سکھ مذہب کی بنیاد بابا گرو نانک نے پندرھویں صدی عیسویں میں رکھی تھی جس میں اس کے بانی گرو نانک نے اسلام اور ہندو مت کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے مشترکہ نکات لے کر ایک نئی فکر کا آغاز کیا تھا۔
بابا گرو نانک اور اُن کے ابتدائی جانشینوں نے اس نئے مذہب کی بنیاد اخلاقی، روحانی اور صوفیانہ تعلیمات پر قائم کی اور یوں یہ نیا مذہب آہستہ آہستہ بتدریج ترقی کرتا چلا گیا۔ لیکن پھر سکھوں کے آٹھویں گرو تیغ بہادر جن کی پیدائش یکم اپریل 1621ء میں امرتسر میں ہوئی تھی، انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک روحانی پیشوا سے زیادہ ایک طاقتور حکمران کی حثیت اختیار کر لی۔
گرو تیغ بہادر نے اپنے عہد میں کرتار پور میں ایک مضبوط قلعہ اور شہر کے گرد ایک فصیل بنوائی۔ آپ انتہائی شان و شوکت کی زندگی گزارنے لگے۔ ہر وقت ایک ہزار شہ سواروں کا مسلح لشکر ان کے اشارے کا منتظر رہتا تھا۔ گرو تیغ بہادر اپنے وقت کا ایک لڑاکا صفت کردار تھا۔ وہ آس پاس کے مقامی حاکموں کو آئے روز ڈراتا دهمكاتا رہتا تھا۔ جب گرو تیغ بہادر کے بارے ميں اس قسم کی خبریں دہلی کی مركزی مغل حکومت تک پہنچی تو مغل شہنشاہ اورنگزیب نے ایک لشکر مسلح کر کے گرو تیغ بہادر کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ آخر کار ایک خونخوار جنگ کے بعد گرو تیغ بہادر کو گرفتار کر کے دہلی پہنچا دیا گیا۔ اُس نے شہنشاہ اورنگزیب کی اسلام کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور شاہی دربار میں انتہائی تلخ کلامی کے بعد اس نے اپنے شاگرد سے اپنا سر کٹوا دیا۔ مرنے سے پہلے گرو تیغ بہادر نے اپنے صاحبزادے گوبند سنگھ کو اپنا جانشین بنا دیا۔
گوبند سنگھ نے اپنے والد کی المناک موت کے بعد فکری انتشار میں مبتلا سکھوں کو "سکھ" لفظ کے سائے تلے جمع کر کے پنجاب میں سکھ نامی نئی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور وقت کی نزاکت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سکھوں کو مغلیہ سلطنت کی قوت سے ٹکرانے کے بجائے پہاڑوں میں گوشہ نشینی اختیار کر کے ان کی باقائدہ عسکری تربیت کا آغاز کیا۔ اس طرح سکھوں کو مضبوط اور متحد کر کے ایک جنگجوؤں کا طاقتور لشکر تشکیل دیا۔
گرو گوبند سنگھ نے 1699ء میں بیساکھی کے میلے کے دوران "خالصہ تنظیم" کی بنیاد رکھی۔ اس نے سکھوں کو ہندوؤں اور مسلمانوں سے مقابلہ کرنے اور اپنا ایک علیحدہ فلسفہ زندگی متعارف کرانے کے لیے پانچ علامات جو کہ "ک" سے شروع ہوتی ہیں جنہیں پنج ککے بھی کہتے ہیں(کیس، کڑا، کرپان، کنگھا، کچھا) کا بھی اضافہ کیا۔ یوں ایک روحانی اور اخلاقی تحریک کو مکمل طور پر حکومت مخالف شدت پسند جنگجوعانہ تحریک میں ڈھال دیا گیا۔
گرو تیغ بہادر کے عہد تک سکھوں کے گردواروں، مذہبی مقامات اور مقدس جگہوں کا انتظام و انصرام "گرو" خود کیا کرتے تھے لیکن چونکہ اب وہ پہاڑوں میں چُھپ کر مغل حکمرانوں سے تادیر جنگوں میں مصروف ہو گئے تھے اس لیے گردواروں، مذہبی مقامات اور مقدس جگہوں کا انتظام و انصرام مہنت اور سادهوں کے قبضے میں آگیا۔ یہ مہنت "اداسی" کہلاتے تھے۔ اداسی شمالی ہندوستان میں رہائش پذیر ہندوں کا ایک مذہبی فرقہ ہے۔ اُس زمانے میں یہ "اداسی" سکھ فلسفے کے اہم ترجمان بن گئے اور اکالی تحریک تک سکھوں کے مقدس مقامات کے پاسبان اور محافظ و معاون رہے۔ انہوں نے اٹھارویں اور پھر انیسویں صدی کے اوائل تک بہت سے لوگوں کو سکھ مذہب میں تبدیل کیا۔ یہ اداسی مہنت "سکھ" اور "ہندو مت" کے درمیان ہم آہنگی کی ترویج بھی کرتے تھے۔
