26 جولائی یومِ ولادت ابنِ صفی
نوٹ یہ پوسٹ عالمی اردو ادب گروپ پر لگی تھی اب 26 جولائی یومِ ولادت ابنِ صفی کے موقع پر محترم ابنِ صفی مرحوم کے صاحبزادے احمد صفی بھائی کے اضافی کمنٹس کے ساتھ جو انہوں نے میرے مضمون پر دیئے تھے اور جو میرے لئے بہت اعزاز کی بات ہے۔ دوبارہ لگائی جا رہی ہے امید ہے پسند فرمائیں گے۔
طاہر جولانی
احمد صفی
"بہت متوازن اور مستند معلومات پر مبنی مضمون۔ بہت شکریہ۔ ابو کی آخری بیماری کی اطلاع ہمارے معالج ڈاکٹر قمرالدین صدیقی صاحب نے مجھے ہی دی تھی مگر میں نے اپنی والدہ اور پھر بہن بھائیوں کو بتا دیا تھا ۰۰۰ صرف ابو سے کبھی براہ راست بات نہیں کی تھی اس سلسلے میں۔ ان کے پرانے معالج حکیم اقبال حسین صاحب کا کہنا تھا کہ اس بیماری کا علم ہو جانے پر مریض گھل گھل کر ختم ہو جاتا ہے۔ مجھے اب اس بات سے اختلاف ہے مگر اس وقت انہی کے مشورے پر عمل کیا تھا۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ ابو کو اپنی اصل بیماری کا بخوبی علم تھا۔"
رب ارحمھما کما ربیٰنی صغیراً
مزید تصویر میں واضع نظر آنے والی انگوٹھی جو مرحوم ابنِ صفی پہنے ہوئے ہیں اس کے بارے میں احمد صفی صاحب کہتے ہیں کہ
"ابو کے ہاتھ میں یہ عقیق کی انگوٹھی ہمیشہ دیکھی۔ کس نے دی یا کیوں پہنتے تھے علم نہیں۔ بناوٹ ایسی تھی کہ عقیق انگوٹھی کی پشت سے ان کی جلد سے مس ہوتا رہتا تھا۔ اس کا رنگ بدلتا تھا تو دکھاتے تھے۔ آخری بیماری کے دور میں اس کا رنگ بہت گہرا ہو گیا تھا۔ انتقال کے بعد انگوٹھی کہاں گئی اس کا بھی علم نہیں ۔ شائد کہیں محفوظ ہو مگر مجھے علم نہیں"
ابنِ صفی ادیب اور شاعر
ابن صفی 26 جولائی 1928ء کو الہ آباد، اتر پردیش کے ایک گاؤں نارا میں صفی اللہ اور نذیرا (نضیراء) بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔ اردو زبان کے شاعر نوح ناروی رشتے میں ابن صفی کے ماموں لگتے تھے۔ ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ اگست 1952ء میں ابن صفی اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ پاکستان آگئے جہاں انہوں نے کراچی کے علاقے لالو کھیت کے سی ون میں 1953ء سے 1958ء تک رہائش اختیار کی۔ ان کے والد 1947ء میں کراچی آچکے تھے۔
تعلیم
انہوں نے ابتدائی تعلیم نارا کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ میٹرک ڈی اے وی اسکول الہ آباد سے کیا جبکہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم الہ آباد کے ایونگ کرسچن کالج سے مکمل کی۔ 1947ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا۔ اسی اثنا میں برصغیر میں تقسیم کے ہنگامے شروع ہوگئے۔ ہنگامے فرو ہوئے تو تعلیم کا ایک سال ضائع ہوچکا تھا لہذا بی اے کی ڈگری جامعہ آگرہ سے یہ شرط پوری کرنے پر ملی کہ امیدوار کا عرصہ دو برس کا تدریسی تجربہ ہو۔
ملازمت
1949ء سے 1952ء کے عرصے میں ابن صفی پہلے اسلامیہ اسکول اور بعد میں یادگار حسینی اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔ اگست 1955ء میں ابن صفی نے خوفناک عمارت کے عنوان سے عمران سیریز کا پہلا ناول لکھا اور علی عمران کے کردار کو راتوں رات مقبولیت حاصل ہوئی۔
ادبی خدمات
