پستہ قد، جسمانی اعتبار سے بے بضاعت، ٹھیک سے انگریزی بول پاتے ہیں نہ سمجھ ہی سکتے ہیں‘ لیکن تھائی لینڈ کے ان بونوں نے کمال کردیاہے۔ ایسا عظیم الشان ایئرپورٹ بنایا ہے اور زبردست خوش انتظامی سے اس طرح چلا رہے ہیں کہ اسے آدھی دنیا کا مرکز بنادیا ہے۔ ہر چندمنٹ کے بعد ایک جہاز اڑان بھرتا ہے اور ایک اترتا ہے۔ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جاپان، فلپائن، ملائشیا، انڈونیشیا، برونائی، ہانگ کانگ، چین، ویت نام، فجی اور ہوائی سمیت بحرالکاہل کے درجنوں جزیرے … ان تمام ملکوں میں جانے والے اور وہاں سے آنے والے بنکاک کو سلام کرنے پر مجبور ہیں۔ ہوائی اڈہ دکان ہوتا ہے اور ایئرلائنیں گاہک۔ گاہک وہیں جاتا ہے جہاں اسے سودا اچھاملے، جہاں دکاندار خوش اخلاقی سے معاملہ کرے اور دیانت دار بھی ہو۔ بنکاک یہ ساری ضروریات پوری کررہا ہے۔ یہی حال سنگاپور اور کوالالمپور کے ہوائی اڈوں کا ہے۔ کوالالمپور کا ایئرپورٹ تو پورا شہر ہے۔ ایک حصے سے دوسرے تک جانے کے لیے بسیں اور ٹرینیں چلائی گئی ہیں۔ ان ٹرینوں کو ایرو ٹرین کہا جاتا ہے۔ ہر ٹرین میں اڑھائی سو مسافر سوار ہوسکتے ہیں اور یہ ایک گھنٹے میں تین ہزار مسافروں کو اٹھاتی ہے۔ ایئرپورٹ سال میں 70ملین مسافروں کی میزبانی کرتا ہے۔ کارگو اس کے علاوہ ہے۔1993ء میں تعمیر کا آغاز ہوا اور پورے پانچ سال بعد 1998ء میں مکمل ہوا۔ اسی سال کامن ویلتھ کھیلوں کا انعقاد ملائشیا میں ہوا اور نیا ایئرپورٹ اس ہنگامے کے لیے بالکل مستعد اور تیار تھا! اس پر ہانگ کانگ اور سنگا پور کے ایئرپورٹوں کو قیاس کیجیے، جن کی تفصیلات کا ایک مختصر کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔
بنکاک، کوالالمپور، سنگا پور اور ہانگ کانگ کو فی الحال وہیں رہنے دیجیے جہاں ہیں۔ اپنے وطن واپس آتے ہیں۔ ڈی چوک میں نماز عید کیا ہوئی، کائنات کا سب سے بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ مفتیانِ کرام اور علماء کرام نے کتابیں کھول لی ہیں۔ چھریاں چاقو تیز کرلیے ہیں۔ فتووں کی شمشیریں نیاموں سے باہر آگئی ہیں۔ یوں تو ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھی جاتی لیکن اب مدد کے لیے سب کو پکارا جارہا ہے۔ قبروں سے لاشیں نکال کر چوراہوں پر لٹکائی گئیں اور مسجدوں ، مزاروں اور بازاروں میں انسانوں کے چیتھڑے اڑتے رہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر خاموش رہنے والے محافظانِ مذہب ڈی چوک کی نمازِ عید کے مسئلہ پر شمشیر بدست میدان میں اتر چکے ہیں۔
ملالہ کو نوبیل انعام ملا۔ زخم ہرے ہوگئے۔ کتاب جسے چھپے عرصہ ہوچکا، غلطیوں پر اس نے معذرت کرلی اور جو فروگزاشتیں ہوئیں‘ نئے ایڈیشن میں دور کرنے کی یقین دہانی کرادی، لیکن پھر بھی سب کچھ دُہرایا جارہا ہے۔ اگر ملالہ کو کسی پنچایت کے حکم پر قتل کردیا جاتا، ونی یا سوارہ کی بھینٹ چڑھ جاتی، گولی مار کرسندھ کی ریت یا بلوچستان کے پہاڑوں میں دفن کردی جاتی تو سب گوارا ہوتا۔ تب غازیوں کو تکلیف ہوتی‘ نہ صحافت کا لبادہ اوڑھنے والے مبلغین کے کانوں کی لویں شرم سے سرخ ہوتیں۔
گرامی قدر‘ عالی مرتبت پروفیسر ابراہیم نے ،خدا ان کا سایۂ عاطفت ہمارے اور طالبان کے سرپر مدام رکھے ، دکھ کا اظہار فرمایا ہے کہ فوجی آپریشن سے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ بالکل بجا فرماتے ہیں آں جناب! یہ جو گولہ بارود اور خودکش جیکٹیں بنانے کی خفیہ فیکٹریاں منظر عام پر آگئیں اور ان کی ’’ پروڈکشن‘‘ کا سلسلہ رک گیا، یہ جو پھانسی چوکوں کے نام سے معروف ہونے والے مقامات پر مسلمانوں کو لٹکانے کا سلسلہ بند ہوگیا اور یہ جو قبائلی علاقوں میں قائم متعدد حکومتوں کو گر ادیا گیا تو اس سے ایکشن کے ’’ اثبات‘‘ میں ’’نفی‘‘ کا مادہ پیدا ہوگیا ہے۔ کیا ہی سہانے دن تھے جب پروفیسر صاحب ہر روز، بلکہ دن میں کئی بار، ٹیلی ویژن چینلوں پر قوم کو خوش خبری کی نویدیں سناتے تھے اور جاپان سے لے کر میکسیکو تک اور معیشت سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر موضوع پر عوام کو ’’ اعتماد‘‘ میں لیتے تھے ! ملٹری ایکشن سے وہ سلسلہ بھی رک گیا۔ کاش! مذاکرات قیامت تک جاری رہتے اور ٹیلی ویژن پر آں جناب کی ہمہ وقت موجودگی کے تسلسل میں خلل نہ پڑتا!
