٭… چار روزہ بین الاقوامی کانفرنس
24 مارچ 1990ء کو لاہور میں سینئر وفاقی وزیر بیگم نصرت بھٹو نے عورت کی صحت اور سلامتی کے بارے میں چار روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کیا جسے محفوظ ممتا کی کانفرنس کا نام دیا گیا۔ اس کانفرنس کا انعقاد عالمی بنک، پاپولیشن کونسل انٹرنیشنل چائلڈ پیرنٹ ہڈ فیڈریشن، یونیسف، عالمی ادارۂ صحت، فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان اور حکومتِ پاکستان نے کیا تھا اور اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ نیپال، بھوٹان، سری لنکا، بھارت، مالدیپ اور بنگلہ دیش نے حصہ لیا تھا۔ اس کانفرنس کا انعقاد کا مقصد دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں رہنے والی خواتین کے مسائل کی طرف توجہ مبذول کرواناتھا۔ اس موقع پر پاکستان کے محکمہ ڈاک نے 5 روپے مالیت کا ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا جس کا ڈیزائن فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان نے فراہم کیا تھا۔اس ڈاک ٹکٹ پر انگریزی میں SAVE MOTHERS LIVES اور SAVEMOTHERHOOD SOUTH ASIA CONFERECE LAHORE 24th- 28th March, 1990 کے الفاظ تحریر تھے۔
٭… ایشین پیسیفک پوسٹل یونین
24مارچ2015ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے اسلام آباد میں ایشین پیسیفک پوسٹل یونین ایگزیکٹو کونسل میٹنگ کے انعقادکے موقع پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ اس ڈاک ٹکٹ پر اس تنظیم کا لوگو اور کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک کے پرچم بنے تھے۔ دس روپے مالیت کا یہ ڈاک ٹکٹ عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیا تھااوراس پر انگریزی میںASIAN-PACIFIC POSTAL UNION EXECUTIVE COUNCIL MEETING ISLAMABADکے الفاظ تحریر تھے۔
٭… ہارون الرشید (پانچویں اور مشہور ترین عباسی خلیفہ)
24 مارچ809ء۔ ہارون الرشید، پانچویں اور مشہور ترین عباسی خلیفہ۔ وہ 786ء سے 24 مارچ 809ء تک مسندِ خلافت پر فائز رہے۔اُن کا دور سائنسی، ثقافتی اور مذہبی رواداری کا دَور کہلاتا ہے۔ اُن کے دَورِ حکومت میں فن و حرب نے عروج حاصل کیا۔ ان کا دربار اتنا شاندار تھا کہ معروف کتاب’’الف لیلیٰ‘‘ شاید انہی کے دربار سے متاثر ہوکر لکھی گئی۔ (پیدائش: 763ء)
٭… ایلزبتھ اوّل (انگلستان کی ملکہ)
24 مارچ1603ء۔ ایلزبتھ اوّل، انگلستان کی ملکہ جو ہنری ہشتم اور ملکہ این بولین کی بیٹی تھی، مغل بادشاہ جلال الدین اکبر (اکبر اعظم) اور عباس اعظم کی ہمعصر تھی۔ اس کاعہد برطانیہ میں نشاۃِ ثانیہ کا عہد تھا۔ (پیدائش: 1533ء)
٭… حبیب جالب (عوامی اور انقلابی شاعر)
24 مارچ 1928ء ۔پاکستان کے نامور عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب میانی افغاناں، ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔ انہوں نے زندگی بھر عوام کے مسائل اور خیالات کی ترجمانی کی اور عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔ 1962ء میں انہوں نے صدر ایوب خان کے آئین کے خلاف اپنی مشہور نظم ’’دستور ‘‘تحریر کی جس کا یہ مصرع’’ ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا‘‘ پورے ملک میں گونج اٹھا۔ بعدازاں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ سیاسی اعتبار سے وہ نیشنل عوامی پارٹی کے مسلک سے زیادہ قریب تھے اور انہوں نے عمر کا بیشتر حصہ اسی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہ کر بسر کیا۔انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم’’ لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘‘، ضیاء الحق کے دور میں’’ ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا‘‘ اور بے نظیر بھٹو کے دور ِحکومت میں ان کی نظم’’ وہی حالات ہیںفقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے‘‘نے پورے ملک میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔
