رات گئے ایک شخص امیرالمونین کے دروازے پر دستک دیتاہے اور آدھی دنیاکا حکمران اپنے گھرسے باہر نکل آتاہے،وہ شخص اپنے ہاتھ میں پکڑی اشرفیوں کی بھری تھیلی امیرالمومنین کی طرف بڑھاتاہے اور عرض کرتاہے اتنے سو میل دور فلاں بستی سے آیاہوں اور یہ مال زکوۃ آپ کی خدمت میں پیش کرتاہوں،امیرالمومنین نہایت افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ مال راستے میں تقسیم کردیاہوتامیرے پاس لانے کی کیاضرورت تھی؟؟،نوواردعرض کرتاہے یاامیرالمومنین سارے راستے آواز لگاتاآیاہوں کہ لوگو زکوۃ کامال ہے کوئی تو لے لو،لیکن سینکڑوں میل کے اس سفر کوئی زکوۃ لینے والا نہ تھا۔یہ امیرالمونین حضرت عمربن عبدالعزیزتھے جن کی خلافت اسلامیہ میں اس قدر امن و امان اورخوشحالی تھی کہ سینکڑوں میل تک اشرفیوں سے بھراہوامسافر بلاخوف و خطر سفرکرتارہااور اسے کوئی زکوۃ کا مستحق بھی نہ ملااور حکمران ایسا کہ جس کے گھرپر کوئی پہرہ نہ تھا نصف شب سائل کے دروازہ بجانے پر کسی نوپ دار نے ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی بلکہ حاکم وقت خود بستر سے بیدارہوا اور آنے والے کو خوش آمدیدکہا۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒکی کنیت ”ابوحفص“تھی،بنوامیہ کے آٹھویں حکمران تھے،سلیمان بن عبدالملک کے بعد تخت نشین ہوئے اوراپنی عمدہ وپاکیزہ سیرت اورراست روی وپاک دامنی کے باعث مورخین کے ہاں خلفائے راشدین میں شمار کیے جاتے ہیں۔61ھ،مدینہ منورہ میں جنم لیا،ننھیال فاروقی خاندان سے متعلق تھا۔جوارروضہ اقدس کے باعث جہاں بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ کرلیاوہاں عبداللہ بن عمرؓاورانس بن مالک ؒسمیت متعدد صحابہ و تابعین کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کرنے کی سعادت بھی میسر آگئی۔والد محترم نے بھی تربیت میں کمی نہ ہونے دی،ایک بار بالوں کی آرائش کے باعث جماعت میں غیر حاضری ہوئی تو سخت گیر باپ نے عنفوان شباب میں قدم رکھنے والے نوخیز حضرت عمربن عبدالعزیزؒکے بال ترشوا دیے۔ شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے،منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیداہوئے اس لحاظ سے شباب نہایت ہی نفاست و خوش پوشاکی میں گزرا،خلیفہ بننے تک اعلی معیارزندگی کے شاہانہ طوروطریق وطیرہ خاص رہے۔عطریات و خوشبوئیات اور لباس و پہناوے میں حتی کہ شاہی خاندان کے نوجوان بھی مات تھے۔نازونعم کے باوجودنہ صرف یہ کہ کبائر سے ہمیشہ مجتنب رہے بلکہ عبادات میں ذوق و شوق اس پاکیزہ صفت نوجوان کا وصف خاص رہا۔شاید اسی کے باعث مدینہ منورہ جیسے مقدس ترین شہرکی خدمت بطورگورنری بھی آپ کے حصے میں آئی،706ء تا 713ء تک کم و بیش چھ سالہ اس دورمیں مسجد نبوی کی تعمیر نو آپ کا شاندار کارنامہ ہے،جبکہ عدل و انصاف اور اہالیان مدینہ منورہ سے مہمانوں جیسے برتاؤ سے رعایاکے دل جیت لیے۔ولایت مدینہ منورہ کے دوران آپ نے دس قابل ترین افراد کی ایک مجلس مشاورت بنائی تھی جس کے پاس وسیع انتظامی و عدالتی اختیارات بھی تھے۔ درحقیقت آپ کے پیش رو حکمرانوں نے اہل مدینہ سے حجازتا کربلا جو سلوک کیاتھا،حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اس کے مداواحسن میں تاریخ ہی بدل ڈالی۔
