27فروری 2011ء نجم الدین اربکان،اتحاد بین المسلمین کے داعی اور سابق ترک وزیر اعظم نجم الدین اربکان 29 اکتوبر1926ء کو شمالی ترکی کے سینوپ نامی علاقے میں پیدا ہوئے ‘جو بحیرہ ٔ اسود کے ساحل پر واقع ہے۔آپ کے والد کا نام محمت صابری تھا۔آپ ان کی دوسری بیوی کے سے تھے۔1969ء سے اربکان نے سیاست میں عملی حصہ لینا شروع کیا۔ اپنی پہلی سیاسی جماعت نیشنل وائس پارٹی تشکیل دی جو اسلامی طرزسیاست کی حامل تھی۔سیکولر تنگ نظر حکومت نے اس پر 1971ء میں پابندی عائد کردی۔اربکان نے 1972ء میں نیشنل سالویشن پارٹی قائم کی اور 1973 ء کے انتخابات میں حصہ لے کر 48 نشستیں حاصل کرکے سیکولرپسندوں کی نیندیں اڑادیں۔1974ء میں نائب وزیراعظم بھی منتخب ہوئے۔1977ء کے انتخابات میں نیشنل سالویشن پارٹی ملک کی تیسری بڑی طاقت بن کر اُبھری مگر تین سال بعد ہی ترک فوج کے سیکولر پسندوں نے اس جماعت کو کالعدم قرار دے کراربکان کوقید کر دیا۔یہ ظالمانہ پابندی 1987ء تک رہی جو ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں ختم ہوئی۔اس کے بعد اربکان نے رفا نامی ایک پارٹیبنائی اور 1990ء کے انتخابات میں 40 نشستیں حاصل کیں۔یہی وہ انتخابات تھے جس کے بعد ترک سیاست میں اسلامی عنصر کو ایک اہم رکن شمار کیا جانے لگا۔1995 میں ہونے والے انتخابات میں رفاء پارٹی نے ملک کے 21 فیصد ووٹ حاصل کرلیے اور ایک دوسری جماعت کے ساتھ شراکت میں حکومت قائم کرلی۔ترکی کے ایوان ِنمائندگان نے آپ کو اپنا قائد ایوان منتخب کر لیا۔عدنان یندریس شہید کے بعد ترکی کے ایوان ِاقتدار میں پہلا اسلام پسند مرد جری داخل ہوا۔آ پ نے ترک عوام کو معیارِ زندگی بلند کرنے کی خاطر اہم کثیر الجہتی اقدامات کئے۔اربکان کی معتدل مزاجی اور فراست کا کرشمہ یہ ہے کہ آپ نے ترک سیاست کا محور سیکولرازم سے اسلام میں تبدیل کر دیا۔عالم اسلام کا یہ قابلِ فخر سرمایہ 27 فروری 2011ء کو انقرہ کے ایک ہسپتال میں حرکتِ قلب بند ہوجانے کے باعث اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔آپ کی وفات سے نا صرف ترکی بلکہ سارا عالمِ اسلام اپنے ایک عظیم ترین رہنما سے محروم ہو گیا۔
27فروری1987ء اولمپین لطیف الرحمن ‘ہاکی کے مشہور کھلاڑی لطیف الرحمن یکم جنوری 1929ء کو اندور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1948ء میں لندن میں منعقد ہونے والے اولمپک کھیلوں میں انہوں نے بھارت کی نمائندگی کی بعدازاں وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور 1952ء اور 1956ء کے اولمپک کھیلوں اور 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں پاکستان کی جانب سے شریک ہوئے۔ وہ علی اقتدار شاہ دارا اور اختر حسین کے ساتھ دنیائے ہاکی کے اُن تین کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اولمپک کھیلوں میں دو ممالک کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا۔ لطیف الرحمن اسپیڈ، بال کنٹرول اور نپاتلا کراس لگانے کے ماہر تھے۔ مغربی ممالک نے انہیں فلائنگ ہارس کا خطاب عطا کیا تھا۔ یہ خطاب بعدازاں سمیع اللہ کے حصے میں بھی آیا۔ انہیں پاکستان کا دھیان چند بھی کہا جاتا تھا۔ 27 فروری 1987ء کو لطیف الرحمن فیصل آباد میں وفات پاگئے۔ لطیف الرحمن کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