ان کے شعری مجموعوں میں’’ برگِ آوارہ، سرِمقتل، عہدِ ستم، حرفِ حق، ذکر بہتے خون کا، عہدِ سزا، اس شہر خرابی میں، گنبدِ بے در، گوشے میں قفس کے، حرف ِسر دار اور چاروں جانب سناٹا ‘‘شامل ہیں۔
حبیب جالب نے کئی معروف فلموں کے لئے بھی نغمہ نگاری کی جن میں’’ مس 56، ماں بہو اور بیٹا، گھونگھٹ، زخمی، موسیقار، زمانہ، زرقا، خاموش رہو، کون کسی کا، یہ امن، قیدی، بھروسہ، العاصفہ، پرائی آگ، سیما، دو راستے، ناگ منی، سماج اور انسان‘‘ شامل ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اعلیٰ اعزازات پیش کئے تھے۔ کراچی پریس کلب نے انہیں اپنی اعزازی رکنیت پیش کرکے اپنے وقار میں اضافہ کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد 2008ء میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا جو خود اس اعزاز کے لئے باعث اعزاز تھا۔13 مارچ 1993ء کو حبیب جالب لاہور میں وفات پاگئے اور قبرستان سبزہ زار اسکیم میں آسودۂ خاک ہوئے۔
٭… سید امراؤ علی ( ناول نگار، افسانہ نگار اور نقاد)
24مارچ 1932ء۔ سید امراؤ علی المعروف امراؤ طارق، فتح پور چوراسی، اُتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہونے والے پاکستانی ناول نگار، افسانہ نگار اور نقاد۔ انہیں ان کے افسانوں کے مجموعے ”بدن کا طواف” پر آدم جی ادبی انعام ملا۔ (وفات: 2011ء)
٭… ڈیوڈ جان کیوڈیل ارونگ ( مضمون نگار، صحافی، مؤرخ، مصنف)
24مارچ1938ء ۔ڈیوڈ جان کیوڈیل ارونگ، برطانوی مضمون نگار، صحافی، مؤرخ، مصنف، سوانح نگار، جو دوسری جنگ ِعظیم کی عسکری تاریخ پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور یہودیوں کی نسل کشی یا ہولوکاسٹ کو جھٹلانے کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ ہولوکاسٹ کے خلاف اپنے بیانات کے باعث ان کا جرمنی، آسٹریا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں داخلہ ممنوع ہے۔
٭… علی اکبر صالحی ( ایرانی سیاستدان، سفیر، عالم)
1949ء۔ علی اکبر صالحی، ایرانی سیاستدان، سفیر، عالم اور سابق وزیر خارجہ، تہران کی ایک جامعہ کے پروفیسر، سابق نائب صدر اور سربراہ ایرانی جوہری توانائی تنظیم
٭… اعجاز فقیہ (پاکستانی کرکٹر)
24مارچ1956ء ۔اعجاز فقیہ، پاکستانی کرکٹر، جس نے 1980ء سے 1988ء تک 5 ٹیسٹ اور 27 ایک روزہ بین الاقوامی میچز کھیلے۔
٭… جنرل محمد ضیاء الحق (چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر)
24 مارچ 1981ء کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے عبوری آئین کا حکم (The Provisional Constitution Order) جاری کیا جس کے تحت 1977ء کے بعد سے فوجی حکومت کی طرف سے کئے گئے تمام اقدامات کو قانون کے مطابق قرار دے دیا گیا۔ اس حکم کے تحت 1973ء کے آئین کے ڈھانچے ہی کو گرا دیا گیا اور محض ان دفعات کو برقرار رکھا گیا جن سے صدر کے اختیارات کو تقویت ملتی تھی۔ اس حکم کے تحت انتخابات صوبائی اسمبلیوں، پارلیمنٹ اور بنیادی انسانی حقوق کے متعلق آئین کی دفعات کو خارج کردیا گیا اور یہ اختیارات صدر نے خود سنبھال لئے کہ وہ جب چاہیں جس طرح چاہیں، آئین میں ترمیم کرسکتے ہیں۔ اس حکم نے عدلیہ کی آزادی کو بھی سلب کرلیا کیونکہ اس کے تحت مارشل لاء حکومت کے کسی اقدام یا کسی فعل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا نہ ہی مارشل لاء کی عدالتوں یا کسی ٹریبونل سے دی جانے والی سزا کو چیلنج کیا جاسکتا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سپریم کورٹ فوجی حکومت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع کرنے والی تھی۔ مگر یہ سماعت شروع ہونا تو کجا، اس حکم نے، سپریم کورٹ کے ان سابقہ فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا جو مارشل لاء کی حکومت اور فوجی ٹریبونلوں کے تمام فیصلوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں صادر کئے گئے تھے۔