آج – 25؍دسمبر 1919
موسیقارِ اعظم اور ممتاز شاعر” نوشاد علی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نوشاد کا پورا نام نوشاد علی تھا۔ وہ ٢٥؍دسمبر١٩١٩ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے چھ سال کی عمر میں سنگیت سے جو رشتہ جوڑا وہ مرتے دم تک جاری رہا۔ انھیں کلاسیکی موسیقی اور لوک گیتوں کو ہلکے انداز میں پیش کرنے کا فن بہ خوبی آتا تھا۔
نوشاد نے استاد غربت علی ، استاد یوسف علی اور استاد ببن صاحب سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ 1937 میں انھوں نے ممبئی کا رخ کیا اور 1940ءمیں فلم پریم نگر سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا ۔ فلمی دنیا میں ان کی رہنمائی استاد جھنڈے خان نے کی۔ 1944ءمیں ریلیز ہونے والی فلم رتن نوشاد کے فنی کیرئیر کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی جس کے بعد ان کا نام فلموں کی کامیابی کی ضمانت بن گیااور ان کی موسیقی کے جادو نے عوام کو اپنا گرویدہ بنالیا۔
نوشاد ہمیشہ اپنے فن میں تجربات کرنے کے حوالے سے مشہور تھے۔ انھوں نے کلاسیکی موسیقی اور لوک سنگیت کو اس انداز سے عوام کے سامنے پیش کیا کہ آج بھی انکا سنگیت لوگوں کے کانوں میں رس گھولتا ہے۔
نوشاد نے 67 فلموں میں موسیقی کا جادو جگایا جن میں سے 35 فلموں نے سلور جوبلی ، 12 فلموں نے گولڈن جوبلی اور 3 فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ ان کی فلموں میں فلم شاہ جہاں ، دل لگی، دلاری،انمول گھڑی ،بیجوباورا، آن، انداز،مغل اعظم اور داستاں جیسی فلمیں شامل تھیں جن کی مدھر کن موسیقی آج بھی دل کو چھو لیتی ہے۔ نوشاد نے 2005ء میں اپنی آخری فلم تاج محل کی موسیقی 86برس کی عمرمیں ترتیب دے کر دنیا کے معمرترین موسیقار ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی ایک فلم حبہ خاتون نمائش پزیر نہیں ہوسکی۔
نوشاد کو موسیقار اعظم کا خطاب عطا کیا گیا تھا ۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ، سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ اور پدم بھوشن ایوارڈ کے نام سر فہرست ہیں ۔
نوشاد علی، ٥؍مئی ٢٠٠٦ء کو ممبئی میں وفات پاگئے اور جوہو کے مسلم قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
مشہور شاعر نوشاد علی کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا
گزرو گے شہر سے تو مرا گھر بھی آئے گا
اچھی نہیں نزاکت احساس اس قدر
شیشہ اگر بنوگے تو پتھر بھی آئے گا
سیراب ہو کے شاد نہ ہوں رہروان شوق
رستے میں تشنگی کا سمندر بھی آئے گا
دیر و حرم میں خاک اڑاتے چلے چلو
تم جس کی جستجو میں ہو وہ در بھی آئے گا
بیٹھا ہوں کب سے کوچۂ قاتل میں سرنگوں
قاتل کے ہاتھ میں کبھی خنجر بھی آئے گا
سرشار ہو کے جا چکے یاران مے کدہ
ساقی ہمارے نام کا ساغر بھی آئے گا
اس واسطے اٹھاتے ہیں کانٹوں کے ناز ہم
اک دن تو اپنے ہاتھ گل تر بھی آئے گا
اتنی بھی یاد خوب نہیں عہد عشق کی
نظروں میں ترک عشق کا منظر بھی آئے گا
روداد عشق اس لیے اب تک نہ کی بیاں
دل میں جو درد ہے وہ زباں پر بھی آئے گا
جس دن کی مدتوں سے ہے نوشادؔ جستجو
کیا جانے دن ہمیں وہ میسر بھی آئے گا
●━─┄━─┄═•✺❀✺•═┄─━─━━●
زنجیرِ جنوں کچھ اور کھنک ہم رقصِ تمنا دیکھیں گے
دنیا کا تماشہ دیکھ چکے اب اپنا تماشہ دیکھیں گے
اک عمر ہوئی یہ سوچ کے ہم جاتے ہی نہیں گلشن کی طرف
تم اور بھی یاد آؤگے ہمیں جب گل کوئی کھلتا دیکھیں گے
کیا فائدہ ایسے منظر سے کیوں خود ہی نہ کر لیں بند آنکھیں
اتنی ہی بڑھے گی تشنہ لبی ہم آپ کو جتنا دیکھیں گے
تم کیا سمجھو تم کیا جانو فرقت میں تمہاری دیوانے
کیا جانئے کیا کیا دیکھ چکے کیا جانئے کیا کیا دیکھیں گے
ہونے دو اندھیرا آج کی شب گل کر دو چراغوں کے چہرے
ہم آج خود اپنی محفل میں دل اپنا ہی جلتا دیکھیں گے
نوشادؔ ہم ان کی محفل سے اس واسطے اٹھ کر آئے ہیں
پروانوں کا جلنا دیکھ چکے اب اپنا تڑپنا دیکھیں گے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
⭐ نوشادؔ علی ⭐
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