27 فروری 2007ء کو پاکستان کی مشہور فلمی اداکارہ راگنی وفات پاگئیں۔ راگنی کا اصل نام شمشاد بیگم تھا اور وہ 1923ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے سب سے پہلے فلم ساز اور ہدایت کار روشن لال شوری کی فلم دلا بھٹی میں راگنی کے فلمی نام سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ اسی فلم میں انہیں’’ آہو چشم ‘‘کا خطاب ملا جو اُن کے نام کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد انہوں نے فلم ’’سہتی مراد، ہمت، نشانی، میرا ماہی، راوی پار، پٹواری، پونجی، کیسے کہوں، شیریں فرہاد،نیک پروین اور مندری ‘‘وغیرہ میں کام کیا۔ تاہم انہیں اصل شہرت ہدایت کار اے کاردار کی فلم’’ شاہ جہاں‘‘ سے ملی جس میں انہوں نے ممتاز محل کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئیں اور فلم’’ مندری ‘‘سے اپنے پاکستانی کیریئر کا آغاز کیا۔ پاکستان میں بننے والی ان کی اہم فلموں میں ’’بے قرار، کندن، اکیلی، غلام، گمنام، نوکر، بیداری، انار کلی، نائلہ، جلوہ، صاعقہ، تاج محل اور آب حیات‘‘ کے نام شامل ہیں۔
27 فروری 2004ء کو پاک بحریہ کے پہلے کمانڈر انچیف حاجی محمد صدیق چوہدری کراچی میں وفات پاگئے۔ حاجی محمد صدیق چوہدری 1911ء میں بٹالہ ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے ۔1933ء میں رائل انڈین نیوی میں کمیشن حاصل کیا۔ 1937ء میں انہوں نے اس بحری دستے کی قیادت کی تھی جو لندن میں شاہ ایڈورڈ ہشتم کی رسم تاجپوشی میں شریک ہوا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران انہوں نے بحیرۂ احمر اور بحیرۂ عرب کی لڑائیوں میں حصہ لیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے پاک بحریہ میں خدمات انجام دیں ۔حاجی محمد صدیق پاکستان بحریہ کے سب سے سینئر آفیسر تھے۔ 31 جنوری 1953ء کو انہوں نے پاک بحریہ کے پہلے مسلمان اور پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ انہوں نے ایچ ایم پی ایس دلاور پر منعقد ہونے والی ایک باوقار تقریب میں اپنے پیشہ و رایئر ایڈمرل جیمز الفریڈ جیفورڈ سے اپنے عہدے کا چارج لیا۔ وہ 28 فروری 1959ء تک اس عہدے پرفائز رہے۔ ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف پر انہیں بابائے پاک بحریہ کہا جاتا تھا جبکہ حکومتِ پاکستان نے انہیں ہلال پاکستان کا اعزاز عطا کیا تھا۔ 28 فروری 2004ء کووائس ایڈمرل (ر) حاجی محمد صدیق چوہدری کراچی میں فوجی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔یہ وہی تاریخ تھی جب 45 برس پہلے وہ پاک بحریہ کی سربراہی سے ریٹائر ہوئے تھے۔