سن 1948ء میں عباس حسینی نے ماہنامہ نکہت کا آغاز کیا۔ شعبہ نثر کے نگران ابن سعید (پروفیسر مجاور حسین رضوی) تھے جبکہ ابن صفی شعبہ شاعری کے نگران مقرر ہوئے۔ رفتہ رفتہ وہ مختلف قلمی ناموں سے طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں لکھنے لگے۔ ان قلمی ناموں میں طغرل فرغان اور سنکی سولجر جیسے اچھوتے نام شامل تھے۔ سن 1948ء میں نکہت میں ان کی پہلی کہانی فرار شائع ہوئی۔
1951ء کے اواخر میں بے تکلف دوستوں کی محفل میں کسی نے کہا تھا کہ اردو میں صرف فحش نگاری ہی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے۔ ابن صفی نے اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ کسی بھی لکھنے والے نے فحش نگاری کے اس سیلاب کو اپنی تحریر کے ذریعے روکنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ اس پر دوستوں کا موقف تھا کہ جب تک بازار میں اس کا متبادل دستیاب نہیں ہوگا، لوگ یہی کچھ پڑھتے رہیں گے۔ یہی وہ تاریخ ساز لمحہ تھا جب ابن صفی نے ایسا ادب تخلیق کرنے کی ٹھانی جو بہت جلد لاکھوں پڑھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ عباس حسینی کے مشورے سے اس کا نام جاسوسى دنيا قرار پایا اور ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول دلیر مجرم مارچ 1952ء میں شائع ہوا۔
اسرار پبلیکیشنز کا قیام
ناول بھیانک آدمی کو ماہانہ جاسوسی دنیا نے نومبر 1955ء میں کراچی کے ساتھ ساتھ "الہ آباد" سے بیک وقت شائع کیا تھا۔ اکتوبر 1957ء میں ابن صفی نے اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ٹھنڈی آگ شائع ہوا۔ 1958ء میں ابن صفی، لالو کھیت سے کراچی کے علاقے ناظم آباد منتقل ہوگئے۔ جنوری 1959ء میں ابن صفی اسرار پبلیکیشنز کو فردوس کالونی منتقل کرچکے تھے اور یوں انہیں اپنی تخلیقات کو پروان چڑھانے کے لیے ایک آرام دہ ماحول میسر آگیا۔ ناظم آباد کی رہائش گاہ میں وہ 1980ء میں اپنے انتقال تک مقیم رہے۔
ابن صفی کے بقول، ان کے صرف آٹھ ناولوں کے مرکزی خیال کسی اور سے مستعار لئے ہیں باقی کے 245 ناول مکمل طور پر ان کے اپنے ہیں۔
نکہت پبلیکیشنز سے وابستگی
عباس حسینی کی ملکیت میں الہ آباد کے نکہت پبلیکیشنز کے تحت بھارت میں ابن صفی کے ناولوں کی اشاعت عمل میں آتی تھی۔ عباس حسینی نے کانپور سے ابن صفی کے کرداروں پر جعلی ناشروں کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی۔
عباس حسینی سے والہانہ وابستگی
ابن صفی کس حد تک عباس حسینی سے دلی وابستگی رکھتے تھے، اس کا اندازا اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے
” پھر جب میری صحتیابی کی خبریں اخباروں میں چھپنے لگیں تو یار لوگوں نے شوشہ چھوڑا کہ میرے اور عباس حسینی صاحب کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔ اب بھارت میں میری کتابیں ان کے ادارے سے شائع نہیں ہوں گی۔ ان بے چاروں کو یہ نہیں معلوم کہ ایک درجن کتابیں تو میں عباس حسینی کی مسکراہٹ پر قربان کرسکتا ہوں (بشرطیکہ کسی بات پر جھینپ کر مسکرائے ہوں)۔ “
اردو ادب میں مقام
جناب ابن صفی بلاشبہ اردو کے سب سے بڑے جاسوسی ناول نگار گزرے ہیں اور ان کی تحریروں میں ایسا جادو ہے کہ 50 سال قبل لکھے گئے ناول جب آج کے دور کا انسان بھی پڑھتا ہے تو وہ سب بھول جاتا ہے۔ ابن صفی کا لگایا ہوا پودا عمران سیریز اس قدر تناور ہوا کہ آج تک یہ ثمر بار ہے اور کئی ایک مصنفین اس سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں
