلم تھے۔ ابتدائی دَور میںحضرت علیؓ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کی اور ابتدائی مسلم برادری کی جانب سے لڑی گئی تقریباً تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد انہوں نے پیغمبر ِاسلام کی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا ؓ سے شادی کی۔چوتھے خلیفہ حضرت عثمانؓ بن عفان کیشہادت کے بعد سنہ 656ء میں صحابہ نے اُنہیں خلیفہ منتخب کیا۔حضرت علیؓ نے اپنے دَورِ خلافت میں خانہ جنگیاں دیکھیں اور سنہ 661ء میں جب وہ جامع مسجد کوفہ میں نماز پڑھ رہے تھے‘تو عبد الرحمن بن ملجم نامی ایک خارجی نے اُن پر حملہ کر دیا ۔ اس حملے کے نتیجے میں حضرت علی ؓ شدید زخمی ہوگئے تھے چنانچہ دودن کے بعدشہید ہو گئے۔
حضرت علیؓ شیعوں اور سنیوں، دونوں کے ہاں سیاسی طور پر اور روحانی طور پر اہم ہیں۔فرقوں کے نزدیک حضرت علیؓ کے متعلق متعدد سوانح عمریاں، ایک دوسرے کے نزدیک درست نہیں ہیں۔ لیکن وہ اس بات پر تمام متفق ہیں کہ وہ نہایت جری ، نڈر ، پابند صو م و صلوۃ مسلم اور قرآن و سنت پر سختی سے کاربند تھے۔سنیحضرت علیؓ کو چوتھا اور آخری خلیفہ راشد سمجھتے ہیں جبکہ شیعہ واقعہ غدیر خم کی تاویل کر کے انہیں نبی ٔ آخر الزماں ؐ کے بعد پہلا اِمام مانتے ہیں۔ شیعوں کا یہ بھی ماننا ہے کہحضرت علیؓ اور دیگر شیعہ آئمہ (اہلِ بیت سے تمام) بھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشین ہیں۔ اسی اختلاف پر اُمت ِمسلمہ کو شیعہ اور سنی فرقوں میں تقسیم کیا تھا۔حضرت علیؓ نے مختلف غیر مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی پزیرائی حاصل کی ہے جیسے کہ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے عالمی تنظیم نے ان کے طرزِ حکمرانی اور سماجی انصاف کی بہت تعریف کی ہے۔
٭… محمد علوی ( معروف شاعر )
29جنوری 2018ء۔معروف شاعر محمد علوی(10 اپریل 1927 – 29 جنوری 2018)کا یومِ وفات ہے ۔ محمد علوی اُردو کے اُن شاعروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو ادب کو تازگی فراہم کی۔ محمد علوی 1927ء میں احمد آباد (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم احمد آباد میں حاصل کی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے اعلی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے متعدد غزلیں اور نظمیں لکھیں۔
محمد علوی کا اُردو غزلوں پر مشتمل شعری مجموعہ ’’ چوتھا آسمان‘‘جو مسلمانوں کے علما کے درمیان اُس وقت تنازعے کا موضوع بن گیا ۔جب اس میں ایک شعر لکھا گیا جس کا عنوان تھا ’’ایک اچھا نبی بھیجیں‘‘۔ بعدازاں 1994 ء میں جامع مسجد کے امام کے فتوے کے ذریعے محمد علوی کو ’’کافر‘‘ کہا گیا۔البتہ بعدمیں انہوں نے اسلامی تھیولوجی سکول، احمد آباد کی طرف سے تنقید کے بعد اپنی کتاب سے متعلقہ اشعار حذف کر دیئے ۔
محمد علوی کو شعری مجموعہ ’’چوتھا آسمان‘‘ پر 1992ء میں ’’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ‘‘اور غالب اکیڈمی کا ’’غالب ایوارڈ ‘‘بھی دیا گیا ۔’’چوتھا آسمان ‘‘میں چھیاسی غزلیں، چھیاسٹھ نظمیں، کچھ اشعارشامل تھے ۔اس کے علاوہ محمد علوی کی دیگر چھ کتابیںشائع ہو چکی ہیں ۔جن میں (1)خالی مکان 1963ء،(2)آخری دن کی تلاش 1967ء، (3)تیسری کتاب 1978ء،(4)چوتھا آسمان 1992ء(5)رات اِدھر ، اُدھر روشنی 1995ء شامل ہیں۔ محمد علوی 29 جنوری 2018 ء کودہلی میں وفات پاگئے ۔
محمد علوی کی ایک اُردو غزل سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
اچھے دن کب آئیں گے
کیا یوں ہی مر جائیں گے
اپنے آپ کو خوابوں سے
کب تک ہم بہلائیں گے
بمبئی میں ٹھہریں گے کہاں
دلی میں کیا کھائیں گے
موت نہ آئی تو علویؔ
چھٹی میں گھر جائیں گے
٭٭٭