حقوق اللہ،حقوق العباد اور حقوق النفس میں توازن کانام اسلام ہے۔اس دنیامیں ہر نظام کے اندر افراط و تفریط موجود ہے،کہیں حقوق اللہ موجود ہیں تو حقوق العباد اور حقوق النفس کافقدان ہے جیسے مذہب عیسائیت۔کہیں حقوق النفس اداکیے جاتے ہیں تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ترک کردیاجاتاہے جیسے یہودیت اور ہندومت اور کہیں حقو ق العبادپر زور دیاجاتاہے تو حقوق اللہ اور حقوق النفس سے عام بے رغبتی ہے جیسے سیکولر مغربی تہذیب ہے وغیرہ۔ان سب کے مقابلے میں انبیاء علیھم السلام نے ایک بڑا ہی متوازن اور عدل و احسان سے بھرپور نظام دیاہے جس کو قرآن مجیدنے ”دین اسلام“ کے نام سے یاد کیاہے۔اس نظام میں ہر تین حقوق کے درمیان بہترین توازن قائم کیاگیاہے۔اگرچہ گزشتہ مذاہب بھی انبیاء علیھم السلام کے لائے ہوئے ہی ہیں لیکن ان میں جہاں جہاں انسان نے اپنی دانست استعمال کر کے تو تحریف کی کوشش کی ہے وہیں پر یہ نظام عدم توازن کا شکار ہوگئے ہیں اوربگڑتے بگڑتے آج یہ صورتحال ہو گئی کہ ان تعلیمات کی اصل شکل ہی مسخ ہوکر رہ گئی ہے جبکہ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جوآج تک ہر طرح کی تحریف سے مطلقاَ پاک ہے تاقیامت محفوظ و مامون رہے گی۔
”خدمت خلق“اسلام کا وہ باب ہے جس کے ڈانڈے حقوق العباد سے ملتے ہیں۔اگر کہا جائے کہ انبیاء کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ ”خالق براستہ مخلوق“تواس میں ذرہ برابربھی مبالغہ نہ ہوگا۔خدمت خلق کی کئی اقسام ہوسکتی ہیں لیکن تعلیم کے ذریعے عقائد کی درستگی سب سے بڑی خدمت ہے،اس لیے کہ تصورات کے واضع اور پختہ ہونے سے ہی تو اعمال کی درست عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔ایک خدا کے پجاری میں اور خواہش نفس کے پجاری میں بعدالشرقین، مشرق و مغرب کا فرق ہوتا ہے۔انبیاء علیھم السلام نے انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہ کی کہ انہیں تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں انسان بنایا،نیکی اوربدی کافرق ذہن نشین کراکے نیکی کی تلقین کی،پتھروں اوردرختوں کو پوجنے والوں کو ایک الہ کے آگے سر بسجودکیا،احساس ذمہ داری کی خاطر انہیں آخرت کی حقیقت سے آگاہ کیا،للھیت کی خاطر انہیں انبیاء علیھم السلام کے طریقوں کا پیروکارکیا کہ جن سے بہتر لوگ اس زمین کے سینے پر کبھی وارد نہیں ہوئے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوں گے۔ان عقائد کی درستگی کے نتیجے میں ایک ایسا گروہ تیار ہوا جس نے بالآخربے لوث ہو کر انسانیت کی خدمت کی اور ایسی ایسی زندہ روایات چھوڑیں کہ آج بھی انسانیت ان کے تذکروں سے آسودگی،ٹھنڈک اور مٹھاس پاتی ہے اور آج بھی انکے دروس خدمت تازہ وخوشبودار ہیں اور آج بھی وہ ہستیاں کل انسانیت کے لیے میارہ نور سے کم نہیں ہیں۔