۔اردو میں آزادی کے بعد لکھے جانے والے ناولوں کے دور پر بہت کم لکھا گیا ہے پھر بھی ڈاکٹر اعجاز حسین نے ’’اردو ادب آزادی کے بعد‘‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ’’اردو ناول سمت و رفتار‘‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر سلیم احمد نے اپنی کتاب"اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ" میں" ابن صفی کا "مختصر ترین ذکر کیا ہے۔ ابن صفی کے فن کو سراہنے والی ادبی شخصیات میں بابائے اردو مولوی عبدالحق، پروفیسر مجنوں گورگھپوری، محمد حسن عسکری، کالم نگار حسن نثار، شاعر امجد اسلام امجد، صحافی و ادیب قاضی اختر جوناگڑھی، سیاسی شخصیات میں فیلڈ مارشل ایوب خان اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب جیسے نام شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر خان نے ابن صفی کے حوالے سے محقق و ادیب راشد اشرف کے نام 2009ء میں اپنے ایک پیغام میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ جن دنوں وہ (ڈاکٹر خان) بڑا میدان، ناظم آباد، کراچی کے قریب رہا کرتے تھے، ابن صفی کے ناولز ان کے زیر مطالعہ رہتے تھے۔ ابن صفی کے فن کا اعتراف کرنے والی مغربی شخصیات میں خاتون ناول نگار اگاتھا کرسٹی، اردو زبان کی جرمن اسکالر خاتون کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ اور نارویجیئن پروفیسر فن تھیسن شامل ہیں۔ کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے ابن صفی کے فن کے بارے میں کہا تھا:
” ابن صفی کی جس بات سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کے کردار فریدی اور عمران کبھی کسی عورت کی جانب نگاہ بد پھیرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ ابن صفی کے جاسوسی ناول کی جاسوسی ادب میں اس لحاظ سے انوکھی حیثیت ہے کہ اس میں ایک مشن یا مقصد موجود ہے۔ اس لیے اسے محض تفریحی ادب نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے جاسوسی ناولوں میں فکری و ذہنی تربیت بھی پوری طرح موجود ہوتی ہے۔ “
پروفیسر ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی نے ابن صفی کو یوں خراج تحسین پیش کی "میں نے کبھی ابن صفی کے ناولوں کو کتابوں کے درمیان چھپا کر نہیں رکھا۔ ہمارے انٹلکچوئل اسے ایک سب اسٹینڈرڈ مواد گردانتے ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی ابن صفی کے تخلیقی ذہن کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ ابن صفی کے ناول کیوں پڑھتے ہیں تو میں جواب دیتا ہوں، کیونکہ ابن صفی ہمارے کئی ناول نگاروں سے بہتر زبان لکھتے ہیں۔" جب محمد حسن عسکری نے یہ شکایت کی کہ اردو نثر کا فن زوال پزیر ہے اور کوئی اچھی زبان نہیں لکھ رہا ہے تو میں نے انہیں اب صفی کی جاسوسی دنیا کا ایک ناول پڑھنے کو دیا۔ اس کے بعد وہ ہر ماہ پوچھتے تھے "کشفی صاحب، ابن صفی کا نیا ناول آ گیا؟"
ابن صفی اور پی ٹی وی
