اللہ تعالی نے اس زمین کودرختوں کی سرسبزی وشادابی سے مزین کیاہے اورجنگلوں کی ہریالی سے اس کرہ ارض کو حسن و جمال بخشاہے اورقرآن مجید میں اس کاذکرکرتے ہوئے فرمایا اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْبَتْنَا بِہٖ حَدَآءِقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُنْبِتُوْا شَجَرَہَا ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ(۷۲:۰۶)ترجمہ:”بھلاوہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیداکیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایااور پھراس کے ذریعے خوشنما باغات(جنگلات)اگائے جن کے درختوں کااگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟؟کیااللہ تعالی کے سوا کوئی دوسراخدا بھی(ان کاموں میں شریک)ہے؟؟(نہیں)بلکہ یہی لوگ راہ راست سے ہٹ کرچلتے ہیں“۔چنانچہ یہ درخت بھی اپنے وجود کے شکرانے کے طورپر اللہ تعالی کے سامنے سربسجودہوتے اور سجدہ کرتے ہوئے مراسم عبودیت بجالاتے ہیں،جس پر قرآن مجید نے کہاکہ وَّ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ(۵۵:۶)ترجمہ:”ستارے اور درخت (سب)اللہ تعالی کے سامنے سجدہ ریزہیں“۔سورہ حج میں اللہ تعالی فرماتاہے اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہ‘ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النَّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ُ(۲۲:۸۱)ترجمہ:”کیاآپ دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ تعالی کے آگے سربسجودہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں،سورج چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان(بھی)“۔اسی طرح سورۃ لقمان میں اللہ تعالی نے اپنی شان خداوندی کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّہ‘ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا َنفِدَتْ کَلِمٰتِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(۱۳:۷۲) ترجمہ:”زمین میں جتنے درخت ہیں وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر(دوات بن جائیں)جسے سات مزید سمندر روشنائی فراہم کریں تب بھی اللہ تعالی کی نشانیاں (لکھتے ہوئے)ختم نہ ہوں،بے شک اللہ تعالی زبردست اور حکیم ہے“۔سورۃ یس میں اللہ تعالی نے درختوں سے ایندھن کاکام لیتے ہوئے کہا کہ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ(۶۳:۰۸)ترجمہ:”وہی ہے جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیداکردی اور تم اس سے اپنے چولھے روشن کرتے ہو“۔درختوں کے بابرکت ہونے کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نور کی تفہیم کے لیے ایک مقدس درخت کی مثال دی اور سورۃ نورمیں فرمایا اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکِۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّ لَاغَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِیْٓ ء(۴۲:۵۳) ترجمہ:”اللہ تعالی آسمانوں اور زمین کانورہے،اس کی نورکی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں رکھا چراغ ہو،چراغ فانوس میں دھراہو،فانوس کاحال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتاہوا ستارہ،اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیاجاتاہوجو نہ شرقی ہو نہ غربی،جس کاتیل آپ ہی آپ بھڑکاپڑتاہو“۔
کتنے ہی انبیاء علیھم السلام ہیں جن کی حالات زندگی میں درختوں کا کثرت سے ذکر ملتاہے۔سب انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت میں جگہ ملی تو اللہ تعالی نے حکم دیاکہ وَ قُلْنَا یٰٓاٰ دَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِءْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۲:۵۳)ترجمہ:”پھرہم نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ اور آپ کی زوجہ دونوں جنت میں رہواوریہاں بفراغت جوچاہوکھاؤمگراس درخت کارخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے“۔پھرشیطان نے ان پر حملہ کیا اور کہا فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا و‘رِیَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا وَ قَالَ مَا نَہٰکُمَا رَبُّکَمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّا ٓاَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ (۷:۰۲) وَ قَاسَمَہُمَآ اِنِّیُ لَکُمْا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ(۷:۱۲) فَدَلّٰہُمَا بَغَرُوْرٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتِہِمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ وَ نَادٰہُمَا رَبُّہَمْآ اَلَمْ اَنْہَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃَ وَ اَقُلْ لَّکُمَآ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۷:۲۲)ترجمہ:”پھرشیطان نے ان کو بہکایاتاکہ ان کی شرمگاہیں جوایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں،ان کے سامنے کھول دے۔