اولمپک گیمز میں دوڑ ہونے لگی ہے۔ ایک نامور ایتھلیٹ عالمی ریکارڈ توڑنے کی امید میں ہے۔ کیا وہ ریکارڈ توڑ پائے گا؟ اگر آپ اس بات پر شرط لگانا چاہیں تو گھڑی پر وقت دیکھ لیں۔ اگر یہ دوڑ صبح گیارہ بج ہونے لگی ہے تو اس بات کا امکان ن زیادہ ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہو جائے گا۔ وہ کیوں؟ اس کے لئے پہلے بات سورج کا پیچھا کرنے والے پودے اور ایک اندھیری غار میں رہنے والے دو محققین کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانسیسی جیوفزسٹ ڈی میراں نے 1729 میں ایک پودے کے لئے وقت روک دیا۔ اس سے انہیں معلوم ہوا کہ گھڑی پودے کے اندر ہی تھی۔ ان کو چھوئی موئی کا پودا میموسا پوڈیکا حیران کرتا تھا۔ پورا دن اس کے پتے سورج کی طرف رخ کرتے تھے۔ سورج غروب ہو جاتا تو یہ پتے سکڑ جاتے جیسے مرجھا گئے ہوں۔ لیکن اگلا دن شروع ہوتا تو پھر کسی چھتری کی طرح کھل جاتے۔ ہر روز کا یہ معمول دیکھ کر عام خیال یہی تھا کہ دھوپ میں کچھ ایسا ہے جو پودے پر اتنا اثر کرتا ہے۔ اس خیال کو ڈی میراں نے چکنا چور کر دیا۔
پہلے انہوں نے ایک پودا لیا۔ کھلے میدان میں لگا یہ پودا سورج کا اسی طرح پیچھا کرتا رہا جیسا اس کا معمول ہے۔ اگلے رروز ڈی میراں نے اس کو ایک مکمل طور پر ہر طرف سے بند ڈبے سے ڈھک دیا جس کے اندندر مکمل تاریکی تھی۔ چوبیس گھنٹے کے اس مکمل اندھیرے میں پورا ویسی ہی حرکت کرتا رہا جیسے دھوپ میں نہایا گیا ہو۔ ڈی میراں نے صرف چند بار اس میں جھانک کر دیکھا، اس کی پوزیشن بالکل پچھلے روز کی طرح ہی بدلتی رہی۔ دن ختم ہوا، پتے بند ہو گئے۔ یہ سب کچھ سورج کے بغیر تھا۔ یہ انقلابی دریافت تھی کہ پودا سورج کا غلام نہیں، اپنی گھڑی خود رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے دو صدیوں کے بعد پہلی بار یہ ثابت ہوا کہ یہ ردھم انسانوں کے ساتھ بھی ہے اور اس نئے تجربے نے اس میں ایک غیرمتوقع اضافہ بھی کیا۔ یہ 1938 تھا اور شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر کلیٹ مین اپنے ریسرچ اسسٹنٹ بروس رچرڈسن کے ساتھ ایک تجربہ کرنے نکلے۔ اس کے لئے جو لگن درکار تھی، اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔
یہ تجربہ انہوں نے خود پر کرنا تھا۔ چھ ہفتے کی خوراک اور پانی، دو بستر اور کچھ سازوسامان لے کر انہوں نے میمتھ غارر کا رخ کیا۔ دنیا کا گہرا ترین غار جہاں پر سورج کی روشنی کی رمق کا پہنچنا بھی ممکن نہیں۔ اس غار کی تاریکی سے انہوں نے انہوں نے دریافت کی یہ روشنی کی کہ ہمارا بائیولوجیکل ردھم بھی ویسا ہی ہے اور تقریباً ایک دن کا ہے۔ مکمل طور پر ایک دن کا نہیں۔
اشیائے خورد و نوش کے ساھ وہ اپنے جسم کے درجہ حرارت اور سونے جاگنے کے پیٹرن نوٹ کرنے کا سامان بھی لے گئے تھے۔ اپنے پلنگ کی ٹانگوں کو انہوں نے چار پانی سے بھری بالٹیوں میں ڈبو دیا تھا تاکہ ان کے ساتھ کیڑے مکوڑے سونے میں شریک نہ ہوں۔ ان کا سوال یہ تھا کہ اگر سورج نہ ہو تو پھر ہمارے جسم کے سائیکل کس طرح کے ہوں گے۔