خدمت خلق کے تمام دروس کا منبع حضرات انبیاء کرام علیھم السلام ہیں،جیسے حضرت آدم علیہ السلام سے نسل انسانیت کاآغازکیااور اولین انسانوں کو معرفت الہی عطا کی،حضرت ادریس علیہ السلام نے قلم سے لکھنے کا آغاز فرمایااور تعلیم و تعلم میں آلہ قلم کے باعث آج تک ابلاغ و صحافت کی خدمت جاری ہے،حضرت موسی علیہ السلام نے سسکتی انسانیت کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی جس کے باعث آج تک ہر قوم آزادی کو اپنا حق اور آزادی کے دفاع کو اپنا فرض سمجھتی ہے،حضرت داؤد علیہ السلام نے انسانیت کو لوہے کی تکنالوجی سے آگاہ کیا جس سے آج تک دنیاکاکاروبار معیشیت گرم ہے،اور حضرت عیسی علیہ السلام نے فن طب کی بنیاد رکھی جس کے باعث ایک دنیاہے جو آج تک شفایاب ہوتی چلی جارہی ہے اور محسن انسانیت ﷺ نے قبیلہ بنی نوع انسان میں درس انسانیت کا آغاز کیا اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ ہر سبق کا آغاز اسکے بانی سے کیاجاتاہے ”ایٹم“جیسے سبق کا آغاز بوہر سے کیاجاتا ہے جبکہ بوہر کی بتائی ہوئی بات کہ ایٹم مادہ کا سب سے چھوٹاذرہ ہے، غلط ثابت ہوچکی ہے،پاکستان کے سبق کا آغازعلامہ محمداقبال ؒاور قائداعظم ؒسے ہوتا ہے جبکہ انسانیت کے سبق سے قبل بانی انسانیت ﷺ کو بھلادیاجاتاہے۔انبیاء علیھم السلام کے بعد ایک ہزارسالوں تک مسلمانوں نے اس عالم انسانیت کی خدمت کی،روم اوریونان کے جمود کا شکار علم طبعیات و کیمیاکو مسلمانوں کے ہاتھوں تجدید حیات میسر آئی،سود اور غلامی جیسی قباحتوں کا خاتمہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہوا چنانچہ ایک ہزارسالہ طویل دورمیں مسلمانوں نے کسی قوم کو اپنا تہذیبی،تعلیمی،معاشی یاتعلیمی غلام نہیں بنایاجبکہ مسلمانوں کے بعد سے آج تک سیکولرمغربی تہذیب نے دنیاکی اقوام کو ناک تک غلامی کی زنجیروں میں بری طرح جکڑ رکھاہے۔
بے لوث خدمت خلق دراصل ابنیاء علیھم السلام کا دیاہواسبق ہے،حضرت آدم علیہ السلام سے محسن انسانیت ﷺ تک ہر نبی نے اپنی قوم سے کوئی معاوضہ نہیں چاہا اور بغیرکسی بدلے کہ ان کی خدمت کی ہے۔قرآ ن مجیدنے جگہ جگہ انبیاء علیھم السلام کایہ جملہ نقل کیاہے کہ”وَ مَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۲:۷۲۱)“ترجمہ:”میں تم سے اس(خدمت)کاکوئی بدلہ نہیں مانگتا،میرااجرتومیرے رب کے ذمے ہے“۔خدمت خلق میں سب سے پہلا درجہ والدین کا ہے،قرآن مجید نے والدین کی خدمت کی بہت تلقین کی ہے اور انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے یہ واضع ہوتاہے کہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے بعد والدین ہی انسان کے لیے سب سے بڑے خیرخواہ ہوتے ہیں اور وہی انسان کی خدمت کے حق دار ہوتے ہیں۔آسمانی تعلیمات میں یہ بات تحریر ہے کہ جب والدین بوڑھے ہوجائیں تو ان کے آگے ”اف“بھی نہ کرو یعنی اپنی تکلیف کا اظہار بھی نہ کرو اور ان کے سامنے جھکے رہواور ان سے نرمی سے بات کرو انہیں جھڑکو نہیں یہاں تک کہ بعض کتب میں لکھاہے کہ دوران نماز اگر والدین میں سے کوئی بلالے تو اپنی نماز توڑ کر ان کی بات سنی جائے۔والدین کے بعدذوی القربی، یعنی انکے والدین،پھر بہن بھائی اور والدین کے بہن بھائی اور پھر دیگر رشتہ دار جن میں عزیزواقربا،رضاعی وسسرالی اورخاندان و قبیلہ کے دیگر افراد شامل ہیں۔ان سب کی خدمت کے لیے اللہ تعالی نے ”صلہ رحمی“کی اصطلاح استعمال کی ہے۔”صلہ“کا مطلب جوڑناہے اور”رحم“ماں کے پیٹ کو کہتے ہیں،رشتے سب ماں کے پیٹ سے ہی تعلق رکھتے ہیں اس لیے قرآن و سنت سے صلہ رحمی پر بہت زور دیاہے اورقطع رحمی یعنی رشتہ داروں سے تعلقات کوختم کرنے کو گناہ کبیرہ قرار دیاہے۔
