اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا َو الَّذِیْنَ ہَادُوْا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِءِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِوَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (۲:۲۶)ترجمہ: ”مسلمان ہوں،یہودی ہوں،مسیحی ہوں یاصابی ہوں جوکوئی بھی اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اورنیک عمل کرے ان کے اجر انکے رب کے پاس محفوظ ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی اداسی وغم“۔قرآن مجیدکی سورہ بقرہ کی اس باسٹھ نمبر آیت میں اللہ تعالی نے یہ واضع کیا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت پر کسی مذہب والوں کی ٹھیکیداری نہیں،کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والااگر اپنا عقیدہ و عمل درست کر لے تو اس کے لیے اللہ تعالی کی رحمت کے دروازے کھلے ہیں۔اورظاہرہے کہ عقیدہ و عمل کی درستگی صرف انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے ہی ممکن ہے۔اسی طرح سورہ المائدہ میں ایک مقام پر قرآن مجیدنے فرمایا”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا َو الَّذِیْنَ ہَادُوْا وَ الصَّابِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰی مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ(۵:۹۶)“ترجمہ:”مسلمان ہوں یایہودی یاصابی یاعیسائی،جوبھی اللہ تعالی اورروزآخرپرایمان لائے گااورنیک عمل کرے گابے شک اس کے لیے نہ کسی خوف کامقام ہے اورنہ ہی رنج کا“۔
حضرت عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں اللہ تعالی کے آخری نبی تھے۔انکی نانی اماں حضرت حنہ بنت فاقود جوحضرت عمران کی زوجہ محترمہ تھیں قرآن مجید نے سورۃ آل عمران میں انکا تفصیلی ذکر کیا ہے۔انکے ہاں اولاد نہیں تھی،اس بزرگ خاتون نے منت مانی کی اگر ان کے ہاں بچہ ہوا تو وہ اسے ساری عمر کے لیے بیت المقدس میں اعتکاف بٹھا دیں گی۔بنی اسرائیل کی شریعت میں یہ عمل جائز تھا جبکہ شریعت محمدی ﷺ میں اسکی اجازت نہیں اور یہ عمل منسوخ ہوگیاہے۔ساری عمراعتکاف میں بیٹھنے والے عبادت گزارحضرات صرف معبدمیں مراسم عبودیت بجالاتے تھے اوران کی جملہ ضروریات معاشرہ کے ذمہ ہوتی تھیں،گویا شریعت موسوی میں یہ فرض کفایہ کی ایک شکل تھی۔اس طرح کی منت کے بعد عموماََبیٹا پیدا ہوا کرتا تھا لیکن حضرت عمران کے ہاں بیٹی پیداہوگئی۔انہوں نے اسکا نام مریم رکھا اور بڑی ہونے پر بیت المقدس کے ایک کونے میں اعتکاف کے لیے بھیج دیا۔بیت المقدس میں مرد لوگ ہی اعتکاف کیا کرتے تھے اور جب ایک خاتون بھی وہاں اسی مقصد کے لیے داخل ہوگئیں تو متولیوں کے درمیان اس لڑکی کی سرپرستی کے لیے نزاع پیداہوئی۔اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کرہ اندازی ہوئی کہ کون اس نوواردخاتون کی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔کرہ فال حضرت زکریاعلیہ السلام کے نام نکلا جواللہ تعالی کے برگزیدہ نبی ہونے کے علاوہ رشتہ میں حضرت مریم علیہا السلام کے خالو بھی لگتے تھے۔یہ صبح شام بی بی پاک مریم علیہا السلام کے پاس آتے اور انکی جملہ ضروریات پوری کرتے اورحیرانی سے دیکھتے کہ انکے پاس بے موسمے پھل دھرے ہیں۔استفسارپروہ بتاتیں کہ اللہ تعالی انہیں کھلاتا پلاتا ہے۔حضرت زکریاعلیہ السلام کے ہاں اولاد نہیں تھی،انہوں نے دعا کی کہ اگر اس بیٹی کو بے موسمے پھل مل سکتے ہیں تو مجھے بھی تو اس پیرانہ سالی میں بے موسمی اولاد مل سکتی ہے۔چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں حضرت زکریا علیہ السلام جیسا بیٹا عطا کیا۔اللہ تعالی نے یہ ساراواقعہ ”سورہ آل عمران“میں نقل کیاہے۔
