معلوم تاریخ میں سترہ رمضان المبارک ۲ھ میدان بدر وہ پہلا موقع تھا جب دوقومی نظریہ وجودمیں آیا تھا۔ اس دن ایک ہی نسل،ایک ہی قوم، ایک ہی زبان، ایک ہی علاقے اور ایک ہی تہذیب و تمدن و معاشرت و مشترک تاریخ رکھنے والے صرف نظریے کی بنیاد پر باہم برسرپیکارتھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عقیدہ کی قوت رگوں میں بہنے والے خون سے کہیں زیادہ طاقتورہوتی ہے۔ اسی عقیدے نے حضرت نوح علیہ السلام اوران کے بیٹے کے درمیان حدفاصل قائم کردی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے والد کے درمیان بھی دوقومیتوں کا تعین کرنے والافیصلہ کن عنصر عقیدہ ہی تھا۔ماضی قریب میں یہ نظریہ انیسویں صدی کے وسط میں فکری طاقت کے ساتھ ایک بار قرطاس تاریخ پر نمودارہوا اور اس کی گونج شرق و غرب میں سنائی دینے لگی۔ 1917ء میں مذہب کا اختلاف ہوتے ہوئے روس کی ریاستیں باہم ایک ہو گئیں تو یہ عقیدہ ہزیمت کا شکار ہوگیا۔1947ء میں صرف مذہب کے نام پرتقسیم ہند سے اس عقیدے کو پھر حیات نو میسر آئی۔1971ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دولخت ہونے سے دوقومی نظریے کے مخالفین ایک بارپھر بغلیں بجانے لگے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ مذہب کے نام پر ایک ہونے والے قومیت کے نام پر جداہو گئے ہیں۔لیکن 1989ء میں USSRکے ٹکرے ٹکرے ہو جانے سے اورمذہب ہی کی بنیادپر چھ آزادریاستوں کے قیام سے اس نظریے کی آفاقی حقانیت ایک بار پھرطشت از بام ہو چکی۔
قائداعظم محمدعلی جناح ؒسے ایک ہندولڑکے نے سوال کیاکہ آپ ہندوستان کو تقسیم کیوں کرناچاہتے ہیں؟؟،قائداؑظمؒ نے پانی کا گلاس منگوایاجس پروہ ہندو لڑکاپھولانہیں سمایا کہ اس کے سوال سے مسلمانوں کا راہنما گھبراگیاہے۔قائداعظم ؒنے پانی کا گلاس آدھا پیااور بقیہ آدھابچاہوا پانی اس ہندولڑکے کو دیا کہ اسے پی لو،اس نے اپنی مذہبی و تہذیبی روایات کے عین مطابق ایک مسلمان کا بچاہوا”جھوٹا“پانی پینے سے صاف انکار کردیا،اس پر قائداعظم ؒنے ایک مسلمان بچے کو بلایااور وہ بچاہواپانی اسے پیش کیاجسے اس مسلمان بچے نے تبرک و سعادت سمجھ کر نوش جان کیا۔تب یہ بات سمجھ میں آگئی کہ جو قوم کسی دوسری قوم کے ساتھ ایک برتن میں خوردونوشت کی روادارنہیں ہوسکتی وہ ایک ملک اورایک وطن میں اکٹھے کیسے رہ سکتے ہیں؟؟؟بعد کی تاریخ نے یہ ثابت کیاکہ مسلمانوں کا 23مارچ 1940ء کافیصلہ درست تھا۔مسلمان تو بہت دور کی بات ہے ہندو برہمن تو دیگر ذات کے ہم مذہبوں کو بھی اپنے پہلو میں بٹھانے تک کو برداشت نہیں کرتاتو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مسلوں کو برداشت کر لے جنہیں وہ ملیجھ اور ناپاک تصورکرتاہے۔خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ایک شودر بھارتیہ راجییہ سبھاکا رکن منتخب ہو گیاتو اسمبلی جیسے اعلی ترین جمہوری ادارے میں بھی اس شودر رکن اسمبلی کے لیے پانی کا گھڑااور مٹی کا پیالہ الگ سے دھرارہتاتھااور اسے دیگر اعلی ذات کے ہندواراکین پارلیمان کے برتن استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی۔ہندوستان کے ہوٹلوں میں بھی نچلی ذات کے ہندؤں کے لیے الگ سے میزیں اور کھانے کے برتن جو مٹی کے بنے ہوتے ہیں استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ اعلی ذات کے ہندواس بات کو برداشت نہیں کرتے کہ ایک ہی برتن میں کھاناپیناکیاجائے اور وہ مٹی کے برتن جو نچلی ذات کے ہندواستعمال کرتے ہیں بعد ازاں توڑ دیے جاتے ہیں تاکہ اعلی ذات کے ہندؤں کے جذبہ تعصب کاسامان تسکین فراہم کیاجاسکے،ان حالات میں دوسرے مذاہب کے ماننے کی کوئی وجہ جواز اتحاد باقی نہیں بچتی۔