خدمت خلق میں اگلا بہت اہم درجہ پڑوسی کا ہے۔ایک موقع پرآپ ﷺ نے فرمایا کہ جبریل نے پڑوسیوں کے بارے میں اتنی تاکید کی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ مباداپڑوسی کو وراثت میں شریک کر دیاجائے،ایک بار جنازہ گزرا آپ ﷺ نے پوچھا کیساآدمی تھا؟؟ لوگوں نے بہت تعریف کی آپ ﷺ نے پوچھا پڑوسی کے ساتھ اس کا رویہ کیسا تھا؟لوگ خاموش ہو گئے جس کا مطلب واضع تھا آپ ﷺ نے فرمایا دوزخ میں گیا،کچھ عرصہ بعد پھر ایک جنازہ گزرا آپ ﷺ نے پوچھا کیسا آدمی تھالوگوں نے مرنے والے کوچھا نہ گردانااس پر آپ ﷺ نے پوچھا پڑوسی کے ساتھ اس کا رویہ کیسا تھا لوگوں نے بہت تعریف کی آپ ﷺ نے فرمایا جنت میں گیا۔خدمت خلق کے بارے میں ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ روز محشر اللہ تعالی بندے سے کہے گا کہ میں بھوکاتھاتونے مجھے کھانا نہ کھلایا؟بندہ کہے گا اے بار الہ تو کیسے بھوکاہوسکتاہے کیونکہ تو تو ہر کمزوری سے پاک ہے؟اللہ تعالی جواب دے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکاتھا تو اس کو کھانا کھلاتا تو وہاں مجھے پاتا،پھر اللہ تعالی کہے گا میں بیمار تھا تو نے میری طبیعت پرسی نہیں کی؟بندہ کہے گا اے بار الہ تو کیسے بیمار ہو سکتا ہے کہ تو تو ہر کمزوری سے پاک ہے تب اللہ تعالی کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تو اس کی عیادت کرتا تو وہاں مجھے پاتا۔ایک حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ ایک بار آپﷺ نے پوچھامفلس کون ہے؟لوگوں نے جواب دیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اس طرح پیش ہوگا کہ اسکی نمازیں روزے اور عبادتیں وغیرہ پوری ہوں گی اور جب فرشتے اسے جنت میں لے جانے لگیں گے توایک آدمی بڑھے گااور اللہ تعالی سے عرض کرے گاکہ اس نے میرا حق ماراتھا،دوسرابڑھے گا اور عرض کرے گا اس نے میرے ساتھ زیادتی کی تھی تیسرابڑھے گااورعرض کرے گااور کہے گا کہ اس نے میری غیبت کی تھی وغیرہ اس آدمی کی نیکیاں ان لوگوں میں بانٹی جاتی رہیں گی یہاں تک کہ اس کی نمازیں روزے اور عبادتیں وغیرہ ختم ہو جائیں گے اور دعوی کرنے والے لوگ باقی ہوں گے تب اللہ تعالی ان لوگوں کی برائیاں اسے دیتارہے گایہاں تک کہ جنت میں جانے والاوہ شخص دوزخ میں دھکیل دیاجائے گا۔
”خدمت خلق“ میں خلق کے اندر غیر انسان بھی داخل ہیں،محسن انسانیت ﷺ ایک بار ایک یہودی کے سامنے سے گزرے اس نے ایک ہرنی کواپنے جال میں پھانساہواتھا،آپ ﷺ نے اسے کہاکہ اس ہرنی کو آزاد کردے یہ اپنے بچوں کو دودھ پلاکر لوٹ آئے گی۔اس یہودی نے بڑا ہی بازاری جواب دیا کہ پھر اسکی جگہ جال میں آپ ﷺ بیٹھ جاؤ!