حضرت مریم علیہا السلام کوحضرت جبریل مریم علیہ السلام نے خوشخبری دی کہ انکے ہاں ایک بیٹا ہوگا،بی بی پاک مریم علیہا السلام نے پوچھا ایسا کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ مجھے تو کسی مرد نے چھوا بھی نہیں؟؟حضرت جبریل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اللہ تعالی جیسا چاہتا ہے ویسا ہی کرتا ہے۔انہیں اندازہ تھاکہ بن باپ کے بیٹاپیداکرنے سے معاشرے میں کتنابڑاطوفان اٹھ کھڑاہوگا،خاص طورپرجب کہ اس معاشرے کی زمام علم یہودی علماء کے ہاتھوں ہو۔چنانچہ اس شرمندگی سے بچنے کے لیے انہوں نے فرمایا: فَاَجَآءَ ہَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَ کُنْتُ نَسِیًّا مَّنْسِیًّا(۹۱:۳۲) ترجمہ:”پھرزچگی کی تکلیف نے انہین ایک درخت کے نیچے پہنچادیا ہ کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے ہی مرجاتی اور میرانام و نشان نہ رہتا“۔بچے کی پیدائش کے لیے بی بی پاک مریم ساتھ کے گاؤں سدھارگئیں۔اس گاؤں کانام ”ناصرہ“تھاجہاں حضرت عیسی علیہ اسلام پیدا ہوئے۔بائبل مقدس نے اسی گاؤں کی نسبت سے حضرت عیسی کو یسوع ناصری کہا ہے اور قرآن مجید نے بھی اسی گاؤں کی نسبت سے مسیحیوں کونصاری کہاہے۔حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت بھی حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور بی بی کے سر کی طرف زمین پراپناپر مارا جس سے صحت بخش پانی کا ایک چشمہ پھوٹ نکلاجسے بی بی پاک نے نوش جان فرمایا اور ساتھ ہی حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ اس درخت کو ہلائیے،کھجور کے درخت سے کھجوریں ٹپکیں تو زچگی وقت بی بی پاک صاحبہ نے وہ کھجوریں بھی تناول فرمائیں۔بی بی پاک مریم علیہا السلام نے پوچھا کہ کہ میں اپنی قوم کو کیا جواب دوں گی کہ یہ کس کا بچہ ہے؟حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ اشارے سے کہنا کہ میں چپ کے روزے سے ہوں،کیونکہ شریعت موسوی میں چپ کاروزہ بھی ہوتاتھالیکن شریعت محمدی میں اس طرح کاروزہ منسوخ ہوگیا،پھرجبریل علیہ السلام نے کہاکہ یہ بچہ جواب دے گا۔بی بی پاک صاحبہ نے پوچھایہ بچہ کیا بولے گا؟؟؟حضرت جبریل علیہ السلام نے پھر پہلے والا جواب دیا کہ اللہ تعالی جیسا چاہتا ویسا ہی کرتا ہے۔
بی بی پاک مریم علیہا السلام جب بچہ اٹھائے بیت المقدس پہنچیں تولوگوں نے کہا بی بی آپ تو نبیوں کے خاندان سے ہویہ کیاپاپ کر آئی ہو؟انہوں نے اشارے سے کہا کہ میں چپ کے روزے سے ہوں اور یہ بچہ جواب دے گا۔