ملک کےعوام کو 2019 کےلوک سبھا انتخاب کا بڑی بے صبری سے انتظار ہے۔ملک عزیز کے صلح پسند اور سیکولر مزاج عوام.لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال رہ رہ کر گردش کر رہا ہے کہ 2014 میں ملک کی چوکیداری کے نام پرجس طرح عوام الناس کا اعتماد حاصل کرنے میں نریندر مودی کامیاب ہوئے تھے کیا انہیں 2019 میں بھی چوکیدار ہونے کا شرف حاصل ہوگا۔یہ سوال جتنا اہم ہے اتنا ہی اہم یہ سوال بھی ہے کہ کیا کانگریس کے نو منتخب قومی صدر راہل گاندھی اپنی پارٹی کی ناو پار لگانے میں کامران ہوں گے۔کیا حزب المخالف پارٹیاں این ڈی اے کے مقابل صف آرا ہوکر اسے شکست کا مزہ چکھایں گی۔؟چھوٹی اور ریاستی پارٹیوں کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب رواں سال کے دوران ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتایج سے ہمیں بڑی حد تک ہمیں مل جایں گے۔اگر حالیہ دنوں میں تری پورہ ناگالینڈ اور میگھالیہ کے نتایج چھوڑ دیے جایں تو دیگر پانچ ریاستوں کےاسمبلی انتخابات کے نتایج 2019 کے لوک سبھا انتخاب پر اثر انداز ہوں گے۔جس میں ذات پات اور ہندو مسلم کے نام پر ووٹوں کی سیاست کا کھلا مظاہرہ ہوگا۔وہیں غریب اور متوسط طبقے کا ذہنی میلان بھی سامنے آءے گا جو ملک کے مستبل کےلیے نشان راہ ہوگا۔حالانکہ سال کے اوایل راونڈ میں بھاجپاکی قیادت والی این ڈی اےحکومت نے فتح حاصل کرکےدیگر ریاستوں کے لیے نیک شگون بھیجے ہیں تاہم کرناٹک راجستھان مدھیہ پردیش چھتیس گڑھ اور میزورم کے اسمبلی انتخابات بڑے معرکے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔سردست سب سے دلچسپ مقابلہ کرناٹک میں طے ہےجہاں بھارتیہ جنتا پارٹی.کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے تمام سیاسی چال داوء پر لگا رہی ہےاور ان چالوں پر سیاسی تجزیہ نگاروں کی خصوصی نظر ہے۔اس ریاست میں حکمراں کانگریس اپنی حکومت کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے تو بھاجپا اسے شکست سے دوچار کرنے کے لیے تمام جایز اور نا جایز طریق اپنا رہی ہے۔کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس راست جنگ میں مودی اور گاندھی مسلسل دورے بھی کر رہے ہیں۔ووٹروں کو مذہبی رنگ میں آمیز کر کے رنگوں کی سیاست کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔راہل گاندھی نرم ہندتواکی طرف مراجعت کر رہے ہیں اور مندروں کا دورہ کرکے سیاسی گفتگو کا موضوع بن رہے ہیں۔ان کے دورے سے بھاجپائ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ راہل گاندھی گوشت خور ہے اور ایک گوشت خور مندر مندر جاکر مندروں کو اشدھ (ناپاک) کر رہا ہے۔کرناٹک کے وزیر اعلی گڑریا ذات سے تعلق رکھتے ہیں جس کی خاصی تعداد کرناٹک میں موجود ہے۔انہوں نے بھی نریندر بھائ مودی کی نچلی اور پچھڑی ذات کے کارڈ کے خلاف ذات پات کا خوب استعمال کر رہے ہیں۔اگر یہ ریاست کانگریس کسی طرح بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو 2019 کے لیے اسے بڑی تقویت مل جائے گی وگرنہ اس کے حوصلے پست ہو جایں گے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی چوتھی مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے تو راجستھان میں دوسری بار قابض ہونے کی حکمت عملی اپنا رہی ہے۔لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ان تینوں ریاستوں میں کسانوں اور مزدوروں کی حالت ناگفتہ با ہے۔ریاستی حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں سے بے حد نالاں ہیں۔گئو رکھشا کے نام پر ان ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد اور نراجیت پھیلانے کی سیاست سے عوام الناس بی جے پی سے سخت نالاں ہیں۔ان ریاستوں میں دلتوں اور اقلیتوں پر زور و جبر اور تشدد کے واقعات اپنے شباب پر ہیں۔اقتدار بے زاری لہر اپنی جگہ الگ ہے۔ان منفی رجحانات کے باوجود کانگریس کے لیے تینوں ریاستوں میں اقتدار حاصل کرنا سیاسی اور تنظیمی اعتبار سے قدرے مشکل نظر آ رہا ہے۔وجہ محض یہ ہے کہ ان ریاستوں میں کئ برسوں سے کانگریس اقتدار سے باہر ہے نتیجتاً اس کے سیاسی مہرے بکھر سے گئے ہیں۔زمینی سطح پر تنظیمی کام کاج تھم سے گئے ہیں۔کمل ناتھ ڈگ وجے سنگھ اور جواں سال سندھیا و پائلٹ کی جہد مسلسل کے با وجود کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ اتنا مضبوط نہیں کہ تیقن سے کچھ کہا جا سکے۔ان بنیادی کمزوریوں کے برعکس اگر راہل گاندھی تینوں ریاستوں میں گانگریس کو نئ راہ دکھانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ان کی قائیدانہ صلاحیتوں پر دال ہوگی۔حالانکہ مدھیہ پردیش اور راجستھان کے حالیہ ضمنی انتخاب میں بی جے پی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے اور سیاست کے بازی گر تینوں ریاستوں میں اپنا داوء کانگریس پر لگا رہے ہیں لیکن یہ راہل گاندھی کی سنجیدگی اور دور اندیشی پر منحصر ہے کہ وہ بی جے پی کی کمزوریوں کا فایدہ کیسے اور کتنا اٹھا سکتے ہیں۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انہی چار ریاستوں کے انتخابی لائحہ عمل اور نتایج پر راہل گاندھی کے سیاسی مستقبل کا اندازہ لگایا جائے گا ۔اگر کامرانی ہاتھ لگی تو انہیں 2019 میں ملک کی چوکیداری کے لیے ایک مضبوط وعوے دار کی شکل میں پیش بھی کیا جا سکتا ہے۔اب یہ الگ بات کہ تری پورہ کا سرخ قلعہ مسمار کرنے کے بعد شاہ۔مودی جوڑی کی خود اعتمادی اپنی انتہا پر ہے۔ اور بھاجپا اس زعم میں رہی تو یہ خود اعتمادی خود سری کے راستے خوش فہمی تک پہنچ سکتی ہے جو کانگریس کی جیت کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ بہر حال نتایج جو بھی ہوں لیکن اتنا ضرور ہے کہ رواں سال کے اسمبلی انتخابات کے نتیجے سے 2019 کے لوک سبھا انتخاب کے نتیجے کا ایک واضح اشارہ اہل وطن کو ضرور مل جائے گا۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