شیطان نے ان سے کہا تمہارے رب نے تمہیں جواس درخت سے روکاہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤیاتمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے،اور اس نے قسم کھاکران سے کہا کہ میں تمہاراسچاخیرخواہ ہوں،اس طرح دھوکادے کر رفتہ رفتہ دونوں کواپنے ڈھب پر لے آیا۔آخرکار جب انہوں نے اس درخت کامزاچکھاتوان کے سترایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اوروہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے،تب ان کے رب نے انہیں پکارا کہ میں نے تمہیں اس درخت سے روکانہ تھا اور نہ کہاتھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے“۔حضرت موسی علیہ السلام کی حیات طیبہ میں نبوت ملنے کا واقعہ ایک درخت سے منسوب ہے جسے قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیاہے فَلَمَّا اَتٰہَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسٰی اِنِّیْ ٓ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(۸۲:۰۳) ترجمہ:(حضرت موسی علیہ السلام)وہاں (کوہ طورپر)پہنچے تووادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکاراگیاکہ اے موسی علیہ السلام،میں اللہ تعالی ہوں سارے جہانوں کارب“۔حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ سے برآمد ہوئے تو فَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَآءِ وَ ہُوَ سَقِیْمٌ(۷۳:۵۴۱) وَ اَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ(۷۳:۶۴۱) ترجمہ:”آخرکار ہم نے انہیں بڑی ہی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیااور ان پرایک بیل داردرخت اگادیا“۔قرآن مجید نے محسن انسانیت ﷺکی سیرۃ طیبہ میں بھی ایک درخت کاذکرکیاہے اور کہا لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَ اَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا(۸۴:۸۱)ترجمہ:اللہ تعالی مومنوں سے خوش ہوگیاجب وہ درخت کے نیچے آپﷺ سے بیعت کررہے تھے،ان کے دلوں کاحال اللہ تعالی کو معلوم تھا اس لیے اس نے ان پرسکینت نازل کی اوران کوانعام میں قریبی فتح بخشی“۔آپ ﷺچونکہ رحمۃ اللعالمین ہیں اس لیے آپﷺنے رات کے اوقات میں درختوں کی کانٹ چھانٹ سے منع فرمایا ہے اور ارشادفرمایا کہ یہ درختوں پودوں کے آرام کاوقت ہوتاہے۔
اللہ تعالی نے ایک اچھی اور عمدہ بات کو اچھے درخت سے تشبیہ دیتے ہوئے قرآن مجید کی سورۃ ابراہیم میں فرمایا اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَ فَرْعُہَا فِی السَّمَآءِ(۴۱:۴۲) تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ(۴۱:۵۲)ترجمہ:”کیاتم دیکھتے نہیں ہو اللہ تعالی نے کلمۃ الطیبہ کوکس چیزسے مثال دی ہے؟؟اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کادرخت جس کی جڑیں زمین میں گہری جمی ہوئی ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں،ہرآن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہاہے۔یہ مثالیں اللہ تعالی اس لیے دیتاہے کہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں“۔اس کے مقابلے میں بری بات کی مثال بھی ایک درخت سے ہی دی اور اسی سورۃ میں فرمایا وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ (۴۱:۶۲)ترجمہ:”اور کلمۃ خبیثہ کی مثال ایک بدذات درخت کی سی ہے جوزمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکاجاتاہے،اس کے لیے کوئی استحکام نہیں“۔
اس دنیاکے بعد آخرت کی زندگی میں بھی درختوں کی مثالیں بھری ہیں۔دوزخیوں کے لیے جس کانٹے داردرخت سے کھانے کاانتظام ہوگا اس کاذکر کرتے ہوئے قرآن مجید نے کہا کہ ثُمَّ اِنَّکُمْ اَیُّہَا الضَّآلُّوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ(۶۵:۱۵) لَاٰکِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ(۶۵:۲۵) فَمَالِؤُنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ(۶۵:۳۵) فَشٰرِبُوْنَ عَلِیْہِ مِنَ الْحَمِیْمِ(۶۵:۴۵) ترجمہ:”پھراے گمراہواورجھٹلانے والو،تم زقوم کے درخت کی غذاکھانے والے ہو،اسی سے تم پیٹ بھروگے اوراوپرسے کھولتاہواپانی (ملے گا)“۔ایک اور جگہ سورۃ صافات میں فرمایا اَذٰلِکَ خَیْرٌ نُّزُلاً اَمْ شَجَرَۃُ الزَّقُّوْمِ(۷۳:۲۶) اِنَّا جَعَلْنٰھَا فِتْنَۃً لِّلظّٰلِمِیْنَ(۷۳:۳۶) اِنَّہَا شَجَرَۃٌ تَخْرُجُ فِیْٓ اَصْلِ الْجَحِیْمِ(۷۳:۴۶) طَلْعُہَا کَاَنَّہ‘ رُؤُسُ الشَّیٰطِیْنِ(۷۳:۵۶) فَاِنَّہُمْ لَاٰکِلُوْنَ مِنْہَا فَمَالِؤُنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ(۷۳:۶۶) ثُمَّ اِنَّ لَہُمْ عَلَیْہَا لَشَوْبًا مِّنْ حَمِیْمٍ(۷۳:۷۶)َترجمہ:”تویہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کادرخت؟؟