لوگ جیسے ہی بچے کی طرف متوجہ ہوئے تو پنگھوڑے میں موجود حضرت عیسی علیہ السلام بول اٹھے فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہ‘ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِءْتِ شَیْءًا فَرِیًّا(۹۱:۷۲) یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا(۹۱:۸۲) فَاَشَارَتْ اِلَیْہِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَہْدِ صَبِیًّا(۹۱:۹۲) قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا(۹۱:۰۳) وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا(۹۱:۱۳) وَّ بَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۹۱:۲۳) وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْ مَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا(۹۱:۳۳) ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ(۹۱:۴۳)ْ”ترجمہ:”پھروہ اپنے بچے کو لیے اپنی قوم میں آئیں،لوگ کہنے لگے اے مریم یہ تونے کیاپاپ کر ڈالا؟؟اے ہارون ؑ کی بہن تیراباپ کوئی براآدمی نہ تھااور تیری ماں بھی کوئی بدکارعورت نہ تھی،بی بی پاک مرعیم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا،لوگوں نے کہاہم اس سے کہابات کریں جو گہوارے نے پڑاہواایک بچہ ہے،بچہ بول اٹھامیں اللہ کا بندہ ہوں،اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایاہے،اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں،اور اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں،اور اس نے مجھے اپنی والدہ کا خدمت گاربنایا ہے اورمجھے سرکش و بدبخت نہیں کیااور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ زندہ کیا جاؤں،سلام ہی سلام ہے،یہ ہیں حضرت عیسی بن مریم اوریہ ہے ان کے بارے میں سچی بات جس میں لوگ شک کررہے ہیں“۔توحید کا درس حضرت عیسی علیہ السلام سمیت سب انبیاء کااورکل آسمانی کتب کا اولین درس ہے۔قرآن نے بھی اہل کتاب سے یہی کہا کہ آؤ ایک ایسی بات کی طرف جوہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔کسی کو اللہ تعالی کا ساجھی قرار دینا،اسکا ہم سرقراردینا،اس جیسا قرار دینا یا اسکی ذات کا حصہ یا اسکے اختیارات میں برابر کاقرار دینا،یا کسی کے بارے میں سمجھنا کہ وہ اللہ تعالی پر کوئی دباؤ یا زبردستی استعمال کر سکتا ہے سب توحید کے برخلاف ہے اور شرک میں داخل ہے۔اللہ تعالی نے کسی کواپنا بیٹا قرار نہیں دیا کیونکہ بیٹا کمزوری ہوتا ہے اور اللہ تعالی ہر کمزوری سے پاک ہے۔اور یہی عقیدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سمیت کل انبیاء علیھم السلام کابھی تھا۔
انجیل مقدس کاآفاقی کلام آج بھی شرک سے پاک ہے۔ انجیل کے علاوہ بائبل میں جو انسانی کلام ہے اس میں لوگوں کی طرف سے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں وہ کچھ کہا گیا ہے جو تعلیمات انبیاء علیھم السلام کے بالکل خلاف ہے۔پوری بائبل میں حضرت عیسی علیہ السلام نے کہیں بھی خود کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں کہا۔ہر نبی نے توحید کی تعلیم دی،ایک وقت تھا جب لوگ سونے چاندی اور پتھروں کے بنے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے نئے نئے خدا تراش لیے ہیں دولت،دنیا،اولاد،شہرت،مذہب،اقتدار،پیٹ کی خواہش اور پیٹ سے نیچے کی خواہش،رنگ،نسل،علاقہ،زبان اور نہ جانے کتنے کتنے خدا ہیں جو ایک ایک انسان کے سینے میں براجمان ہیں اور دن رات وہ انکی پوجا میں مصروف ہے،حضرت عیسی علیہ السلام سمیت سب انبیا کی یہ تعلیمات ہیں کہ دنیاوآخرت میں صرف ایک خدا کا پجاری ہی نجات کا مستحق قرار پائے گا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بت خانے میں گھس کر تمام بتوں کو توڑ ڈالا تھا اسی طرح اپنے سینے میں موجودتمام بتوں کو توڑ کر صرف ایک خداکاپجاری بنناہی کل انبیاء کی تعلیمات کااہم نکتہ ہے۔