مسلمانوں نے کم و بیش ایک ہزارسالوں تک پوری دنیاسمیت ہندوستان میں حکومت کی اور افغانستان سے انڈونیشیاو ملائشیا،نیپال،بھوٹان،پاکستان اور سری لنکاکے کچھ علاقوں تک اور دوسری طرف برماکے نواحات سے ایران کے سرحدی قصبوں تک کا وسیع و عریض علاقہ مسلمانوں کے زیرنگیں رہااور اس دوران میں بھی مسلمانوں نے بحیثیت حکمران بھی اور بحیثیت شہریوں کے بھی ہندؤں کے ساتھ بہترین حسن سلوک روا رکھااورسیاسی و معاشی و معاشرتی قبیل کے بہترین مناصب و مقامات بھی ان ہندؤں نے مسلمانوں کے ہاں سے پائے اور ہندوستان کی تاریخ میں اس سے بہتر دورہندؤں نے کبھی نہیں دیکھاکیونکہ اس سے پہلے بھی ہندوستان کی سرزمین ہندؤں کے ہی ہاتھوں ہندؤں کے خون سے رنگین ہوتی رہی اگرچہ ظلم و استبدادکی اس ہولناک جنگ و جدال کو برہمن نے مذہبی رنگ دے دیااور اس خونریزی کی داستانوں نے مذہبی عقیدت کااوڑھنااوڑھ لیالیکن مورخ کی گواہی بہرحال حرف آخر کاسندرکھتی ہے کہ ہندوملت نے اپنے آغاز سے تادم تحریرامن وامان اور مذہبی آزادی کابہترین دور مسلمانوں کے دوراقتدارمیں ہی پایاہے۔لیکن انگریزکے دورمیں جب بھی جزوی اختیارکی گھومنے والی کرسی ملی تواس کرسی کی گردش کواس ہندو برہمن نے نچلی ذات کے ہندؤں اورمسلمانوں کی گردنوں میں طوق بناکر ڈالااور تقسیم ہند کے بعد سے تو گویاایک خون کی ہولی ہے جو قیام پاکستان کے تناظر میں ہندوستانی مسلمانوں کے خون سے انتقاماََ کھیلی جارہی ہے۔ان حالات میں دوقومی نظریے نے اپنی حقانیت پتھرپر لکیر کی طرح ثبت کر دی ہے۔
23مارچ1940ء ہندوستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جس نے اس خطہ ارضی کی تاریخ کے دھارے کومنزل آشناکردیا۔لاہورکے گلستان اقبال میں قائداعظم محمدعلی جناح ؒکی زیرصدارت ایک لاکھ سے زائد فرزندان توحید جمع ہوئے،صدارتی خطبہ میں بابائے قوم ؒ نے فرمایا کہ:
”اسلام اور ہندودھرم محض دو مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام ہیں،یہ لوگ باہمی شادی بیاہ نہیں کرتے نہ ہی ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں۔میں واشگاف الفاظ میں کہتاہوں کہ وہ مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیادایسے تصورات اور حقائق پررکھی گئی ہے جونہ صرف ایک دوسرے کی ضد ہیں بلکہ اکثرمتصادم ہوتے رہتے ہیں۔انسانی زندگی سے متعلق مسلمانوں اور ہندؤں کے خیالات و تصورات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمان اور ہندو اپنی اپنی قربانی کی تمناؤں کے لیے مختلف تواریخ سے نسبت رکھتے ہیں،ان کے تاریخی ماخذمختلف ہیں،ان کی رزمیہ نظمیں،ان کے مشاہیر اور ان کے قابل فخر تاریخی کارنامے سب کے سب مختلف اورجداجداہیں۔اکثراوقات ایک قوم کی نابغہ روزگارہستی دوسری قوم کی بدترین دشمن واقع ہوتی ہے اور ایک قوم کی فتح دوسری کی شکست تصورہوتی ہے۔ایسی دوقوموں کوایک ریاست اور ایک حکومت کی مشترکہ گاڑی کے دو بیل بنانے اوران کے باہمی تعاون کے ساتھ قدم بڑھانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں کے دلوں میں بے صبری روزبروزبڑھتی رہے گی جوانجام کار تباہی لائے گی خاص طورپراس صورت میں کہ ایک قوم تعداد کے اعتبار سے اقلیت میں ہواور دوسری کو اکثریت حاصل ہو۔ایسی ریاست کے آئین کا عمل خاک میں مل کررہے گا“۔
بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناحؒکے اس فکرانگیزخطاب کے بعد شیربنگال مولوی فضل حق نے قراردادلاہور کے نام سے مسلمانوں کا متفقہ دستورالعمل پیش کیاجس پر آنے والے دنوں کی جدوجہد نے اپنی بنیاد کی۔قرارداد لاہور کے مطابق:
”اس ملک میں کوئی دستورقابل عمل نہ ہوگاجب تک کہ جغرافیائی اعتبار سے متصلہ علاقے الگ الگ خطے بنادیے جائیں اور ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق کے جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں ان کو علیحدہ ریاست کا درجہ دے دیاجائے جس کے اجزائے ترکیبی خود مختاراور مقتدر ہوں اور ملک کی اقلیتوں کے حقوق کی موثر ضمانت فراہم کی جائے“۔