سکھوں کی روز مرہ زندگی میں گرودواروں کے اثر و رسوخ کو محسوس کرتے ہوئے، برطانوی حکمرانوں نے بدعنوان مہنتوں کی مکمل حمایت کر کے "سکھوں" پر بالواسطہ کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی۔ ان مہنتوں نے بھی برطانوی راج کو مستحکم اور جائز بنانے کے لیے انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا اور اس کام کے لیے سکھوں کے تاریخی و مقدس مقامات کا بےدریغ استعمال کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی حکمران ان مہنتوں کی سرپرستی کرتے رہے اور انہیں وسیع زرخیز زمینوں کے قطعات بطور تحائف بھی دیتے رہے۔ جب ان جاگیروں کی آمدنی بڑھی تو روپے پیسے کی فراوانی نے ان مہنتوں کو دولت کے دھیان دھندے میں لگا دیا۔ اس طرح مہنتوں کی طاقت میں بےبہا اضافہ ہوتا چلا گیا اور سکھ مذہب جو خالص توحیدی بنیادوں پر قائم ہوا تھا، اب ان کے گردواروں میں بُت پرستی عام ہونے لگی کیونکہ اداسی مہنتوں کا پس منظر ہندو مت ہی تھا۔
"ننکانہ صاحب" گرو نانک کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے سکھوں کے مقدس مقامات میں سب سے اہم مقام کا حامل ہے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں کے دوران "جنم استھان" کے گرودوارے پر مہنت نارائن داس کا کنٹرول قائم ہو گیا، جو سکھوں کی رو سے غیر اخلاقی زندگی گزار رہے تھے۔ سکھ مذہب کے افکار پر پابندی سے عمل کرنے والے عقیدت مندوں نے اپنے مقدس مقامات کو ان لٹیروں سے چھڑوانے کے لیے کاروائیوں کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ بھائی لچھمن سنگھ دھارو ولی نے ترن ترن اور دیگر مقامات پر گوردواروں کو "اداسی مہنتوں" سے آزادی دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ آخرکار انہوں نے اپنے گاؤں سے جتھے کی قیادت کر کے ننکانہ صاحب کو آزاد کرانے میں پہل کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ اپنے جتھے کے ساتھ مورخہ 20 فروری 1921 کی صبح ننکانہ صاحب پہنچے اور گرودوارے میں داخل ہو گئے۔ جتھے کی آمد کی اطلاع ملتے ہی مہنت نے اپنے لوگوں کو کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کے گروہ میں کراۓ کے 400 پٹھان فوجی بھی شامل تھے، بغیر کسی اشتعال انگیزی کے انہوں نے اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔ اس کاروائی کے دوران بھائی لچھمن سنگھ کو مقدس گرنتھ کی حفاظت کرنے کی کوشش کے دوران گولیوں کی ایک باڑھ لگی۔ مہنت نارائن داس نے اسے بالوں سے بذاتِ خود گھسیٹنے کا انتہائی قدم اٹھایا، اس کے بازو کاٹ کر اور اس کا سر زمین پر گرا دیا۔ جتھے کے دیگر ممبروں کے ساتھ بھی ایسا ہی بہیمانہ سلوک کیا گیا۔ ہلاک ہونے والوں کے نشانات کو ختم کرنے کے لئے مہنت کے ساتھیوں نے تمام لاشوں کو جلا دیا۔ اس کے بعد کمرے کے اندر پناہ لینے والے جتھے کے کچھ ممبروں کو گھسیٹ کر باہر لایا گیا اور پھر انہیں جنڈ کے درخت سے باندھ کر، ان پر مٹی کا تیل چھڑک کر بےدردی سے زندہ جلا دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنڈ کا یہ درخت اُس روز سکھوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کا گواہ ہے، اس درخت کے ساتھ مہنتوں کی بربریت کا نشانہ بننے والے بھائی لکشمن سنگھ اور دوسرے جانبازوں کی لاشیں لٹکائی گئیں تھیں۔ اُس دن گورودوراہ جنم استھان کے صحن میں ہر طرف سکھوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اُس دن اس افسوسناک سانحے کے بارے میں جاننے پر مقامی کارخانے کے مالک "بھائی اتھم سنگھ" نے اعلی حکام کو فوراً آگاہ کیا اور اکالی قائدین کو ٹیلیگرام بھی بھیجے۔ ڈپٹی کمشنر دوپہر کے لگ بھگ ننکانہ صاحب پہنچے، اسی اثنا میں ممتاز اکالی قائدین بھی وہاں پر پہنچ گئے۔ مہنت نارائن داس اور اس کے حواریوں کو گرفتار کر کے سنٹرل جیل لاہور بھیج دیا گیا اور گرودوارے کی چابیاں اکالی قائدین کے حوالے کر دی گئیں۔ اس طرح سکھوں کے مقدس مقامات کو مہنتوں کے اثرورسوخ سے مکمل طور پر آزاد کرا لیا گیا اور ان تاریخی گوردواروں کی دیکھ بھال کا جمہوری انتظام ہوا۔
اس وقت کے گورنر پنجاب سر ایڈورڈ میکلاگن نے سانحے کے اگلے دن جائے وقوعہ کا ہنگامی دورہ کیا جبکہ کچھ دنوں بعد مورخہ تین مارچ 1921 کو مہاتما گاندھی جی دو مشہور مسلمان رہنماؤں شوکت علی جوہر اور محمد علی جوہر کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچے اور نرائن داس کے اس ظالمانہ فعل کی پُرزور الفاظ میں مذمّت کی۔
مہنت نرائن داس اور ان کے ساتھیوں پر فردِ جرم عائد کر کے مقدمہ چلایا گیا۔ آخر کار مختلف پیشیوں کے بعد جج نے نے ان کے خلاف فیصلہ سنایا جس کے مطابق رائن داس کو سات ساتھیوں کے ساتھ سزائے موت اور آٹھ مجرموں کو عمر قید کی سزا جبکہ 16 پٹھانوں کو سات سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی اور باقیوں کو اس مقدمے سے بری کر دیا گیا۔ نرائن داس نے اس سزا کے خلاف فوری طور پر رحم کی اپیل دائر کر دی اور پھر تین مارچ 1922 کو ہائی کورٹ کی طرف سے اس مقدمے پر ایک اور فیصلہ سنایا گیا جس کی رو سے نرائن داس اور ان کے دو ساتھیوں کی سزائے موت کو ختم کر کے عمر قید میں تبدیل کر لیا گیا، تین قیدیوں کو سزائے موت دی گئی اور باقیوں کو رہا کر دیا گیا۔
برصغیر پاک و ہند کی مشترکہ تاریخ کا یہ ایک تاریک دن تھا۔ سکھ کمیونٹی فروری 1921 میں پیش آنے والے اس سانحے کو "ساکہ ننکانہ صاحب" کے نام سے بھی منسوب کرتی ہے۔
رواں برس اس سانحے کو مکمل ہوئے پورے سو برس بیت چکے ہیں۔ ننکانہ صاحب میں سکھ کمیونٹی اس سانحہ کی 100 سالہ تقریبات بھرپور طریقے سے منا رہی ہے جس میں ملک بھر سے سکھ سنگتیں شریک ہیں۔ اس سلسلے کی مرکزی تقریب شری ننکانہ صاحب میں 21 فروری کو منعقد ہوئی جس میں اُن سکھوں کی لازوال قربانیوں کو یاد کیا گیا جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور اس مقدس استھان کو مذہبی لٹیروں کی گرفت سے آزاد کروانے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
“