ہم نے اس درخت کو ظالموں کے لیے فتنہ بنادیاہے۔وہ ایک درخت ہے جوجہنم کی تہہ سے نکلتاہے،اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔جہنم کے لوگ اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے پھراس پر پینے کے لیے کھولتاہواپانی ملے گا“۔سورۃ دخان میں اس درخت کی مزید حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ(۴۴:۳۴) طَعَامُ الْاَثِیْمِ(۴۴:۴۴) کَالْمُہْلِ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ(۴۴:۵۴) کَغَلْیِ الْحَمِیْمِ(۴۴:۶۴) خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ اِلٰی سَوَآءِ الْجَحِیْمِ(۴۴:۷۴)ترجمہ:بے شک زقوم کا درخت گناہ گارکاکھاجاہوگا،تیل کی تلچھٹ جیسا،پیٹ میں وہ اس طرح جوش کھائے گا جیسے کھولتاہواپانی جوش کھاتاہے،پکڑواسے اوررگیدتے ہوئے لے جاؤاس کو جہنم کے بیچ و بیچ“۔اللہ تعالی ہمیں اس عذاب سے محروم رکھے،آمین۔
نیک لوگوں کو جہاں رکھاجائے گا وہ جگہ درختوں سے ہی مستعار ہے اور اسے جنت یعنی باغات کانام دیا گیاہے۔سورۃ رعد میں اللہ تعالی نےفرمایا مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ اُکُلُہَا دَآءِمٌ وَّ ظِلُّہَا تِلْکَ عُقْبَی الَّذِیْنَ اتَّقَوْاُ(۳۱:۵۳)ترجمہ:”خداترس لوگوں کے لیے جس جنت کاوعدہ کیاگیاہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں،اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کاسایہ لازوال ہے،یہ انجام ہے متقی لوگوں کا“۔سورۃ رحمن میں کیاخوبصورت نقشہ کھینچاہے جنت کے باغات کا وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(۵۵:۶۴) فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ(۵۵:۷۴) ذَوَاتَآ اَفْنَا نٍ(۵۵:۸۴) فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ(۵۵:۹۴) فِیْہِمَا عَیْنٰنِ تَجْرِیٰنِ(۵۵:۰۵) فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ(۵۵:۱۵) فِیْہِمَا مِنْ کُلِّ فَاکِہَۃٍ زَوْجٰنِ(۵۵:۲۵) فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ(۵۵:۳۵) مُتَّکِءِیْنَ عَلٰی فُرُشٍ بَطَاءِٓنُہَا مَنِ اسْتَبْرَقٍ وَ جَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ(۵۵:۴۵) فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ(۵۵:۵۵)ترجمہ:”ہراس شخص کے لیے جو اپنے رب کے حضورپیش ہونے کاخوف رکھتاہو اس کے لیے دوباغ ہیں۔پس اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ہری بھری ڈالیوں سے بھرپور۔پس اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔دونوں باغوں میں دوچشمے رواں۔پس اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔دونوں باغوں میں ہرہرپھل کی دودو قسمیں۔پس اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔جنتی لوگ ایسے فرشوں پر تکیے لگائے بیٹھیں گے جن کے استر دبیزریشم کے ہوں گے اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑی ہوں گی۔پس اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے“۔قرآن مجید اور احادیث کے مجموعے جنت کے اندر باغات،ان کے پھل،ان پھلوں کے ذائقے اور میلوں دوردورتک ان سے پھوٹنے والی خوشبوؤں کے ذکرسے بھری پڑی ہیں۔
اسلام دین فطرت ہے اور درخت و باغات اور جنگلات فطرت کامظہر ہیں۔ماہرین ارضیات بتاتے ہیں ایک انسان کے مقابلے میں تین درخت ہوں تب اس زمین کی فضا کوخوشگواررکھنا ممکن ہوجائے گا۔اس طرح درختوں سے نکلنے والی آکسیجن جوانسانوں سمیت کل حیاتیاتی مخلوق کے لیے ضمانت حیات ہے، اس کی وافرمقدارمیسرآسکتی ہے۔سال بھرمیں ایک دفعہ درختوں اور جنگلات کادن منانے والی سیکولرتہذیب کے برعکس ایک مسلمان روزانہ تلاوت قرآن کرتے ہوئے یا نماز وغیرہ میں سنتے ہوئے کہیں نہ کہیں باغات عدن کا ذکر تازہ کرلیتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ کرہ ارض پر بڑھتی ہوئی آلودگی جس سے باغات اوردرختوں کی حیات کو شدید ترین خطرات لاحق ہو چکے ہیں اسی سیکولر تہذیب کی کارستانیاں ہیں۔دنیابھرمیں آبادی کو کم کرنا اور کارخانوں کو خوب بڑھاناایک ایسا رویہ ہے جس سے جنگلاتی حیات کم سے کم تر ہوتی چلی جارہی ہے اور زندہ رہنے والی مخلوق کادم گھٹتاچلاجارہاہے۔انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات انسان کو فطرت کے قریب تر لاتی ہیں جب کہ سیکولرتہذیب کے خیالات فطرت سے متصادم ہیں اور انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...