2018ء پاکستان کا سیاسی منظرنامہ
2018ء پاکستان کی انتخابی تاریخ کا ایک دلچسپ سال ہوگا۔ وہ لوگ جو دعووں کے ساتھ ٹیکنوکریٹس کی کسی غیرمنتخب طویل مدتی (دوتین سال) کی حکومت کے تجزیے کررہے تھے، اُن کے تجزیے یقینا جھاگ کی طرح ختم ہوگئے۔ 2013ء کے ساتھ ہی جب دھرنوں کی سیاست نے سر اٹھانا شروع کیا، راقم اپنے تجزیوں میں بار بار یہ لکھ چکا ہے کہ منتخب نظامِ حکومت کا سلسلہ جاری رہے گا، البتہ "Screw Tighting" کبھی زیادہ کبھی کم ہوتی رہے گی۔ اسی "Screw Tighting" میں وزیراعظم نوازشریف نااہل بھی قرار دئیے گئے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ عدالتیں سیاسی مقدمات یا سیاسی لوگوں کے مقدمات میں بھرپور حوالے سے متحرک ہیں۔ چند دنوں بعد 3مارچ 2018ء کو سینٹ کی 52 سیٹوں کے انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ یہ ’’جمہوری نظام‘‘ عوام کے لیے کس قدر طاقت رکھتا ہے، اس کا اندازہ سینٹ کے چند دنوں بعد ہونے والے انتخابات کے حوالے سے خبروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ڈیڑھ ارب روپے تک سینٹ کے ٹکٹ کی خبریں کانوں میں گونج رہی ہیں۔ اب ہم اندازہ کرسکتے ہیں، ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘ میں عوام کے حقوق کی کس قدر پاسبانی ہے۔ وہ لوگ جو پچھلی چار پانچ دہائیوں سے پاکستان میں ترکی کے ماڈل پر فوج کے آئین میں سیاسی حقوق ومداخلت کی بات کرتے تھے، یقینا وہ ترکی کے سیاسی نظام سے بہت کم آگاہی رکھتے ہیں۔ وہاں کے مارشل لائوں کی ہیئت ہمارے مارشل لائوں سے بالکل مختلف تھی، جیسے وہاں کے عسکری ادارے کی ہیئت۔ ترک افواج کا ڈھانچا کلونیل آرمی کے ڈھانچے سے یکسر مختلف ہے، وہ ایک مکمل قومی فوج ہے۔ اور اسی طرح وہاں کی جمہوریت بھی کلونیل نہیں۔ ہمارا جمہوری نظام کلونیل ڈیموکریسی پر اٹھا ہے۔ ترکی میں فوج اور جمہوریت دونوں ہی قومی ہیں، اسی لیے وہاں جمہوریت، ریاست اور سماج میں گہری ہوتی چلی گئی۔ ترک ریاست کی آزادی بھی فوج اور عوام دونوں کی مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ ہے اور اسی طرح ترک جمہوریت بھی۔ جمہوریت اور عسکری ادارے دونوں نودہائیاں طے کرتے ہوئے اپنی اپنی ڈومین میں مضبوط ہوئے ہیں۔ وہاں کا جمہوری نظام اُن آلائشوں سے مکمل اور روزِاوّل سے پاک ہے جو ہمارے ہاں یعنی خاندانی اور موروثی سیاست (موروثی جمہوریت) شخصیت پرستی،برادری اور سرمائے کے بَل پر انتخابات کے باعث ہے۔ ہمارے ہاں صورت حال مکمل طور پر مختلف ہے۔ اسی لیے یہاں جس قدر بھی ’’جمہوریت کا تسلسل‘‘ برقرار رہے، ریاست اور سماج Democratize نہیں ہوسکیں گے۔
ہمارے ہاں فوج مارشل لاء کیوں نہیں لگاتی، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ حتیٰ کہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا لیکن مارشل لاء نہ لگاسکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تیسرے مارشل لاء کا سبق ہے جو جنرل ضیا نے 1977ء میں نافذ کیا اور جس کو آٹھ سال بعد 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات منعقد کرکے سیاسی فضا کو شدت سے نرمی کی طرف لانے کا آغاز ہوا۔ وہ سبق کیا ہے؟ اگست 1983ء میں ضیا کی فوجی آمریت کے خلاف گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد Movement for the Restoration of Democracy (ایم آر ڈی) نے فوجی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز کیا۔ اس عوامی تحریک نے صوبہ سندھ میں اس قدر شدت اختیار کرلی کہ امریکی پالیسی سازوں نے اسے قبل از انقلاب Pre-Revolution صورتِ حال قرار دے دیا۔ امریکی پالیسی سازوں نے ہی جنرل ضیا کو فوجی آمریت میں نرمی لانے کا مشورہ دیا۔ اس لیے کہ وہ اپنے اہم اتحادی ملک میں ایک عوامی انقلاب کو کسی طور قبول نہیں کرسکتے۔ اسی پالیسی کے تحت دھیرے دھیرے 1985ء میں جنرل ضیا نے محدود سیاسی نظام متعارف کروایا۔ اس حقیقت کی دلیل یہ بھی ہے کہ جب جنرل ضیا نے اپنے ہی قائم کردہ محدود جمہوری نظام کو چلتا کیا تو چند ہفتوں بعد جنرل ضیا امریکی سفیر کے ہمراہ فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ 1999ء سے 2017ء تک یہی وہ سبق (Lesson)ہے جس نے مسلح افواج کو مارشل لاء لگانے سے باز رکھا۔ حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف نے وکلا تحریک کے بحرانی دور میں مارشل لاء لگانا چاہا تو امریکی پالیسی سازوں نے مسلسل دبائو ڈال کر انہیں مارشل لاء لگانے سے روکا۔ اس کا ذکر سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس نے اپنی کتا ب "No Higher Honor" میں کیا ہے۔ کونڈا لیزا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امریکہ نے جنرل مشرف کو ملک میں مکمل مارشل لاء نافذ کرنے سے روکے رکھا اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ مارشل لاء لگانے سے چند گھنٹے ہی دور تھے اور اس کے نتیجے میں جلدی میں اُن کا سب سے بڑی سیاسی طاقت پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ جس کی قیادت بے نظیر بھٹو کررہی تھیں، این آر او کروایا۔ اور یوں پاکستان میں سول فوجی لیڈرشپ کے مابین ایک الائنس قائم کیا گیا۔ ایک معروف ترقی پسند دانشور فریڈ ہالیڈے ایسے سیاسی ڈھانچے کو Pol-Mil کہتے ہیں۔
عدلیہ یا وکلا تحریک کے بعد ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں عدالتوں کے اندر سیاسی اور سیاسی قیادتوں کے حوالے سے فیصلے ہونا شروع ہوئے جن میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اب نوازشریف کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ نااہل قرار دئیے گئے وزیراعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی دو روز قبل عدالت عظمیٰ میں پیشی کی رُوداد پڑھیں تو موجودہ سیاسی نظام اور مستقبل قریب میں 2018ء میں انتخابات کے ابھرنے والے حکومتی ڈھانچے کی ہلکی سی تصویر دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ 2018ء میں نہ تو سیاسی معجزے ہوں گے اور نہ ہی سیاسی مہم جوئی۔ ’’جمہوریت کا تسلسل‘‘ یقینا انتخابی نتائج کے عین مطابق جاری رہے گا۔ بس ایک بات ضرور ہے کہ 2018ء میں سابق صدر آصف علی زرداری، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ سیاسی Benefiaciary بننے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