انہوں نے اس مکمل تاریکی میں 32 روز گزارے۔ ایک دریافت یہ کی کہ چھوئی موئی کے پودے کی طرح ہماری گھڑی بھی ہمارے اندر ہی ہے۔ دونوں میں سے کسی کی بھی نیند بے ترتیب نہیں ہوئی۔ پندرہ گھنٹے جاگنے کے بعد نو گھنٹے نیند جیسا پیٹرن برقرار رہا۔ جسم کے درجہ حرارت کا اتار چڑھاوٗ بھی ایک ردھم میں ہوتا رہا۔
دوسرا غیرمتوقع نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان رچرڈسن کا یہ پیٹرن چھبیس گھنٹے کا تھا جبکہ چالیس سالہ کلیٹ مین کا چوبیس گ گھنٹے سے چند منٹ اوپر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد پچھلے اسی سال میں ہم دریافت کر چکے ہیں کہ ہمارا یہ ردھم اوسطاً چوبیس گھنٹے اور پندرہ منٹ کا ہے۔ جب ہم دوسری انواع کو دیکھتے ہیں تو وہاں پر بھی ایسا نظر آتا ہے۔ زیادہ انواع کا یہ سائیکل چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہے جبکہ گلہری یا چوہے کا یہ اندرونی قدرتی سائکل چوبیس گھنٹے سے کچھ کم ہے۔ چونکہ ہم میمتھ غار جیسی جگہوں میں نہیں رہتے، اس لئے اس گھڑی کو سورج ٹھیک کرتا رہتا ہے۔ ویسے ہی جیسے کسی سست چلنے والی گھڑی کو روزانہ ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر اثرانداز ہونے والی دوسری چیزوں میں ورزش، ہماری سوشل انٹر ایکشن یا کھانے پینے کے اوقات بھی ہیں۔ دھوپ اس کو سیٹ کرنا کا سب سے قابلِ اعتبار طریقہ ہے کیونکہ ہمارے سیارے کی تشکیل سے لے کر آج تک سورج کا طلوع و غروب روزانہ ہوتا ہے اور یہ سرکیڈین ردھم اس دھوپ کے چکر کی وجہ سے ہی ہے۔ نابینا لوگ بھی اس کو “دیکھ” لیتے ہیں کیونکہ اس کا سرکٹ بصارت کے سرکٹ سے الگ ہے۔ چوبیس گھنٹے کی یہ بائیولوجیکل کلاک دماغ کے درمیان میں بیٹھی ہے اور سپراکیاسمیٹک کہلاتی ہے۔ یہ وہ جگہ جہاں آنکھ سے آنے والی اعصابی راستے کا الٹنے سے پہلے ملاپ ہوتا ہے۔ یہ بیس ہزار دماغی خلیات پر مشتمل ہے۔ اگرچہ یہ بڑا عدد لگے لیکن ایک کھرب کے قریب اعصابی خلیوں والے دماغ میں یہ بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ چھوٹا سا حصہ دماغ کے آرکسٹرا کا کنڈکٹر ہے۔ آپ یہ پوسٹ کتنی توجہ سے پڑھ رہے ہیں، کب سونا اور کب جاگنا چاہتے ہیں۔
ہر ایک کا چوبیس گھنٹوں کا ردھم ایک جیسا نہیں۔ اسی وجہ سے کچھ لوگ جلد س سو سکتے ہیں، کچھ نہیں۔ یہ ردھم کھانے اورر پینے کے وقت کی ترجیح بھی متعین کرتا ہے، موڈ اور جذبات کو بھی، میٹابولزم کے ریٹ کو بھی اور کئی ہارمونز کے لیول کو بھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں کہ اولمپک ریس میں دوپہر سے پہلے ہونے والے مقابلوں میں قائم کردہ ریکارڈز بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ وقت سب سے زیادہ چستی کا وقت ہے۔