1977ء کے عام انتخابات کے دوران ان کے ایک ناول ڈاکٹر دعاگو کو پاکستان ٹیلی ویژن نے ٹیلی فلم کی حیثیت سے پکچرائز کیا تھا۔ مشہور اداکار قوی خان نے اس میں عمران کا کردار ادا کیا تھا۔ لیکن کچھ سیاسی الجھنوں کی وجہ سے ناظرین یہ ٹیلی فلم دیکھنے سے محروم رہے۔ روزنامہ جنگ نے اپنی 18، اکتوبر 1979ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع کی۔ "یہ جملہ بار بار سننے میں آتا ہے کہ فلاں فلاں مصنف کو بعید نما نے بلیک لسٹ کر دیا، لیکن کسی مصنف نے بعید نما کو بلیک لسٹ کر دیا ہو یہ عجیب بات ہے۔ ابن صفی کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک بعید نما کے کسی پروگرام میں حصہ نہیں لیں گے جب تک یہ نہ بتایا جائے کہ ان کے ناول ڈاکٹر دعاگو کو ٹیلی کاسٹ کیوں نہیں کیا گیا؟"
طرزِ نگارش
جونک کی واپسی: "میں جانتا ہوں کہ حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم، جرائم نہیں حکمت عملی کہلاتے ہیں۔ جرم تو صرف وہ ہے جو انفرادی حیثیت سے کیا جائے۔"
سہ رنگا شعلہ: "آدمی کس قدر بے چین ہے مستقبل میں جھانکنے کے لیے۔ شاید آدمی اور جانور میں اتنا ہی فرق ہے کہ جانور مستقبل سے بے نیاز ہوتا ہے اور آدمی مستقبل کے لیے مرا جاتا ہے۔"
مہکتے محافظ: "میں عموماً بنجر زمین پر کاشت کرتا ہوں اور کچھ نہیں تو کانٹے دار پودے ہی اگا لیتا ہوں اور وہ کانٹے میرے لیے خون کی بوندیں فراہم کردیتے ہیں۔"
خطرناک لاشیں: "اگر میں اس سڑک پر ناچنا شروع کردوں تو مجھے دیوانہ کہو گے لیکن لاشوں پر ناچنے والے سورما کہلاتے ہیں۔ انہیں اعزاز ملتے ہیں، ان کی چھاتیاں تمغوں سے سجائی جاتی ہیں۔"
صحرائی دیوانہ: "جو عبادت آدمی کو آدمی نہیں بنا سکتی، میں اس عبادت کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھنے پر مجبور ہوں۔"
ہیروں کا فریب: "دنیا کا کوئی مجرم بھی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ قدرت خود ہی اسے اس کے مناسب انجام کی طرف دھکیلتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تم ایک رات بھی اپنی چھت کے نیچے آرام کی نیند نہ سو سکو، زمین پر فتنوں کے علاوہ کچھ نہ اگے۔"
جہنم کی رقاصہ: "یہاں اس ملک میں تمہارے ناپاک ارادے کبھی شرمندہ تکمیل نہیں ہو سکیں گے۔ یہاں کی فضا میں ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا جو خدا کے وجود سے خالی ہو۔"
موت کی آندھی: "جب کوئی ذہین اور تعلیم یافتہ آدمی مسلسل ناکامیوں سے تنگ آجاتا ہے تو اس کی ساری شخصیت صبر کی تلخیوں میں ڈوب جاتی ہے۔"
دشمنوں کا شہر: "ایک پرندے کو سنہرے قفس میں بند کر کے دنیا کی نعمتیں اس کے لیے مہیا کر دو لیکن کیا وہ پرندہ تمہیں دعائیں دے گا ؟"
ابن صفی نے عمران سیریز کے ایک ناول "بےباکوں کی تلاش" پر ایک فلم بھی لکھی تھی "دھماکہ" جو جاوید شیخ کی پہلی فلم تھی اسکے دیگر اداکار رحما ن، شبنم، قربان جیلانی تھے جسے محمد حسین تالپور (مولانہ ہپی) نے پروڈیوس کیا تھا اور قمر زیدی اس کے ہدایتکار تھے اس میں حبیب ولی محمد کی ا یک غزل تھی "راہ طلب میں کون کسی کا- یہ فلم کامیاب نہی رھی-
ابن صفی کا ایک مشہور جملہ تھا کہ " آدمی سنجیدہ ہو کر کیا کرے جبکہ ایک دن اسے اپنی تمام تر سنجیدگی کے ساتھ دفن ہو جانا ہے "
ابن صفی نے عمران سیریز کے ایک ناول "بےباکوں کی تلاش" پر ایک فلم بھی لکھی تھی "دھماکہ" جو جاوید شیخ کی پہلی فلم تھی اسکے دیگر اداکار رحما ن، شبنم، قربان جیلانی تھے جسے محمد حسین تالپور (مولانہ ہپی) نے پروڈیوس کیا تھا اور قمر زیدی اس کے ہدایتکار تھے اس میں حبیب ولی محمد کی ا یک غزل تھی "راہ طلب میں کون کسی کا- یہ فلم کامیاب نہی رھی-
