میں نے چند روز پیشتر سوشل میڈیا پر لکھا، ” یکم جولائی 1991 کو پہلی بار ماسکو پہنچا تھا، آج یہاں آئے پوری ربع صدی (پچیس برس) بیت گئی۔ پانے کا چکر تو تھا ہی نہیں اور نہ پایا لیکن کھو بہت کچھ گیا شاید سب کچھ گلی، محلہ، گھر، کنبہ، زبان، ثقافت، نام ، کام بس سب کچھ:
جیتن جیتن سارے کھیڈن
تو ہارن کھیڈ فقیرا
اس پر جناب شعیب بن عزیز کا کمنٹ کچھ یوں تھا:
روتا ملا جو اپنے وطن میں تمام عمر
کل اسکا خط ملا ہے وہ باہر بھی خوش نہیں
یہ انہوں نے غالبا” اسی پوسٹ پر کسی اور کے تبصرے میں شامل اپنے “آگ کے دریا” کی طرح مشہور شعر:
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
کے جواب میں میرے تبصرے کے جواب میں لکھا تھا جس میں میں نے عرض کیا تھا کہ “سردیوں کی شاموں میں اداس ہونا تو شاید جناب شعیب بن عزیز کا کوئی ذاتی مسئلہ ہو، ہم جیسوں کا اداس ہونا ابدی معاملہ ہے۔
میری پوسٹ کا اختصار دوستوں کے لیے غلط فہمی کا سبب بنا جیسے میں کسی پچھتاوے کا اظہار کر رہا تھا۔ ایک طرح سے ایسا نہیں ہے اور ایسا ہونا اس لیے نہیں چاہیے کہ کسی بھی عمل کا انتخاب ہر آدمی خود کرتا ہے ماسوائے اس کے کہ کوئی کسی کو اغوا کرکے لے جائے اور اسے اپنا غلام بنا لے یا زبردستی ایسا کچھ کرنے کو کہے جو وہ جو اس کے قبضے میں ہے نہ چاہتا ہو۔
زندگی میں بہت سے خیالات بنتے ہیں پھر ختم ہو جاتے ہیں، نظریات اپنائے جاتے ہیں پھر رد کر دیے جاتے ہیں۔ خیالات کا تمام ہونا یا نظریات کا رد ہونا کوئی اچنبھا نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ اگر اپنے خیالات اور نظریات کو عقیدہ سمجھ لیا جائے تو اور بات ہے۔ بذات خود عقیدہ بھی کوئی جامد شے نہیں ہوتا اس میں بھی اجتہاد کا راستہ کھلا ہوتا ہے یہ اور بات کہ اس راستے کو مسدود کر دیا جائے۔
گلی، محلہ، گھر، کنبہ، زبان، ثقافت، نام ، کام بس سب کچھ جس کے کھونے کا میں نے ذکر کیا وہ ناستلجیا اور پچھتاوے کے ملے جلے اظہاریے ہیں کیونکہ جہاں پہ تھی وہاں گلی بھی وہی ہے، محلہ بھی وہی، گھر بھی وہی، کنبے کے افراد میں کمی بھی ہوئی اور اضافہ بھی۔ زبان بھی زیادہ تر اپنی ہی بولتا ہوں چاہے روسی بیوی کو چند لفظ ہی سمجھ آتے ہوں جیسے کھانا، پانی، دروازہ، بجلی وغیرہ اور کسی کے ساتھ فون پہ بات کے دوران لڑکی لفظ آنا تو ویسے ہی اس کے اینٹنے کھڑے کر دیتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ ہو نہ ہو کوئی اورآ گئی خصم کی زندگی میں۔ اس کا قصور وار بھی خود ہوں کیونکہ بقول کسے اس کی وجہ میری “کرتوتیات” ہیں۔ جب تک دفتر میں تھا اپنے شعبے کے سب روسی اہلکاروں کو اردو بولنے پر مجبور کرکے کم از اپنے ساتھ اردو میں بات کرنے کا عادی بنا دیا تھا۔ سفارت خانے کے افسروں کے ساتھ انگریزی شناس ہوتے ہوئے بھی خالص اردو میں بات کرتا ہوں اور لکھتا بھی مسلسل اردو زبان میں ہی ہوں۔ البتہ اس کا دکھ ہے کہ باہر لوگ میرے لیے “غیر” مگر اپنی زبان بولتے ہیں۔
