یہ کرکٹ میچ نہیں مگر دو ٹیم ہے۔ ایک طرف ادانی امبانی ہیں۔ دوسری طرف کسان۔ ایک طرف امبانی ادانی کے لئے پورا میڈیا ہے۔ دوسری طرف کسانوں کے لئے سوشل میڈیا کے پانچ چھ چینل۔ ایک طرف زمین فروخت کا معاملہ ہے، وہ زمین، جس نے ہزاروں یلغار کا سامنا کرتے ہوئے ملک کو ایسا آئیین دیا جہاں روشن، جھلملاتے ستاروں کی طرح جمہوریت کو مضبوط کرنے کا پیغام لکھا ہے۔ دوسری طرف وہ تاجر ہیں، جو سب کچھ خرید چکے اور اب مٹی کے ٹکڑوں کو خرید کر ہمیں غلامی کی رسید دینا چاہتے ہیں ۔ اس لئے یوم جمہوریہ کے معنی کو سمجھنا ہوگا اور اس جنگ کو بھی جو ایک طرف خاک وطن کے تحفظ کے لئے ہے اور دوسری طرف کالے انگریزوں کو غلامی سونپنے کے لئے ۔ یو م جمہوریہ ، ہمارے لئے ، خاک وطن کے لئے ١٥ اگست کے بعد سب سے اہم دن ۔ دستور ہند 26 جنوری 1950 کو حکومت ہند ایکٹ (1935) کی جگہ ہندوستان کی گورننگ دستاویز کی حیثیت سے نافذ ہوا اور اس طرح قوم کو ایک نئی تشکیل شدہ جمہوریہ میں تبدیل کردیا گیا۔
ہندوستان نے آزادی کی تحریک کے بعد 15 اگست 1947 کو برطانوی راج سے آزادی حاصل کی۔ یہ آزادی ہندوستانی آزادی ایکٹ 1947 (10 & 11 جیو 6 سی 30) کے ذریعہ حاصل ہوئی ۔ ملک میں ابھی تک مستقل آئین نہیں تھا۔ اس کے بجائے اس کے قوانین ترمیم شدہ نوآبادیاتی حکومت ہند ایکٹ 1935 پر مبنی تھے۔ 29 اگست 1947 ، ڈاکٹر امبیڈکرکو بطور چیئرمین ، مستقل آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لئے ، مسودہ کمیٹی کی تقرری کے لئے ایک قرارداد پیش کی گئی۔ کمیٹی نے دستور سازی کا مسودہ تیار کیا، جس کو 4 نومبر 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ غور و فکر اور کچھ ترمیم کے بعد ، اسمبلی کے 308 ممبروں نے 24 جنوری 1950 کو دستاویز پر دستخط کیا ۔ دو دن بعد26 جنوری 1950 کو اس کا نفاذ عمل میں آیا۔
کسانوں نے نئے انقلاب کے لئے ٢٦ جنوری کے دن کا انتخاب کیا ۔وہ دن جب لال قلعہ کی فصیلوں سے آزادی کا نغمہ ابھرتا ہے ، مگر ملک کے عوام یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ مسلسل ظلم اور بر بریت کا سہارا لے کر ریل سے ہوائی جہاز تک دو گجراتی تاجروں کی جیب میں ڈالے جا رہے تھے ۔ اپنی ناکامیوں کو پوشیدہ رکھنے کے بہانے ہندو مسلم کا کھیل ، کھیلا جا رہا تھا ۔ ہندو راشٹر کے نعرے لگائے جا رہے تھے ۔ اکثریت کو خوش کرنے کے لئے سہمے ہوئے مسلمان اور ڈیٹینشن کیمپوں کے دروازے دکھائے جا رہے تھے ۔ لیکن حقیقت ، کسان محسوس کر چکے تھے اور یہ بھی کہ مودی امبانی کے گوداموں میں آزادی آخری سسکیاں لے رہی ہے اور گوداموں سے غلامی کا جن باہر نکلنے کو بیتاب ہے ۔ آزادی کے بعد یہ پہلی حکومت ہے جو بدنامی ، رسوائی ، جہالت کا تمغہ لگائے شٹر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے بیٹھی ہے اور پورا ملک ، ملک کی زمینیں ، یہاں تک کہ کسان بھی امبانی ادانی کے ہاتھوں فروخت کر چکی ہے ۔ ہلاکت ، خوں ریزی،جنگ عظیم کی وحشتوں کے درمیان بھی انسانی سفر ختم نہیں ہوتا۔۔ کسانوں نے اس تاریخ کا انتخاب کیا ، جس تاریخ سے فسطائیت خوفزدہ ہے اور جمہوریت کی جگہ منو اسمرتی کو چور دروازے سے لانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ حکمران طاقتوں نے کہا سوچا تھا کہ ستر فیصد کسان براہ راست جنگ کا آغاز کر دینگے ۔ کسان جو غلہ پیدا کرتے ہیں ، انکو حکمران طبقہ کی طرف سے خالصتانی کہا گیا ۔ حکومت کو ١٩٨٤ یاد ہے ۔مگر اب ٢٠٢١ ہے ۔ تاریخ بدل چکی ہے ۔ فسطائی تھذیب کے خاتمہ کے لئے ملک کا کسان اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ ایک امید کی فضا قائم ہوئی ہے کیونکہ سات برسوں میں لہلہاتی فصلوں کو روند دئیے جانے کے سوا ہم نے کوئی اور منظر نہیں دیکھا ۔۔ایک دن گیس چیمبر کا کمرہ انقلاب کی آوازوں سے گونج اٹھتا ہے ۔پھر ایک نئی سحر طلو ع ہوتی ہے ۔پچیس برس قبل میں نے ایک کہانی لکھی تھی ۔میرا ملک گم ہو گیا ہے ۔اب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے ،اس وقت تک ملک گم نہیں ہوا تھا ۔،ہاں یہ ضرور ہے کہ اس وقت تک آر ایس ایس کی لیبا ر ٹری میں ملک کو گم کرنے کی مہم شدت اختیار کر گیی تھی ۔دیکھتے ہی دیکھتے ہم پندرہویں صدی میں اچھال دیے گئے تھے ۔مذھب اور تشدد کے نام پر جیلوں سے درندے آزاد ہوئے۔آشرم سے نکلے ،عورتوں کی عزت سے کھلواڑ کرنے والے سیاست میں آ گئے۔جنہیں کال کوٹھریوں میں ہونا چاہیے تھا ،وہ ہیرو بن گئے ۔زہریلے لفظوں کا ایک ایسا طوفان آیا جہاں نا جایز کو جایز قرار دیا گیا ۔جرم اور گناہوں کو معصومیت ، ولین کو ہیرو بنانے کی تحریک شروع ہوئی اور معصوموں کو جیلوں کے حوالے کرنے کے منصوبے بناہے گئے ۔۔تاریخ کے صفحات پر ہٹلر کے رنگ ڈھنگ بھی جوکروں جیسے نہیں تھے ۔مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ ٢٦ جنوری کی ٹریکٹر پریڈ میں کچھ ایسا بھی ہوا ، جو نہیں ہونا چاہیے تھا ۔مگر غلطی کس کی ؟ حکومت کی یا کسان کی ؟ ٢٦ جنوری کے دن لال قلعہ میں داخل ہونا اور اپنا پرچم لہرا دینا کیا آسان بات ہے ؟ لال قلعہ جو آزادی کی علامت بن چکا ہے ، جہاں پہلا پرچم ایک مسلمان نے لہرایا تھا ۔اور اب آزادی کے ستر برسوں کی تاریخ میں کسانوں نے اپرچم وہاں لہرا دیا ۔ اگر حکومت ادانی امبانی کو بھول کر کسانوں کی بات سن لیتی تو کیا یہ دن آتا ؟ کسان اگر غلط ہیں تو حکومت کے لئے تین قانون کی واپسی کو لے کر گہرائی سے سوچنے کا وقت بھی ہے ۔ یہاں سیاست سے سماج اور تہذیب و ثقافت سے مذہبی انتہا پسندی تک ہر رنگ زعفرانی ۔ہر کھیل مضحکہ خیز ،ہر درندگی کی مثال جرم آشنا چہروں کو بے غیرت اور بے شرم بنانے والی ۔۔ایک دنیا ہنس رہی تھی ۔اور مسخرے کے چہرے پر خوفناک حد تک خاموشی اور مسکراہٹ برقرار تھی ۔ یہ سب کسان دیکھ رہے تھے ۔ اقبال نے کہا تھا ۔۔
خاک وطن کا مجھ کو ہر زرہ دیوتا ہے ۔
خاک وطن کو دیوتا سمجھنے والے کسان اب بغاوت کی تیاریاں کر چکے ہیں ۔ کل کیا ہوگا ، کوئی نہیں جانتا ۔ ممکن ہے ، کسان گھر واپس ہو جائیں مگر ابھی امید کی شمع روشن ہے ۔
عروج آدِم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...