اس اجتماع میں موجود کل مسلمانوں نے اس قرارداد کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔اس کے بعد فلسطینی مسلمانوں کے حق میں بھی ایک قرارداد پیش کی گئی جسے پورے جلسے نے اسی طرح منظور کیا جس طرح قرارداد پاکستان کو منظور کیاتھا۔پاکستان کی تخلیق اسی قراردار کے نتیجے میں ہوئی گویادوقومی نظریہ پاکستان کے لیے مادرنظریہ کی حیثیت رکھتاہے۔یاد رہے اس قرارداد کے بعد نئی مملکت کی حدودبہرصورت متعین ہوچکی تھیں لیکن اس کے باوجود کل ہندوستان کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیابلکہ آسمان گواہ ہے کہ جن علاقوں نے پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھا ان علاقوں کے مسلمانوں کا جذبہ دیدنی تھااور ان علاقوں کے مسلمانوں کے خون سے اس وقت بھی اورآج بھی برہمن کے سیکولرازم کادامن خون خون ہے۔پاکستان میں شامل نہ ہونے والے علاقوں سے ”اردو“زبان کوپاکستان کی قومی زبان بناکر قائداعظم ؒ نے ان علاقوں کو بھی پاکستان میں نمائندگی عطا کردی۔اب اردوپاکستان کی علاقائی زبان نہیں لیکن قومی زبان ضرورہے اوریکجہتی پاکستان کی ترجمان اور اتحاد مملکت کی مظہرزبان ہے۔
پس مملکت خدادادپاکستان تاریخ اسلام کے سنہرے اوراق میں فتح مکہ کے بعد دوسری سب سے بڑی کامیابی ہے جس کا سہرا مسلمانان ہندوستان کے سر ہے اور اب یہ ”پاکستان“صرف پاکستانیوں کی سرزمین نہیں بلکہ کل پاکستانی اپنی آزادی وخودمختاری کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کے مقروض ہیں،اس قرض کی پہلی قسط اردوکو قومی زبان کا درجہ دے کر بابائے قوم نے اتاری تھی اگرچہ اس قسط کا بھی تکملہ ابھی باقی ہے لیکن حقیقت یہ ہے پاکستان کا وجود برصغیرکے کل فرزندان توحیدکا نمائندہ وجود ہے بلکہ قائداعظم ؒکے ایک قول کے مطابق یہ مملکت کل دنیاکے مسلمانوں کی امین مملکت ہے۔”سب سے پہلے پاکستان“کاشرانگیزنعرہ دوقومی نظریے سے انحراف کا راستہ ہے اور اس نعرے کے حاملین نے وطن عزیزکو جس طرح کے کچوکے لگائے وہ نوشتہ دیوارہیں۔کل برصغیر کے مسلمان بالخصوص اور پوری دنیاکے مسلمان بالعموم پاکستان کو اپنا اولین وطن سمجھتے ہیں اور انکی ملی وابستگی اور قلبی دعائیں و تمنائیں صبح و شام اس مملکت اسلامیہ کے یمین و یسار رہتی ہیں۔پاکستان کے ایٹمی دھماکے پر شرق و غرب میں کل امت کا جشن اس کی زندہ مثال ہے۔دوقومی نظریہ آج بھی اپنے اثبات کی جنگ لڑ رہاہے اور بنگلہ دیش میں اس نظریے کے سپاہی آج بھی اس عقیدے کے تناور درخت کو اپنے مقدس خون سے سیراب کررہے ہیں اور انہوں نے آج تک ہتھیار نہیں ڈالے کیونکہ وہ تنخواہ دار اورباوردی نہیں ہیں۔پہلوئے پاکستان میں ایک طویل کشمکش کے بعد استعمار کی شکست نویدصبح دیتی ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب پاکستان سے بچے کھچے پسماندگان دورغلامی راندہ درگاہ ہوں گے اورجس طرح اس مقدس سرزمین کے بطلان حریت نے کیمونزم کو شکست فاش سے دو چار کیاہے اسی طرح اب سیکولرازم کی موت کا پروانہ بھی اسی سرزمین اولیاء سے جاری ہو گا،اورمغربی تہذیب کے دلدادہ سودی نظام کے پناہی اور آزادی نسواں کے نام پر عورت کا استحصال کرنے والوں کے لیے یہ سرزمین ابدی قبرستان بنے گی۔بہت جلدپس طلوع آفتاب پاکستان کے خالق نظریے کے وارثان حقیقی اس مملکت کی مسنداقتدارپر براجمان ہوچکیں گے اور دنیابھرکے کسی بھی مسلمان کی طرف اٹھنے والے ناپاک ہاتھ مملکت اسلامیہ پاکستان کے خوف سے واپس پلٹ جایاکریں گے،انشاء اللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...