عبوری آئین کے تحت ججوں کو لازمی قرار دیا گیا تھا کہ وہ عبوری آئین کی وفاداری کا حلف ازسرنو اٹھائیں۔ 25 مارچ 1981ء کو صدر ضیاء الحق نے پریذیڈنسی راولپنڈی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں سپریم کورٹ کے ججوں اور وفاقی شرعی عدالت کے ارکان سے اُن کے عہدوں کا حلف لیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس انوارالحق نے عبوری آئین کے اجرا سے اختلاف کے باعث اپنے عہدے کا حلف نہیں اُٹھایا۔ چنانچہ ان کی جگہ جسٹس حلیم کو، جو حلف اُٹھانے پر رضامند ہوگئے ، سپریم کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا گیا۔ان کے علاوہ جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس عبدالقادر شیخ، جسٹس اسلم ریاض حسین اور جسٹس ایم ظلّہ نے بھی عبوری آئین کے تحت حلف اُٹھایا۔
سپریم کورٹ کے تین اور ججوں جسٹس دراب پٹیل،جسٹس مشتاق حسین اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس آفتاب فرخ، جسٹس عامر رضا، جسٹس ذکی الدین پال،جسٹس کے ایچ حفیظ اللہ، جسٹس خلیل الرحمن،جسٹس کے اے صمدانی، جسٹس خورشیداحمد، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالحفیظ میمن، جسٹس جی ایم شاہ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس خدا بخش مری اور جسٹس ایم اے رشید نے بھی اپنے عہدوں کے حلف نہیں اُٹھائے اور اس طرح وہ بھی اپنے عہدوں پر قائم نہیں رہے۔نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت ملک کے مستقل آئین میں کوئی ضروری تبدیلی کرنے کی اجازت ضرور دی تھی لیکن چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کویہ اجازت ہرگز نہیں دی گئی تھی کہ وہ اپنی مرضی کا عبوری آئین ملک پر مسلط کردیں۔ ان کا یہ اقدام اپنی حدود سے صریح تجاوز اور خود ان کے اپنے سابقہ اعلانات کے بھی برعکس تھا۔
٭… صفدر حسین ( موسیقار)
24 مارچ 1989ء کو پاکستان کی فلمی صنعت کے مشہور موسیقار صفدر حسین وفات پا گئے۔صفدر حسین کی فلمی زندگی کا آغاز فلم ساز اور ہدایت کا نذیر کی فلم’’ ہیر‘‘ سے ہوا تھا۔ اس فلم کے نغمات نے پورے پاکستان میں دھوم مچادی۔ میں اڈی اڈی جاواں، اساں جان کے میٹ لی اکھ وے اور سانور سجناں دی ملنے دی تانگ اے، اسی مشہور فلم کے نغمات تھے۔ ہیر کے بعد موسیقار صفدر حسین کی لاتعداد فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں سے ہر فلم کے نغمات نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ ان کی ایسی ہی فلموں میں صابرہ، حمیدہ، حاتم، عشق لیلیٰ، حسرت، عشرت، گل بکائولی، مراد، ناگن، دل کے ٹکڑے، شب بخیر، پردہ، جناب عالی، راجہ رانی، ٹھاہ اور خردار کے نام سرفہرست ہیں۔صفدر حسین لاہو ر میں آسودۂ خاک ہیں۔
٭… جعفر ملک ( فلم ساز اور ہدایت کار)
24 مارچ 2006ء کو پاکستان کے مشہور فلم ساز اور ہدایت کار جعفر ملک وفات پاگئے۔ ان کی عمر 85 سال تھی۔جعفر ملک نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز انور کمال پاشا کے فلم ساز ادارے کمال پکچرز سے کیا تھا۔ 1957ء میں ان کی زیر ہدایت بننے والی نغمہ بار فلم سات لاکھ میں پورے پاکستان میں دھوم مچادی۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ ان کی اس فلم نے پہلے پانچ نگار ایوارڈز حاصل کئے تھے۔ جعفر ملک کی دیگر فلموں میں ’’مکھڑا، گلشن، شکاری، کمانڈر، پتھر تے لیک، پنج دریا، سجن ملدے کدی کدی، سہنا مکھڑا اور گھبرو ‘‘کے نام شامل تھے ۔تاہم گزشتہ بیس برس سے وہ فلمی صنعت سے ریٹائر ہو کر گمنامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔
٭… اقبال باہو (تمغئہ امتیاز یافتہ صوفی گلوگار)
24 مارچ2012ء۔ محمد اقبال المعروف اقبال باہو، تمغئہ امتیاز یافتہ پاکستانی صوفی گلوگار سلطان باہو کے کلام گا کر کافی شہرت حاصل کی۔ (پیدائش: 1944ء)
٭٭٭