٢٣ مارچ کا دن وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ٢٣ مارچ ١٩۴٠ء کو لاہور میں واقع ’’منٹو پارک‘‘ موجودہ ’’اقبال پارک‘‘ میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور ٢٣ مارچ ہی کے دن ١٩۵٦ء میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا، ٢٣ مارچ کی تاریخی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر سال ٢٣ مارچ کو یومِ پاکستان منانے کا اعلان سرکاری طور پر کیا گیا۔ اس تاریخی دن کو منانے کیلئے پورے پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ٢٣ مارچ ١٩۴٠ء کو قائد اعظمؒ کی زیرِ صدارت منظور کی گئی۔ قرارداد پاکستان نے تحریکِ پاکستان میں نئی روح پھونک دی تھی۔ جس سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش کی گئی قرار داد کو اس وقت ’’قرار دادِ لاہور‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ جس کو دشمنانِ اسلام و پاکستان نے طنزیہ طور پر ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا۔ اسی دن سے قرار دادِ لاہور ، قرار دادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہو گئی، اور مسلمانوں نے اس نئے نام یعنی ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ کو بخوشی قبول کر لیا۔
تاریخی پس منظر :
۔"""""""""""""""""""""
برصغیر میں فروری ١٩٣۷ء کے انتخابات اور اس کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو بنیوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے گرد معاشی، سیاسی، سماجی و معاشرتی گھیرا مزید تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ذات پات، اونچ نیچ اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہندو بنیوں نے نہ صرف مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی تھی، بلکہ دیگر اقلیتوں جن میں عیسائی وغیرہ بھی شامل تھے، ان کا جینا بھی دو بھر ہو گیا تھا۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو اپنی سماجی، ثقافتی، سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور معاشی روایات کو پروان چڑھانے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا اور یہ دو قومی نظریئے کی انتہا تھی۔ مزید یہ کہ اقتدار کے نشے میں مست کانگریسی حکومت نے ہندو اکثریت کو رام کرنے کے لئے انتہا پسند فیصلے کئے۔ بندے ماترم جیسے مسلم مخالف ترانے کا انتخاب انہی میں سے ایک فیصلہ تھا کہ سبھاش چندر بوس، کانجی دوارکا داس اور خود رابندر ناتھ ٹیگور روکتے ہی رہ گئے۔ سبھاش کے بھائی سرت چندر بوس کے ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ پوتے سوگاتا بوس نے حال ہی میں اپنے چچا کی سوانح میں ٹیگور کے گاندھی کے نام خطوط بھی چھاپے ہیں، جس میں بندے ماترم کو مسلمان مخالف گیت قرار دیتے ہوئے ٹیگور نے اسے اپنانے سے منع کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ مشہور تاریخ دان کے کے عزیز نے تو کانگریسی وزارتوں کی قرار دادوں اور فیصلوں پر مشتمل دو جلدوں میں مستند کتاب بھی لکھی ہے، جو ایسے ہی ناعاقبت اندیش فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ تو یہ وہ سیاست تھی جو ٢٣ مارچ ١٩۴٠ء کا جواز مہیا کرتی ہے۔
٢٣ مارچ ١٩۴٠ء کی قرار داد :
۔"""""""""""""""""""""""""""""
٢٣ مارچ ١٩۴٠ء کی قرارداد کی تیاری میں اس امر کو خاص طور پر توجہ کا مرکز بنایا گیا تھا کہ قرار داد میں کہیں بھی کوئی کمی یا خامی نہ رہ جائے جس کا فائدہ دشمن عناصر اٹھائیں، اس مقصد کیلئے بہت سے عبقری، دانشور اور قانونی ماہرین کو قرار داد کے متن کی تیاری میں شامل کیا گیا تھا، لیکن ہندوؤں کی کینہ پرور لیڈر شپ ایک جامع اور مکمل قرار داد پر تنقید کرنے سے باز نہ رہ سکی۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی سیاسی بصیرت کی وجہ سے قرار داد کی تیاری سے لیکر تمام معاملات بخیر و عافیت طے پا گئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے ٢٢ ، ٢٣ اور ٢۴ مارچ ١٩۴٠ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس عام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں تاریخی اہمیت کی حامل یہ قرار دادِ لاہور پیش کرنا تھی جو بعد میں چل کر قرار دادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ ٢١ مارچ ١٩۴٠ء کا قائد اعظم محمد علی جناحؒ فرنٹیئر میل کے ذریعے لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچے جہاں لوگوں کا جم غفیر آپ کے شاندار استقبال کے لئے موجود تھا اور تاریخ بتاتی ہے کہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ مسلمانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا اور گرد و نواح کے تمام علاقے فلک شگاف نعروں سے گونج رہے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اپنے ضروری معاملات نمٹانے کے بعد جب جلسہ گاہ پہنچے تو انہوں برجستہ تقریر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس وقت کے میڈیا کے مطابق قائد اعظمؒ نے تقریباََ سو (١٠٠) منٹ پر مشتمل شاندار تقریر کی جس کو سن کر حاضرین جلسہ دم بخود رہ گئے۔
قائداعظمؒ نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے جداگانہ قومیتی وجود کو حقیقی فطرت قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’ہندوؤں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ اسلام اور ہندو ازم مذہب کے عام مفہوم ہی نہیں بلکہ واقعی دو جداگانہ اور مختلف اجتماعی نظام ہیں اور یہ محض خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم بن سکیں گے۔‘‘ بالآخر وہ وقت آن پہنچا کہ وزیراعظم بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے تاریخی قرار داد پیش کرنے کے بعد اس کی حمایت میں تقریر بھی کی، جس میں انہوں نے بنگال اسمبلی میں اپنی ایک تقریر کا حوالہ بھی دیا اور یہ ثابت کیا کہ فرزندانِ توحید کی آزادی کی صرف یہی ایک صورت ہے۔ چودھری خلیق الزماں نے اس قرار داد کی تائید کی، ان کی تائیدی تقریر کے بعد مولانا ظفر علی خاں، سرحد اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر سردار اورنگ زیب خاں اور سرعبداﷲ ہارون نے تقاریر کیں۔ کم و بیش پورے برصغیر کی مسلمان قیادت نے اس پلیٹ فارم سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے نئے عزم اور ولولے سے سفر آزادی شروع کرنے کا عہد کیا۔ اس تاریخی جلسے اور قرارداد کو اس لئے بھی اہم مقام حاصل ہے کہ یہ ایک اجتماعی سوچ کا شاخسانہ تھا۔ اجتماعی طور پر تمام مسلمان ایک قوت اور ایک تحریک کا روپ دھارے ہوئے تھے۔ باہمی اختلافات اور ایک دوسرے پر کیچڑ اْچھالنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ قرار داد کی پیشی اور منظوری کے بعد مسلمان ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ ایک روشن صبح کی جانب اپنا سفر شروع کرنے جا رہے تھے، جس کی سربراہی تاریخ کے عظیم ترین لیڈر حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کر رہے تھے۔ یہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی سیاسی بصیرت و حالات کو دیکھتے ہوئے بہترین حکمت عملی اور خدائے بزرگ و برتر کا فضل و کرم تھا، جس نے مسلمانوں کیلئے بروقت ایک آزاد ، خود مختار مملکت خداداد پاکستان قائم کرنے میں حقیقی کردار ادا کیا تھا۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی مصلحتوں اور آپس کی ریشہ دوانیوں کو بھلا کر پھر سے متحد ہو جائیں۔ آج ۷۴ سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہمیں اپنے اندر ٢٣ مارچ ١٩۴٠ء کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور تجدیدِ عہدِ وفا کرتے ہوئے قرار دادِ پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل اور قائد اعظمؒ اور دیگر قومی رہنماؤں کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہو گا۔ دو قومی نظریہ جو موجودہ حالات میں دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے اسے بچانا ہو گا۔ دنیا کو دکھانا ہو گا کہ ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان کے قیام کے خواب کو پورا کیا تھا۔ ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنے قائد کی رہنمائی میں دو قومی نظریئے کو سچ ثابت کر کے دکھایا تھا۔ ہمیں قرار دادِ پاکستان کی روشنی میں مملکتِ خدادا پاکستان کو پروان چڑھانے کیلئے انفرادی و اجتماعی طور پر سر ڈاکٹر محمد علامہ اقبالؒ کا شاہین بننا ہو گا۔ خدا تعالیٰ پاکستان اور پاکستانی قوم کا حامی و ناصر ہو۔ پاکستان زندہ باد!
نوٹ : ۔ باباۓ قوم کی یہ تصویر ٢٣ مارچ ١٩۴٠ کی ہے گارڈ آف آنر لیتے ہوئے۔