سلیمان بن عبدالمک نے حضرت عمربن عبدالعزیزؒکواپنا جانشین مقررکیاتھالیکن آپ کو اس کی اطلاع نہیں تھی۔718ء میں خلیفہ کے انتقال کے بعد مہر بند وصیت پر شاہی عمائدین سلطنت واراکین خاندان خلافت سے بیعت لی گئی اور جب اس لفافے کو کھولاگیاتو حضرت عمربن عبدالعزیزؒکا نام لکھاپایا۔اس فیصلے پر اکثر افراد شاہی خاندان نے اظہارناپسندیدگی کیالیکن شاہی چوب داروں نے زبردستی بیعت لی اور یوں حضرت عمربن عبدالعزیزؒ تخت نشین ہوئے۔تخت نشینی کے بعدمسجدمیں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کہ چاہوتوکسی اور کو اپنا حکمران بنالولیکن عوام کی اکثریت نے خوش دلی سے آپ کی خلافت کو قبول کرلیاجس سے ایک شورائی وجمہوری حکومت کا آغاز ہوا اور آپ نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓکے اولین خطبہ خلافت سے ملتاجلتا خطبہ ارشاد فرمایاجسے تاریخ نے سنہرے حروف سے تحریر کیاہے۔درحقیقت یہی خطبہ ایک بار پھر امت مسلمہ کوملوکیت سے خلافت کی طرف گامزن کرنے والی دستاویزثابت ہوا۔بارخلافت سے زندگی بالکلیہ تبدیل ہو گئی اور نفاست و خوش لباسی ساری کی ساری فقرو درویشی میں تبدیل ہو گئی۔خلافت کے بعد سواری کے لیے اعلی نسل کے گھوڑے پیش کیے گئے لیکن یہ کہ کر لوٹا دیے کہ میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے،دوران سفر ایک نقیب آگے کو چلا تو اسے ہٹادیا کہ کہ میں بھی ایک عام سا مسلمان شہری ہوں،سلیمان بن عبدالملک کے ترکے پر کل خاندان بنوامیہ کی نظر تھی لیکن ایک حکم شاہی کے ذریعے گزشتہ حکمران کی ساری جائدادونقد بیت المال میں جمع کرادیے،اہل بیت نبوی کی محبت و عقیدت میں باغ فدک،جوایک عرصے سے گھمبیرمسئلہ تھااورآپ کے پیش روحکمرانوں نے اس پر غاصبانہ قبضہ کررکھاتھا،اس کے اصل ورثاء خاندان بنوہاشم کو لوٹادیا،اس کے علاوہ بھی بنوامیہ نے آل علی کی جن جن جائدادوں کو زبردستی اپنی تحویل میں لے رکھاتھا انہیں واگزارکرایااور ان کے اصل مالکان کو لوٹا دیا،اورخطبہ جمعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی شان میں جو گستاخیاں کی جاتی تھیں انہیں اپنی خلافت کے روزاول سے بندکرادیا۔
مسلمان افواج کے جہاداسلامی کے نتیجے میں سرحدات پر فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔آرمینیاپراسلامی افواج نے حملہ کیااوراس شہر کو فتح کرلیا۔مسیحیوں کے اس شہرکے پادری نے ایک خط خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒکو لکھاجس میں شکایت کی کہ آپ کی افواج نے دعوت دین اور ذمی کی پیشکش کیے بغیرحملہ کرکے شہر کومفتوح کرلیاہے،جو کہ اسلامی روایات وتعلیمات کے صریحاََخلاف ہے۔ہرکارہ جب دارلخلافہ میں پہنچاتو لوگوں سے پوچھاقصرشاہی کہاں ہے؟اسے بارش کے بعدکچی دیوارکی لپائی کرنے والے ایک مزدورکی طرف اشارہ کرکے بتایا گیاکہ یہ مسلمانوں کاحکمران ہے۔اس نمائندے نے سیڑھی پر چڑھے ہوئے امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒکی طرف خط بڑھادیا،گارے سے بھرے ہوئے ہاتھ صاف کرکے خط پڑھ کر وہیں کھڑے کھڑے خط کی پشت پرسپہ سالار کے نام صرف دوجملے لکھے”فوج سے کسی کو قاضی مقررکرو اوراسکے سامنے معاملہ پیش کرکے فیصلے پر عملدرآمدکرو“۔امیرالمومنین نے کہاکہ یہ خط سپہ سالار کو دے دینا۔ہرکارہ سمجھاکہ حکمران نے مذاق کیاہے۔بہرحال اس نے آرمینیاپہنچ کراپنے پادری کوخط پہنچادیا۔پادری بھی یہی سمجھاکہ ان کے ساتھ سنگین استہزا کیاگیاہے۔وہ خط مسلمانوں کے سپہ سالار کودیاگیا۔امیرالمومنین کے دستخط دیکھتے ہی اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی۔