27فروری 2016ء پاکستان کا عظیم بیٹا کیپٹن عمیر عباسی شہید9 ستمبر1988ء میں منگلا میں پیدا ہوا۔تین بہن بھائیوں میں عمیر سب سے بڑے تھے۔والد لیفٹیننٹ کرنل (ر) زاہد محمود عباسی بھی آرمی میں تھے۔ اپنے والد کو دیکھ کرشوق ہوا کہ آرمی جوائین کرکے ارض ِپاک کی حفاظت کرنی ہے۔ بچپن سے ہی ہر چیز وہ پسند تھی جو آرمی سے منسوب تھی۔ابتدائی تعلیم کراچی، ملتان، اوکاڑہ سے حاصل کی۔ میٹرک اور ایف ایس سی فضائیہ ڈگری کالج کامرہ سے کیا۔عمیر عباسی ہونہار طالب علم تھے اور اپنی منزل کا تعین بہت پہلے کرچکے تھے کہ پاک فوج میں جانا ہے۔ایف ایس سی کے بعد فوج میں شمولیت کے لئے درخواست دی سلیکشن کے مختلف مراحل سے گزر کر اپریل 2008 ء میں 121 لانگ کورس جوائن کیا۔ دوسال کی ٹریننگ مکمل کی۔ 2010ء میں پاس آؤٹ ہوئے۔14 ایف ایف رجمنٹ کو جوائن کیا اور 2010ء میں پنوں عاقل میں پوسٹنگ ہوگئی۔اس دوران سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پرانہوں نے سیلاب زدگان کے لئے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔اس کے بعد گوجرانوالہ میں پوسٹنگ ہوئی۔ کوئٹہ میں ینگ آفیسرز کورس الفا گریڈز کے ساتھ پاس کیا۔اس کے بعد کیپٹن عمیر عباسی کی پوسٹنگ 49 ایف ایف کے ساتھ میران شاہ ہوگئی۔ پھر دتہ خیل میں چھ ماہ کے لئے تعینات رہے اور اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کروایا گیا۔چھ ماہ کے بعد کیپٹن عمیر اپنی یونٹ کے ساتھ امن مشن پر لائبیریا چلے گئے اور ڈیڑھ سال وہاں رہے۔وطن واپسی کے بعد کیپٹن عمیر عباسی کی یونٹ کو شوال میں تعینات کردیا گیا۔ کیپٹن عمیر کی یونٹ نے دہشت گردوں کی آخری آماجگاہ کو ختم کرنا تھا۔ ضرب عضب کے آغاز پر بہت سے دہشت گرد اس علاقے میں آکر چھپ گئے تھے۔ تین مہینے کیپٹن عمیر شوال میں رہے اور دہشت گردوں پر کاری ضرب لگائی۔شوال کا آپریشن بہت مشکل تھا۔ کیپٹن عمیر نے خود اپنی یونٹ کے ساتھ اور سینئر آفیسرز کی رہنمائی میں کے جی ٹاپ آپریشن کی پلاننگ مکمل کی۔خود ایک مشکل اپروچ لیتے ہوئے انہوں نے پیش قدمی کی۔ڈیلٹا کمپنی کی کمانڈ کرتے ہوئے کیپٹن عمیر نے پندرہ کلومیٹرکافاصلہ پیدل طے کیا۔ آگے دہشت گردموجودتھے جنہوں نے فائر کھول دیا۔لیکن کیپٹن عمیر آگے بڑھتے رہے۔اسی لڑائی میں ڈھائی تین سو دہشت گردوں نے ایک ساتھ جوابی حملہ کیا پہلی گولی کیپٹن عمیر کو بازو میں لگی لیکن وہ آدھا گھنٹہ زخمی بازو کے ساتھ لڑتے رہے اس کے بعد دوسری گولی انہیں سینے پر لگی۔وائرلیس سیٹ پر انہوں نے اپنے سی او کو کہا میں اب جارہا ہوں میری کمپنی آپ کے حوالے میری طرف سے اللہ حافظ پھر دو بار کلمہ طیبہ پڑھا۔ زیرو لائن پاک افغان باڈر پر27 فروری 2016 ء کو کیپٹن عمیر عبداللہ عباسی نے جامِ شہادت نوش کیا۔
٭٭٭