پچیس جولائی کو لاہور کس کا ساتھ دے گا ؟
شہر بے مثال یعنی لاہور کو مسلم لیگ ن کا گڑھ مانا جاتا ہے ۔لاہور ہی وہ شہر ہے جہاں سے یہ ہوا چلتی ہے کہ آئندہ حکومت کس کی ہوگی۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ لاہور مسلم لیگ ن سے وفاداری نبھائے گا یا پھر تحریک انصاف کو کامیاب کرائے گا۔آیئے لاہور کے چودہ حلقوں کی سیر پر نکلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پچیس جولائی کی انتخابی سیاسی صورتحال کیا ہے؟پاکستان کی سیاست میں پنجاب اور لاہور کو ہمیشہ نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ایک زمانہ تھا جب شہر بے مثال شہر بھٹو کہلاتا تھا اور پیپلز پارٹی لاہور شہر کی چہیتی سیاسی جماعت تھی ۔شہید زوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد شہر بے مثال میں رکھی تھی ،کئی سالوں تک لاہوریوں نے بھٹو سے وفاداری نبھائی ۔پھر نوازشریف لاہور کا سیاسی ہیرو بن گیا اور اب عمران خان نے اس شہر پر نظریں جمائی ہوئی ہیں ۔عمران خان لاہور کے انتخابی معرکوں میں بہت دلچسپی لیتے ہیں ۔25جولائی کو بھی لاہور میں اہم اور دلچسپ سیاسی دنگل ہوں گے ۔
2013 کے انتخابات میں لاہور کی قومی اسمبلی کی 13 نشستیں تھی ۔ان تیرہ نشستوں میں 12 نشستوں پر شیر نے کامیابی سمیٹی تھی ،صرف ایک نشست پر بلے نے کام دیکھایا تھا ۔یوں کہہ لیں کہ شہر بے مثال نے نوازشریف سے وفاداری کی انتہا کردی تھی ۔نئی حلقہ بندیو کے بعد لاہور کی ایک سیٹ کا اضافہ ہوگیا ہے ۔اب لاہور کی 14 قومی اسمبلی کی نشستوں پر شیر والے اور بلے والے آمنے سامنے ہوں گے ۔یہ نشستیں این اے 123 سے این اے 136 پر مشتمل ہیں ۔ان میں سے کچھ ایسی نشستیں ہیں جن پر کانٹے کے انتخابی معرکے ہوں گے ۔
اس وقت این اے 123 کو سب سے اہم نشست کہا جارہا ہے جہاں پر مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمیں عمران خان کے مدمقابل ہیں ۔پہلے اس حلقے کو این اے 125 کہا جاتا تھا ۔2008 اور 2013 میں یہاں سے خواجہ سعد رفیق مسلسل کامیاب ہوتے آئے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہاں کی سیاسی صورتحال میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔اسی طرح این اے 129 میں بھی سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے ۔یہاں پر ایازصادق اور ارب پتی علیم خان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوسکتا ہے ۔2013 میں یہاں سے مسلم لیگ کے ایاز صادق نے پاکستان کے سب سے بڑے کھلاڑی عمران خان کو شکست دی تھی ۔دھاندلی کے ایشو کی وجہ سے حلقہ چیلنج ہوا تھا جس کے بعد ضمنی انتخاب ہوا ،ایاز صادق نے علیم خان کو شکست دی ۔لیکن اس ہار کا مارجن بہت کم تھا ۔اس مرتبہ پھر یہ دونوں آمنے سامنے ہیں اس لئے دلچسپی کی صورتحال برقرار ہے ۔