،محسن انسانیت ﷺ اس پر راضی ہوگئے اور آسمان نے دیکھا کہ ہرنی کی جگہ خاتم النبیین ﷺجال میں بیٹھے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں وہ ہرنی اپنے بچوں سمیت وہاں پہنچ گئی،اس پر وہ یہودی مسلمان ہوگیااور اور جانور کو بھی آزاد کر دیا،نبی ﷺ کے ہاتھوں آزادی حاصل کر نے والی ہر نی خوشی کے مارے اپنے پچھلے دونوں پاؤں پر ناچتی ہوئی جنگل میں سدھار گئی۔ایک بار کچھ لوگ اپنے اونٹ کے ساتھ مدینہ آئے اس اونٹ نے گردن لمبی کر کے اپنا سر آپ ﷺ کے قدموں میں رکھ دیااور اپنی زبان میں کچھ بولا،آپ ﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ یہ شکایت کررہاہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہوکھانے کو کم دیتے ہو اور مارتے بھی ہو،کم و بیش ڈھائی مہینے کے بعد وہ لوگ دوبارہ اس اونٹ کو لے کر آئے اور عرض خدمت اقدسﷺکی اب اونٹ کو دیکھ لیجئے اس دوران ہم نے اس سے کوئی کام نہیں لیاتب آپ ﷺ نے اس اونٹ کی صحت دیکھ کر اس سے کام لینے کی اجازت مرحمت فرمادی۔آپ ﷺ کو بلی پسند تھی جب کبھی غصہ آتاتوروئی کا ایک گولہ اسے دے مارتے تھے۔ایک بار ایک صحابی کے سر کے گرد پرندے چکر لگارہے تھے،استفسارپر معلوم ہوا کہ وہ کسی گھونسلے سے اسکے بچے اٹھالایا ہے آپ ﷺ نے اس صحابی کو حکم دیا کہ فوراََ ان کے بچے واپس رکھ آؤ۔محسن انسانیت ﷺ نے پودوں کے بارے میں بھی حکم دیاہے کہ رات کے وقت پودوں کی کانٹ چھانٹ مت کیاکرو کہ یہ ان کے آرام کاوقت ہوتاہے۔
محسن انسانیت ﷺکی انہیں تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ اس دنیا پرمسلمانوں کے ایک ہزارسالہ شاندار عرصہ اقتدارمیں خدمت انسانیت کی انمٹ تاریخ رقم کی گئی۔اس پورے سنہری دورمیں تعلیم کے نام پر کوئی معاوضہ وصول نہیں کیاجاتا تھابلکہ استاد کا مقام سگے باپ سے کہیں بڑھ کر ہوتاتھا اور طالب علم سے محبت میں سگی اولاد پیچھے رہ جاتی تھی،آج تک آسمان علم پر چمکنے والے آفتاب و ماہتاب اپنے اساتذہ و تلامذہ کے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔اسی طرح طب کے میدان میں صدیوں تک اور نسلوں تک یہ تصورہی نہ تھا کہ علاج کراکے کوئی رقم بھی اداکی جاتی ہے۔خاندان کے خاندان اس خدمت معالجہ سے وابسطہ تھے،حکومت وقت ان خاندانوں کو بھاری مشاہیر اداکرتی تھی،بڑی بڑی جاگیریں ان کے نام کردی جاتی تھیں اور فی سبیل اللہ علاج کے ذریعے پوری قوم میں شفاکو بالکل مفت تقسیم کیاجاتاتھا،بلکہ بغدادکے شفاخانوں میں اگر کوئی مریض بغرض علاج روک لیاجاتا تو جتنے دن اس کاعلاج جاری رہتا اتنے دنوں میں ہونے والے اس کے معاشی نقصان کا ازالہ بھی کیاجاتا اور وہ جس پیشے سے تعلق رکھتااس کے حساب سے اتنے دنوں کی آمدن کے برابر اسے رقم اداکردی جاتی۔کھاناپلانے کی خدمت تواتنے وسیع پیمانے پر تھی کی شہر کے رؤسااپنی نجی مجالس میں اپنے دسترخوان کی وسعت پرباہم فخورہواکرتے تھے اور مہمان و مسافرڈھونڈکر لانے والے بچوں کو انعامات سے نوازا جاتاتھا۔دسترخوان پر آنے والے کی اس قدر عزت افزائی کی جاتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو بھکاری کی بجائے ایک معزز مہمان تصورکرتاتھا،گھرکا سربراہ خودسے اس کے ہاتھ دھلواتاتھا آنے والے کواپنے جوتے تک اٹھانے نہیں پڑتے تھے اور بڑے اعلی اعلی پکوان انہیں کھانے کو پیش کیے جاتے خاص طورپر رمضان المبارک میں تویہ سلسلہ بہت زیادہ بڑھ جاتاتھا۔مسلمانوں کے دوراقتدارمیں معذورلوگوں کو اجازت تھی کہ کسی بھی گھرمیں داخل ہو جائیں اور وہاں سے جو چاہیں کھاپی لیں اور اہل خانہ ان معذورافراد کوکبھی خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے تھے۔