جہاں تک بات ہے ثقافت کی۔ میں ماسکو میں شاید واحد شخص ہوں جس نے گھر میں ہمیشہ شلوار قمیص پہنی۔ اس وقت بھی مونگیا رنگ کی شلوار قمیص میں ملبوس ہوں۔ میری روسی بیوی سویاں سے لے کر حلیم تک اور قورمے سے لے کر آلو کے پراٹھے تک بنانا سیکھ چکی ہے صرف میرے لیے اور میرے پاکستانی مہمانوں کے لیے۔ گھر میں البتہ جائے نماز بھی ہے، آئکون بھی، قرآن بھی ہے اور بائبل بھی۔ میرے مذہبی اعمال کا جتنا خیال یہاں رکھا جاتا ہے اتنا پاکستان میں بھی نہیں رکھا جاتا، جب میں نماز پڑھتا ہوں تو گھر میں موجود بچہ تک خاموش ہوتا ہے۔ تو شاید مجھے پاکستان کی گلیوں میں اونچی آواز میں “تیری تے ۔ ۔ ۔” یا “اوئے بھین ۔ ۔ ۔” جیسی گالیاں یاد آتی ہیں۔ ہاں بالکل یاد آتی ہیں، اگرچہ میں اس ماحول کو قطعی برداشت نہیں کر سکتا۔
یہاں کی باتیں بھی تو برداشت نہیں ہوتیں۔ یہاں جو سب سب کے سامنے اگر عام نہیں تو بھی کر لیتے ہیں، اگر اس کے بارے میں لکھ دوں تو تحریر پر فحاشی کا الزام لگ سکتا ہے جبکہ یہاں وہ عمل بھی فحاشی کے زمرے میں نہیں آتا۔ اگر میرے جیسا کسی اپنے سے کان میں اس عمل کے بارے میں کہے بھی تو جواب ملے گا،” تو کیا”۔
نام ۔ ۔ ۔ جتنا نام بننا تھا وہ بن چکا ہے۔ اگر میں ایک بہت اچھا ڈاکٹر ہوتا تو میرے ارد گرد کے یا متعلقہ لوگ جانتے لیکن اب پاکستان اور پاکستان سے باہر کے بہت سے لوگ میری تحریروں کے طفیل میرے نام سے شناسا ہیں۔ رہا کام تو جو کام سیکھا تھا یعنی طب وہ مجھے باوجود اچھا لگنے کے کرنا کچھ اتنا پسند نہیں تھا اور جو کام کرتا رہا ہوں اور کر رہا ہوں وہ باوجود کرنے کے کوئی اتنا اچھا نہیں لگتا اس کی وجہ ہے کہ شوق پیشہ نہیں بن سکا لیکن سب تو حسن نثار نہیں ہوتے ناں جن کا شوق ان کا پیشہ اور ان کو میسر تمام نعمتوں کا وسیلہ بن جائے۔
تو جس کھونے کا میں نے ذکر کیا وہ موجب رنج نہیں ہے جیسے کل مجھے میرے ایک عام دوست نے کہا،” تسی تے روندے ای رہندے او” میں نے پوچھا،”وہ کیسے چوہدری” اس نے کہا کہ آپ نے لکھا “میریاں انگلیاں تھک گیاں نے” میں نے قہقہہ لگا دیا کیونکہ میں نے لکھا تھا کہ “اتنا لکھا کہ اب لکھنے کو دل نہیں کرتا اس نے تو میری انگلیاں ہی تھکا دیں۔
بہرحال دوست میرے کہے کو میرا دکھ سمجھے اور ہمدردی کا اظہار کیا، ہمت بڑھائی ، حوصلہ دیا، ان سب کا شکریہ تاہم وہ یہ جان لیں کہ انسان ایک ٹانگ ہی اٹھا سکتا ہے دوسری نہیں اٹھا سکتا۔ اتنا ہی مجبور ہے اتنا ہی مختار۔