این اے 125 نئی حلقہ بندیوں سے پہلے این اے 120 تھا ۔یہ حلقہ ن لیگ کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔2013 میں یہاں سے سابق وزیر اعظم نوازشریف نے کامیابی حاصل کی تھی ۔انہوں نے بھاری مارجن سے پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست دی تھی ۔نوازشریف نااہل ہوئے تو ان کی اہلیہ کلثوم نواز نے ضمنی انتخاب میں ڈاکٹرصاحبہ کو پھر شکست دی ۔مریم نواز کو اس حلقے سے ابتدا میں ٹکٹ جاری کیا گیا بعد میں ان کو دوسرے حلقے سے ٹکٹ ملا ۔اب یہاں پر ن لیگ کے وحید عالم خان اور تحریک انصاف کی یاسمین راشد آمنے سامنے ہیں ۔مقابلے کو اس لئے بھی دلچسپ کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹر یاسمین حلقے میں بہت معروف ہیں اور لوگوں کے کام بھی کرتی ہیں ۔اس کے علاوہ وہ محنتی خاتون ہیں جو ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم چلاتی ہیں ۔دیکھتے ہیں کہ کیا وہ اس مرتبہ جیت پاتی ہیں یا نہیں ۔کچھ مبصرین کے مطابق وہ جیت سکتی ہیں ۔
این اے 132 بھی بہت اہم حلقہ تصور کیا جارہا ہے ۔پہلے اس حلقے کو این اے 130 کہا جاتا تھا ۔یہاں سے چھوٹ میاں یعنی خادم اعلی پنجاب شہباز شریف انتخاب لڑ رہے ہیں ۔ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے چوہدری محمد منشا سندھو ہیں ۔2013 کے انتخابات میں محمد منشا کو مسلم لیگ کے صدر شہبازشریف نے اچھے خاصے مارجن سے شکست دی تھی ۔اسی طرح این اے 124 پر حمزہ شہبازشریف پی ٹی آئی کے محمد نعمان قیصر کا مقابلہ کررہے ہیں ۔2013 میں اس حلقے سے چھوٹے نواز یعنی حمزہ شہباز نے پی ٹی آئی کے محمد مدنی کو شکست دی تھی ۔اہم حلقوں میں لاہور کا حلقہ این اے 130 بھی شامل ہے جو پہلے این اے 126 تھا ۔یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار شفقت محمود خواجہ احمد احسان کا مقابلہ کررہے ہیں ۔یہ وہ واحد حلقہ ہے جہاں سے تحریک انصاف فاتح رہی ۔یہی وہ حلقہ ہے جہاں سے میں نے بھی ووٹ ڈالنا ہے ۔
اب آتے ہیں این اے 127 پر جو ایک زمانے میں این اے 123 کہلاتا تھا ۔یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے مریم بی بی المعروف ببر شیرنی الیکشن لڑ رہی تھی ۔کیونکہ اب مریم بی بی کو نااہل کردیا گیا ہے تو اب مسلم لیگ ن کے امیدوار علی پرویز ملک پی ٹی آئی کے امیدوار جمشید اقبال کے مقابلے میں ہیں ۔2013 میں یہاں سے مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز ملک جیتے تھے ۔پرویز ملک علی پرویز ملک کے والد محترم ہیں ۔پاکستان بھر میں اب ایک ہی سوال ہے جس پر بحث و مباحثہ جاری ہے کہ کیا 25 جولائی کے بعد بھی شہر بے مثال ن لیگ کا گڑھ رہے گا ۔
انتخابی سیاست کے ماہرین یا مبصرین کی اب تک کی رائے کے مطابق لاہور کچھ بدلابدلا سا دیکھائی دے رہا ہے ۔مسلم لیگ ن کو پہلے یہاں سے بارہ سیٹیں ملی تھی ،اب کہا جارہا ہے کہ شاید مسلم لیگ ن نو سے آٹھ سیٹوں پر آجائے اور تحریک انصاف پانچ سے چھ سیٹیں حاصل کر لے ۔مبصرین کے مطابق اب بھی لاہور کی اکثریت ن کے ساتھ ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ لاہور میں نوازشریف کا مزاحمتی بیانیہ بھی مقبول ہورہا ہے اور ادھر سے چھوٹے میاں کے ڈویلپمنٹ پروجیکٹس کی بھی خوب دھومیں ہیں ۔لاہور میں جو نتائج آئیں گے وہی نتائج سنٹرل پنجاب کی 82نشستوں میں بھی دیکھائی اور سنائی دے گے ۔پاکستان کی تمام انتخابی سیاسی صورتحال کو باریک بینی سے دیکھاجائے تو شاید ن لیگ اکثریت حاصل نہ کر پائے ۔اسی وجہ سے کہا جارہا ہے کہ وفاق میں اب ن کی حکومت نہیں ہوگی ۔لیکن پنجاب میں اب بھی ن مقبول سیاسی جماعت ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