بیماری
1960ء سے 1963ء تک آپ انفصام کے مریض رہے لیکن 1963ء میں وہ حکیم محمد اقبال حسین کے علاج کی مدد سے نہ صرف اس مرض سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوئے بلکہ عمران سیریز کے بہترین ناول ڈیڑھ متوالے کے ہمراہ جاسوسی ادب کے میدان میں پوری توانائی کے ساتھ دوبارہ قدم رکھتے ہوئے اپنے بدخواہوں کو کچھ یوں للکارا: "کیا سمجھتے ہو جام خالی ہے ۔۔۔ پھر چھلکنے لگے سبو آؤ" . 1970ء میں پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (ISI) کو جاسوسی کے حوالے سے غیر رسمی مشاورت بھی دی۔
17 ستمبر، 1979ء کی رات کو آپ پر درد کا پہلہ اور شدید حملہ ہوا اور اس کے بعد صحت مسلسل خراب رہی۔ نومبر 1979ء میں بیماری شدت اختیار کرگئی۔ ڈاکٹروں نے طویل معائنوں اور تکلیف دہ ٹیسٹوں کے بعد ایک خطرناک بیماری، سرطان، کا اندیشہ ظاہر کردیا۔ دسمبر، 1979ء میں آپ کو کراچی کے جناح اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ مزید معائنوں اور ٹیسٹوں نے لبلبہ میں کینسر کی تصدیق کردی۔ اس بات کو ابن صفی سمیت تمام لوگوں سے پوشیدہ رکھا گیا۔ صرف ابن صفی کے فرزند، احمد صفی کو اس بات کا علم تھا۔ اسپتال میں بہترین علاج اور توّجہ سے بظاہر ان کی بیماری میں کمی تو ہوئی، تاہم اسپتال سے گھر آنے کے بعد علاج جاری رہا لیکن بیماری کی وجہ سے ان کے جسم میں متواتر خون کی کمی واقع ہونے لگی۔
وفات
24 جولائی 1980ء کو آپ کی طبیعت معمول سے زیادہ خراب ہوگئی۔ اس بیماری کو تقریباً دس ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا تھا۔دو دن بعد، 26 جولائی، 1980ء کو (یعنی اپنی سالگرہ کے ہی دن) وہ اس جہان سے رخصت ہوئے۔ مشاق احمد قریشی نے لحد میں اتارا۔تدفین قبرستان پاپوش نگر میں ہوئی۔ بقول شاعر "اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے۔"
ابن صفی کے فرزند، احمد صفی، اپنے والد کی وفات کے جانکاہ سانحے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"جمعرات 24 جولائی، 1980ء کو ابو کو بخار آگیا جو اس وقت غیر معمولی بات نہیں تھی لیکن رات ہوتے ہوتے بخار بہت تیز ہوگیا۔ دوسرے دن طبیعت میں خرابی کی وجہ سے میں (احمد صفی) دیر سے سو کر اٹھا۔ امی نے بتایا کہ رات بھر ابو کی طبیعت بہت خراب رہی۔ ابو کو اس وقت بھی خاصا بخار تھا۔ جمعہ کا دن تھا، چھٹی ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر کا ملنا بھی مشکل تھا۔ امی کے مشورے سے میں اور بھیا (ابرار صفی) رحمٰن بھائی کو لینے چلے گئے۔ ڈاکٹر رحمٰن آئے تو ابو کا بخار تیز ہوچکا تھا۔ ان کی سانس اس قدر تیز تیز چل رہی تھی کہ بولنا دشوار تھا۔ ڈاکٹر رحمٰن نے فوراً انجکشن منگوائے، جب انہوں نے انجکشن لگانے کے لیے ابو کی آستین سرکائی تو ابو نے منع کیا " میرے بازو اب مزید مت چھیدو" ۔۔ رحمٰن بھائی نے پاؤں کی رگ میں انجکشن لگایا۔ انجکشن لگنے اور دوا ملنے کے بعد ابو کی طبیعت بہتر ہوگئی اور انہوں نے عادتاً طبیعت سنبھلتے ہی باتیں شروع کردیں۔ شام کے وقت افطار کے بعد عیادت کے لیے حسب معمول لوگوں نے آنا شروع کردیا۔ ابو کو کافی تیز بخار ہونے کے باوجود آنے جانے والوں سے تھوڑی بہت بات چیت کررہے تھے۔ رحمٰن بھائی نے جاتے وقت بھیا سے کہا کہ اس وقت تو حالت قدرے بہتر ہے، انشااللہ صبح سب سے پہلے خون چڑھانے کا انتظام کریں گے۔ یہ ایک ایسی صبح کا ذکر تھا جو کبھی نہ آئی۔ اس رات مجھے (احمد) بھی کافی تیز بخار تھا، میں ابو کے پاس سے اٹھتے ہی بڑے کمرے میں چلا گیا اور جاتے ہی سو گیا۔ رات کو ڈیڑھ بجے کا عمل تھا۔ گھڑیاں دیر ہوئے 26 تاریخ کا اعلان کرچکی تھیں۔ ابو نے سارے دن کے بعد بیت الخلا جانے کو کہا۔ سارا دن اس قدر کمزوری رہی تھی کہ ہاتھ نہ اٹھتا تھا لیکن اس وقت خود اٹھے اور سہارا لے کر کمرے سے متصل باتھ روم گئے۔ وہاں سے واپس آئے تو سانس نہایت تیزی سے چل رہی تھی۔ بھیا کو بلایا کہ پیٹھ سہلا دیں۔ امی نے فوراً بھیا کو جگایا۔ جب بھیا پیٹھ سہلا رہے تھے تو ابو نے کہا " ناحق تم لوگوں کو آدھی رات کے وقت تنگ کررہا ہوں، میری وجہ سے تم لوگوں کو بہت پریشانی ہوتی ہے"۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ تھوڑی دیر میں اچانک تکلیف میں اضافہ ہوگیا۔ کراہنے کی آواز سن کر میں فوراً کمرے میں پہنچا، اس وقت تک ابو لیٹ چکے تھے۔ ان کی آنکھیں چھت میں گڑی ہوئی تھیں اور سانس چلنے کی وجہ سے پورا پلنگ ہل رہا تھا۔ ہم سب پریشان ہوگئے، امی اور بہنیں گھبرا کر رونے اور دعائیں مانگنے لگیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔میں اور بھیا ابو کے ہاتھ پاؤں سہلانے لگے۔ ابو کی حالت دیکھ کر سب کی حالت غیر ہو رہی تھی، بھیا روتے جاتے تھے اور ابو کو جھنجھوڑتے جاتے تھے۔ افتخار (بھائی) فوراً گاڑی لے کر ڈاکٹر کو لینے گئے۔ بھیا اور مجھ میں ابو کے پاس سے ہٹنے کی ہمت نہ تھی۔ امی اور بہنیں پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر دوڑ رہی تھیں۔ اچانک ابو نے زور سے سانس لی اور ان کے چہرے کا کرب یکسر دور ہوگیا۔۔۔۔ وہ بالکل پرسکون ہوگئے۔"
26 جولائی کی صبح ان کے اہل خانہ ان کے پرستاروں کی موجودگی مٹی کا حق مٹی کے سپرد کر آئے تھے۔ وہ 25 اور 26 جولائی کی درمیانی ابن صفی انتقال کرگئے تھے۔
انتقال کے بعد چھپنے والے مشتبہ ناول
نکہت پبلیکیشنز کی جانب سے ابن صفی کے انتقال کے بعد دو ناول ان ہی نام موسوم کر کے چھپے تھے۔ ان کے نام سایے کا قتل اور روشنی کی آواز تھے۔ ان ناولوں کی زبان اور انداز بیان کو دیکھ کر ان کے مصنف ابن صفی ہونے پر شبہ کا اظہار کر رہے تھے۔ مثلاً ابن صفی کے ہر ناول میں لفظ دفعتًا بکثرت مستعمل تھا۔ اس کے برعکس ان ناولوں میں ایکدم اس کی جگہ مستعمل تھا۔ اس کے علاوہ سوقیانہ اور بھونڈی زبان بھی ناولوں میں رواں تھی۔
بہت کم لوگ واقف ہیں ابنِ صفی شاعر بھی تھے بہت پہلے میں نے ایک غزل پڑھی تھی بہت ڈھونڈی مگر نیٹ پر دستیاب نہیں مصرعہ یاد ہے
باغوں میں کو کے گی کوئل بور آموں پر آنے دو
ذیل میں دستیاب شدہ غزل دی ہے
راہ طلب میں کون کسی کا اپنے بھی بیگانے ہیں
چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں
تنہائی سی تنہائی ہے کیسے کہیں کیسے سمجھائیں
چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں
اف یہ تلاش حسن و حقیقت کس جا ٹھہریں جائیں کہاں
صحن چمن میں پھول کھلے ہیں صحرا میں دیوانے ہیں
ہم کو سہارے کیا راس آئیں اپنا سہارا ہیں ہم آپ
خود ہی صحرا خود ہی دوانے شمع نفس پروانے ہیں
بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