اسی وقت ایک عالم دین سپاہی کو قاضی مقرر کیا۔قاضی نے بعداززوال آفتاب فریقین کو طلب کرلیا۔ایک کٹہرے میں فاتح اور دوسرے میں مفتوح برابری کی بنیادپر کھڑے تھے۔مفتوح کے حق میں فیصلہ ہوااور قاضی نے حکم دیا کہ فاتح افواج غروب آفتاب سے قبل شہر خالی کردیں۔شہرسے نکلنے والاآخری سپاہی وہی قاضی تھاجو نگرانی کررہاتھا کہ جاتے جاتے کسی فوجی کے ہاتھوں کسی شہری کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے۔مورخین لکھتے ہیں کہ شہریوں کی کثیر تعداد مسلمان فوجیوں کے کپڑے کھینچ کھینچ کر انہیں بلا رہی تھی تم لوٹ آو اور تم ہی حکومت کرو کیونکہ تم رحم دل اور عدل و انصاف والے ہو،ہمارے حکمران توہم پر ظلم و تشددکرتے ہیں۔اس واقعے کی ایک ایک سطر سیکولرازم کے دیے گئے نظام حکمرانی،نظام عدالت،سیکولرافواج کی غنڈہ گردی، مزاکرات کی میزیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے سیروں کے حساب سے اٹھائے گئے کاغذات کا منہ چڑارہی ہے۔ابھی بھی کچھ نام نہاد دانشور عصرحاضرکو ترقی یافتہ عہدروشن خیالی کہتے ہیں اورمسلمانوں کے دوراقتدارمیں کیڑے نکالتے ہوئے ان کی زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اپنی خاندانی و نجی زندگی بھی مکمل طورپر شریعت کے تابع کر دی اور خلفائے بنوامیہ کی بجائے خلفائے راشدین کے شعارکو اپنایا۔خلافت کے بعد اپنی زوجہ کو حکم دیاکہ اپنے زروجواہرات و زیورات بیت المال میں جمع کرادو،اتنی بڑی ریاست اور شاید اس وقت دنیا کی سب سے بڑی و متمدن ریاست کے حکمران کے گھر کوئی خادمہ و ملازمہ نہ تھی بلکہ سلطنت کی خاتون اول اپنی ہاتھوں سے ہی گھرکاساراکام سرانجام دیتی تھیں،جبکہ یہ خاتون اول ”فاطمہ“خلیفہ عبدالملک بن مروان کی بیٹی اور دو خلفا ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک کی بہن تھی۔حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے بیت المال پر خلیفہ کے ذاتی تصرف کو کلیۃ ختم کردیااور سیاسی رشوت کے طورپر دیے جانے والے شاہی عطیات و تحائف پر پابندی لگادی۔شاہی خاندان کے وظائف بندکرکے تو بیت المال کا رخ عوام کی طرف موڑ دیااس اقدام سے شاہی خاندان کو بے حد تکلیف ہوئی یہاں تک کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے عام اعلان کرادیا کہ شاہی خاندان کے کسی فرد نے کسی شہری کی جائداداگر زبردستی غصب کررکھی ہے تو وہ اس پر دعوی کرے اسے انصاف فراہم کیاجائے گا۔اس وقت تک نومسلموں سے بھی اس لیے جزیہ وصول کیاجاتاتھا کہ وہ جزیہ کے ٹیکس سے بچنے کے لیے مسلمان ہوئے ہیں،حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اس ظالمانہ ٹیکس کے خاتمے کااعلان کیااور اس کے علاوہ بھی رعایا پر ناجائز لگان ختم کر دئے گئے۔ان اقدامات کے نتیجے میں فوری طورپر ریاست کی آمدنی میں بہت زیادہ کمی ہوگئی جسے آپ نے سرکاری اخراجات میں کٹوتی سے پوراکیا جبکہ دوررس نتائج بہت جلد نمودارہونے لگے اور عوام میں خوشحالی عام ہوگئی اور صرف ایک سال بعد یہ نوبت آگئی کہ لوگ صدقات لے کر نکلتے تھے اور لینے والا نہیں ملتاتھا۔فلاح عامہ کے لیے حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے جگہ جگہ سرائیں بنائیں اور مسافروں کودودنوں تک ریاست کی طرف سے کھانا مفت فراہم کیاجاتاتھا۔