مسلمانوں کادورختم ہوتے ہی سیکولازم نے خدمت کے نام پر دکانداری کا آغاز کردیا،اس بدبودار سیکولرمغربی تہذیب نے انسان کی ہر خدمت کا معاوضہ لگادیا اوراسے ایک منافع بخش صنعت کادرجہ دے دیا۔ جو خدمت جتنی مجبوری کی ہو اس کے دام اتنے زیادہ بڑھا دیے۔اعلی تعلیم بہت مہنگی کر دی،علاج کے نام پر لوٹ مار اس انسان دشمن سیکولر تہذیب کے دامن پر تاریخ کا سیاہ ترین دھبہ ہے۔دوائیوں کی قیمتیں اور اطباء کامعاوضہ غریب اقوام کی پہنچ سے کہیں باہر ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ تیسری دنیاکے ممالک میں لوگ بیماریوں کے آسیب کاشکارہوکرموت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔حد تو یہ کھانے پینے کے عوض بھی رقم اینٹھ لی جاتی ہے۔ماضی قریب تک مسلمانوں کی بستیوں میں دودھ بیچناایک طعنہ سمجھاجاتاجاتالیکن اب دودھ کی فروخت بھی بڑی بڑی کاروباری صنعتوں میں سے ایک ہے۔اس مکروہ سیکولرازم نے کہاں کہاں شائلاکی سوچ پہچاکر خدمت خلق کا گلا ہی دبادیاہے،حتی کی نوخیزبنت حواکی مسکراہٹ کو بھی منافع بخش بناکراس کو بازارکی زینت بناڈالا،لعنت ہو ایسی تہذیب پر۔ان سیکولرممالک نے دنیاکوسود کی ظالم ترین زنجیروں میں جکڑ رکھاہے،جب اقوام عالم سود ادانہیں کر پاتیں تو ان کے جنگلات،زیرزمین خزانے اور ان کے قدرتی وسائل پر معاہدوں کے ذریعے قبضہ کر لیاجاتا ہے اور ان کے ملکوں میں پہنچ کر ان کے مزدوروں کا بدترین استحصال کیاجاتاہے۔ان ملکوں میں لوٹ مارکر کے حاصل کی رقم کی ایک بہت محدوداور معمولی ترین مقدارکے برابران کی سہولیات پر خدمت کے نام خرچ کر کے تو انسانیت کے ٹھیکیدار بننے کی بھونڈی کوشش کی جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے اس خدمت کی تشہیر پر ہی جتنی رقم خرچ کر دی جاتی ہے صرف اسی رقم سے ان مفلوک الحال قوموں میں کتنے ہی فلاحی منصوبے کھڑے کیے جاسکتے ہیں لیکن یہاں مقصد خدمت انسانیت نہیں بلکہ اپنے پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کاایندھن فراہم کرنا ہے۔سال بھرمیں خدمت خلق کے نام پر ایک دن مناکر انسانیت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا سیکولرازم اب بہت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔مشرق سے مغرب تک پوری دنیامیں عام طورپراب اس سرمایادارانہ نظام کے خلاف ایک تحریک نفرت جاگ اٹھی ہے اور امت مسلمہ خاص طورپر اپنے ایام گزشتہ کے بل بوتے پرتاریخ آئندہ رقم کرنے کے لیے جادہ پیما ہے،بس کچھ ہی دن ہیں کہ سوشل ازم کی طرح یہ مداری بھی اپناتماشا دکھاکر گیاچاہتاہے اور اس کرہ ارض کا مستبل محسن انسانیتﷺ کی خدمت خلق کی جملہ تعلیمات سے ہی وابسطہ ہے،انشاء اللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...