پچیس سال کی عمر میں حضرت عیسی علیہ السلام پرنزول وحی کا آغاز ہوا اور انجیل جیسی شاندار کتاب ان پر نازل کی گئی۔آپ علیہ السلام کو بہت سے معجزے بھی عطا کیے گئے۔اللہ تعالی اپنے برگزیدہ انسانوں کو نبوت کے لیے منتخب کرتااورانہیں اپنے دعوی نبوت کی صداقت کے لیے معجزات عطاکرتاتھا۔انبیاء علیھم السلام یہ معجزات بطورسند نبوت کے پیش کرتے تھے۔مداریوں،جادوگروں اور تماشبینوں کے کرتب اور نبیوں کی معجزات میں یہ فرق ہوتاتھاکہ انبیاء کے ہاتھوں سے خرق عادت معجزے کاصدورہوتااور وہ فرماتے کہ یہ اللہ تعالی کے حکم سے ہورہاہے جب کہ غیرانبیاء کہتے تھے کہ یہ ہم کررہے ہیں۔بطورمعجزہ آپ علیہ السلام مردے کو اللہ تعالی کے حکم سے زندہ کر دیتے تھے۔روایات میں لکھاہے کہ کسی قبرپر کھڑے ہوکر آپ علیہ السلام فرماتے”قم باذن اللہ“کہ اللہ تعالی کے حکم سے اٹھ کر کھڑاہوجا اور قبر میں موجود مردہ زندہ ہوجاتا۔کہاجاتاہے کہ آپ علیہ السلام کے معجزے کے نتیجے میں حضرت نوح علیہ السلام کابیٹا بھی زندہ ہوا،اسے فوت ہوئے اگرچہ ہزاروں سال بیت چکے تھے لیکن اس نے کہا کہ موت کی کڑواہٹ ابھی بھی میرے حلق میں موجود ہے۔آپ علیہ السلام کوڑھ کے مریض پر ہاتھ پھیرتے جاتے،جہاں جہاں سے یہ مقدس ہاتھ گزرتا وہاں وہاں سے مریض کی جلد ایسے ہوجاتی کہ جیسے کوڑھ جیسا موذی مرض کبھی تھا ہی نہیں۔پیدائشی اندھے کی آنکھوں پر اپنا دست مبارک پھیرتے تو اللہ تعالی کے حکم سے اسے بینائی جیسی نعمت مل جاتی۔حضرت عیسی علیہ السلام مٹی سے پرندے بناتے اور ان میں پھونک مارتے تو وہ اللہ تعالی کے حکم سے زندہ ہوکر اڑنے لگتے۔لوگوں کے اسرارپر ”مائدہ“نامی دسترخوان بھی آپ علیہ السلام کے معجزے کے نتیجے میں شروع ہواجس پر بعض اوقات ہزاروں لوگ ایک وقت میں کھانا کھاتے لیکن وہ کھانا کبھی بھی ختم نہ ہوتا۔اللہ تعالی کوآنے والے کل کے لیے بچانا پسند نہیں ہے،کیونکہ یہ توکل علی اللہ کے خلاف ہے۔چنانچہ اللہ تعالی نے مائدہ کے جاری رہنے کے لیے حکم دیاتھا کہ اس کاکھانا بچاکر نہ رکھاجائے۔جب لوگ بچابچاکر گھرلے جانے لگے تواللہ تعالی نے ”مائدہ“ختم کردیا۔آپ علیہ السلام لوگوں کو بتادیتے کہ کیا کھاکر آئے ہیں اور گھرمیں کیاکیا غلہ رکھادھراہے۔ان سب معجزات کے ساتھ آپ علیہ السلام لوگوں کو باور کراتے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے حکم سے ہی ہے اور اس کائنات کا اول و آخر حکمران اللہ تعالی ہی ہے جو ہر طرح کے شرک سے پاک ہے۔حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزوں میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ وہ قیامت سے پہلے ایک بار پھر اس دنیامیں تشریف لائیں گے۔