حکمران کی اس خوب سیرتی کااثربہت دور دور تک محسوس کیاگیا یہاں تک کہ سندھ میں راجہ داہر جیسے حکمران کا بیٹا”جے سنگھ“بھی حضرت عمربن عبدالعزیزؒکے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔تدوین وتحریرحدیث نبویﷺآپ ہی حکم سے شروع کی گئی تھی،جو آپ کا لازوال علمی کانامہ ہے۔آپ نے اس وقت کے علما کو خط لکھا کہ میں دیکھ رہاہوں اسناد طویل ہوتی جارہی ہیں اور علم(حدیث نبویﷺ)مٹتاچلا جارہاہے،پس تم اس کو تحریر کر لو۔امیرالمومنین کے اس خط کے بعد سے احادیث کی کتابت کا باقائدہ آغاز ہوا جو بعد میں ایک زمانے کے اندر ایک بہت بڑے فن اور پھر قانون اسلامی و فقہ و شریعت کی بنیاد بنا۔
دشمنوں نے سر اٹھایا کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒچونکہ فقیر منش حکمران ہیں اس لیے ان کی شرافت سے فائدہ اٹھایا جائے،چنانچہ باغیوں نے آذربائجان میں ہزاروں معصوم مسلمانوں کا خون کر ڈالا۔امیرالمومنین نے اپنے سپہ سالارابن حاتم کو چڑھائی کا حکم دیاجنہوں اسلامی سپاہ کے ساتھ ایک بھرپو کاروائی کے ذریعے باغیوں کو بھاری نقصان پہنچاکر ان کا منہ موڑ ڈالا۔دشمنوں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہونے والا حضرت عمربن عبدالعزیزؒاپنی رعایااورسگی اولاد پر بے حد شفقیق ومہربان تھا،اتنا زیادہ کہ انہیں دوزخ کی آگ کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتاتھا۔ایک بار اپنی چہیتی بیٹی“آمنہ“کو بلایا وہ محض اس لیے باپ کے سامنے نہ آسکی کہ اس وقت اس کے پاس مناسب ستر پوش کپڑے موجود نہ تھے جو بعد میں اس کی خالہ نے اسے خرید کر فراہم کیے۔حضرت عمربن عبدالعزیزؒکسی طرح کا تحفہ یا ہدیہ بھی قبول نہ کرتے تھے ایک بارسیبوں کا ایک ٹوکرا پیش کیاگیا،دیکھ کر بہت تعریف کی لیکن قبول کرنے سے انکار کر دیا،سائل نے کہا کہ تحفہ قبول کرنا سنت نبوی ﷺ ہے جس پر جواب دیا کہ محسن انسانیت ﷺکے لیے تحفہ تھا مگر میرے لیے رشوت ہے۔کم و بیش ڈھائی سالہ اقتدارخلافت راشدہ خود خاندان بنوامیہ کے لیے درد سر بن گیاتھااور ان کے عیش و عشرت وچیرہ دستیاں ماند پڑ چکی تھیں چنانچہ ایک غلام کو سات ہزار کی رقم دے کر امیرالمومنین کو زہر دے دیا گیا،معلوم ہونے پر غلام سے رقم لے کر بیت المال میں جمع کرادی اور اسے آزادکرکے حکم دیا یہاں سے فوراََنکل جاؤ کہ مباداکوئی اسے قتل کردے۔25رجب 101ھ کو اس دار فانی سے کوچ کرکے شہادت کی منزل مراد حاصل کر لی اورترکہ میں کل سترہ دینار چھوڑے،انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مسلمانوں نے ایک ہزارسالوں تک ازغرب تاشرق کل دنیاپر حکومت کی ہے۔ایشیاء،یورپ اور افریقہ سمیت دوردرازکے جزیرے اوروادیاں میں ہماری آذانیں گونجتی تھیں۔مسلمانوں کے اس طویل ترین دوراقتدارکی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن عدل و انصاف کادوردورہ اس کی اہم ترین وجہ ہے۔مسلمان حکمرانوں نے اس وقت دنیامیں قیادت کے شانداراوراانسانیت و خوف خداسے مستعارشعائراقتدارمتعارف کرائے جب یورپ کے بڑی بڑی سلطنوں کے بادشاہ اجڈ،گنواراور اپنی جہالت ولاعلمی پر فخرکیاکرتے تھے اور مذہبی طبقات و مفکرین سے کئی کئی قدم دورتک درندوں سے بھی بدتر پھوٹنے والی بدبو کی سڑاند اٹھاکرتی تھی۔ایران اور ہندوستان جیسی عظیم ریاستوں میں سگے رشتوں تک کا تقدس عنقاتھا۔امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ میں بہت جلدوہ عہدرفتہ پھر عودکر آنے والاہے کہ تاریخ بہت اپنے آپ کو دہرایاکرتی ہے،ان شااللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...