صدر مملکت آنکھوں کے معائنے کے لیے ایوانِ صدر سے راولپنڈی عسکری ہسپتال میں تشریف لائے۔ آنکھوں کا معائنہ کرانا تھا۔ اس امر کی وضاحت نہیں ہوئی کہ تکلیف ایک آنکھ میں تھی یا دونوں آنکھوں میں، لیکن چونکہ ان کی تشریف آوری ایک نہیں ، دو ہیلی کاپٹروں میں ہوئی‘ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ خلل دونوں آنکھوں میں ہوگا! ایک ہیلی کاپٹر میں وہ خود سوار تھے‘ دوسرا پروٹوکول کے لیے تھا۔ ریس کورس روڈ، پولو کلب، بینک روڈ، کشمیر روڈ، پورا صدر‘ ہر جگہ ٹریفک مکمل طور پر بند کردی گئی۔ لوگ پہروں ٹریفک میں پھنسے، خوار و رسوا ہوتے رہے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا، پورا علاقہ گو نواز گو کے نعروں سے گونج اٹھا۔ تاہم صدر مملکت کی دانائی اور حکمت عملی دیکھیے کہ اس آمد کو جو ان کی اپنی (اور خالص ذاتی) آنکھوں کے علاج کے لیے تھی، سرکاری دورے میں تبدیل کردیاگیا۔ اس موقع سے ہوشیار و زیرک ممنون حسین صاحب نے پورا فائدہ اٹھایا اور لگے ہاتھوں مسلح افواج کو بھی زبردست خراجِ تحسین پیش کردیا۔ زخمیوں کی خیریت بھی دریافت کی! سبحان اللہ ! جب وہ اپنی آنکھوں کا معائنہ کرا چکے تو انہیں ادارۂ امراضِ چشم میں دستیاب طبی سہولتوں کے متعلق ’’ آگاہ‘‘ کیاگیا۔ اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار ! بلکہ وہ تمام عوام بھی شکار! جو گھنٹوں صدر صاحب کی ذات بابرکات کے طفیل ٹریفک کی اذیت میں قید رہے!
ملک کے اندر جو سرگرمیاں جاری ہیں ،ان سے ہم نے آگاہی حاصل کرلی! اب واپس ایئرپورٹ کی طرف پلٹتے ہیں۔ لیکن آپ خوش نہ ہوں۔ ہم بنکاک ایئرپورٹ جارہے ہیں نہ کوالالمپور اور نہ ہی سنگا پور یا ہانگ کانگ کے ہوائی اڈوں کا رخ کررہے ہیں۔ ہم تو اسلام آباد بین الاقوامی ہوائی اڈے کو دیکھنے جارہے ہیں۔ اس کی تعمیر 2007ء میں شروع ہوئی۔ سات سال ہوچکے ہیں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں اس مسئلے پر الگ الگ غور کررہی ہیں۔ پرسوں ان کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ چیئرپرسن سینیٹر کلثوم پروین نے صدارت کی۔ جو کچھ کمیٹیوں کے ارکان نے کہا اور چیئرپرسن نے جو رائے دی، اس پر غور کیجیے۔ پی سی ون ہی غلط بنا۔ منصوبہ 37ارب روپے کا تھا لیکن 85ارب تک پہنچ چکا ہے۔ پانی کا بندوبست ہوا‘ نہ بجلی کا۔ وزیراعظم نے 2016ء کی ڈیڈ لائن دی تھی (کس بنیاد پر؟)۔ قائمہ کمیٹیاں کہتی ہیں کہ ایک کھرب روپے خرچ ہوچکے لیکن ابھی تک انفراسٹرکچر ہی مکمل نہیں ہوا۔ چیئرپرسن نے جو بنیادی حقیقت بتائی‘ وہ یہ ہے کہ جس رفتار سے کام ہورہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ایئرپورٹ 2035ء تک آپریشنل ہوسکے گا! لگتا ہے محترمہ چیئرپرسن خوابوں کی دنیا میں رہتی ہیں۔ کیا خوش امیدی ہے! اگر سات آٹھ سال میں پانی بجلی کا بندوبست نہیں ہوا اور انفراسٹرکچر(یعنی بنیادی ضروریات) نامکمل ہیں تو 2035ء تک کیا جنات آکر مکمل کریں گے؟ لیکن ہوسکتا ہے چیئرپرسن نے 2135ء کا اندازہ لگایا ہو اور رپورٹنگ میں غلطی ہوگئی ہو!
اللہ کے بندو ! جو نکتہ محتاج توجہ ہے‘ اس کی طرف بھی دھیان دو۔ ایئرپورٹ کے اس منصوبے میں اگر لوہے کی اتنی ہی کھپت ہوتی جتنی میٹرو بسوں کے ستونوں، پلوں اور جنگلوں میں ہوتی ہے تو یہ ایئرپورٹ چھ ماہ میں مکمل ہوچکا ہوتا!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“