چنانچہ قرآن مجید کہتاہے اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ وَ عَلَی وَالِدَتِکَ اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَ کَہْلًا وَ اِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰتَ وّ الْاِنْجِیْلَ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَہَیْءَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْہَا فَتَکُوْنَ طَیْرًا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِیئُ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَنْکَ اِذْ جَءْتَہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ہٰذَآ اِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۵:۰۱۱) ترجمہ:جب اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام سے کہے گااے عیسی بن مریم علیھماالسلام میری اس نعمت کویاد کریں جو میں نے آپ پر اورآپ کی والدہ پرکی تھی،میں نے روح پاک سے آپ کی مدد کی،آپ گہوارے میں اور بڑھاپے میں لوگوں سے گفتگوکرتے تھے،میں نے آپ کو کتاب و حکمت اور توریت اورانجیل کی تعلیم دی،آپ مٹی کاپرندہ بناکر پھونک مارتے اور وہ اللہ تعالی کے حکم سے اڑنے لگتاتھا،آپ مادرزاداندھے اور کوڑھ کے مریض کواللہ تعالی کے حکم سے شفایاب کردیتے تھے،اورمیرے حکم سے مردوں کو نکالتے تھے،اورجب آپ یہ واضع نشانیاں لے کر بنی اسرائیل کے پاس آئے توانہوں نے کہا یہ توکھلاجادوہے۔“اس ساری آیت میں اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات گنوائے ہیں جن میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام بڑھاپے میں لوگوں سے بات کریں گے،حالانکہ بڑھاپے میں توسب ہی لوگ باتیں کرتے ہیں۔لیکن چونکہ آپ علیہ السلام عہدجوانی میں آسمانوں کی طرف اٹھالیے گئے تھے اس لیے قرب قیامت میں واپس آئیں گے بڑھاپاپائیں گے اور لوگوں سے بات کریں گے تب یہ معجزہ بن جائے گا۔
علمائے بنی اسرائیل نے اس نوجوان نبی علیہ السلام کے خلاف اعلان بغاوت کیاکیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام انکے گمراہ عقائد اور سیاہ اعمال پرانہیں سرزنش کرتے تھے اور اصلاح احوال کے لیے انہیں تبلیغ کرتے تھے۔قرآن مجید نے یہودیوں پر جو الزامات لگائے ہیں ان میں سرفہرست انبیاء علیھم السلام کاقتل ہے۔چنانچہ یہودیوں کے ان علماء نے حسب سابق حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل پر اجماع کیا اور بادشاہ سے کہا ایک ڈاکوکوآزاد کردواورحضرت عیسی علیہ السلام کو پھانسی دے دی جائے۔اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر مبارک چالیس سال تھی جب آپ کے ایک مقدس ساتھی نے آپ کی جگہ پھانسی پر چڑھنا قبول کر لیااور آپ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا گیا۔لوگوں نے اس مقدس ساتھی کو حضرت عیسی سمجھ کرپھانسی دے دی۔آسمانی کتب نے خبر دی ہے کہ قیامت کے نزدیک ایک بار پھر حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے لیکن ان کی ذہنی عقلی اور روحانی سطح تو بہرحال ایک نبی کی ہی ہوگی،اس وقت جب زمین ظلم سے بھر چکی ہوگی۔روایات میں موجود ہے کہ وہ شریعت محمدی ﷺ نافذ
کریں گے اور کم و بیش چالیس سالوں تک پوری دنیا میں حکومت کریں گے اور مدینہ منورہ میں حجرہ عائشہ رضی للہ عنھا کے اندر جہاں ایک قبر کی جگہ ہنوز خالی ہے اس انسان عظیم الشان کو دفنادیا جائے گاکیونکہ ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور صرف خداوندخدا ہے جوہمیشہ زندہ رہے گا اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...