2017 کی اختتامی تحریر
سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، ہفتے، ماہ و سال تو ہم نے سیاروں ستاروں کی گردش کے محتاج ہو کربنائے ہیں مگر وقت دائمی رہا۔ وقت سے متعلق مابعدالطبعیات کیا کہتی ہے اور سائنس کیا، اس سے ہم فانی انسانوں کو بھلا کیا غرض جو پیدا ہی مرنے کی خاطر ہوتے ہیں مگر ہم دنیا میں موجود وقت کی اکائیوں سے بندھے ہوئے ضرور ہیں۔ وقت سے متعلق عمومی جھوٹ تو ہم عام ہی بولتے ہیں کہ ایک سیکنڈ یار جو سیکنڈ کی بجائے منٹ ہوتا ہے۔ بس ایک منٹ میں پہنچا، چاہے گھنٹے کے بعد پہنچیں۔ کام بس گھنٹے میں ہو جائے گا چاہے ہونے میں دو دن لگ جائیں، ہفتہ، مہینہ، سال ، کئی سال یا کبھی نہ ہو۔ اس کے باوجود ہم نے گھڑیاں باندھی ہوتی تھیں ، اب یہ کام موبائل اور ٹیبلٹس دینے لگے ہیں۔ جس وقت نے بھلے کے لیے صرف ہونا ہوتا ہے وہ یقینا" ہوتا ہے اور جس وقت نے ضائع ہونا ہوتا ہے ، وہ ہو کر رہتا ہے، یہ ہم جیسوں کا خیال ہے۔ مگر ایسے افراد تو کیا پوری کی پوری ایسی اقوام موجود ہیں جنہوں نے اپنے وقت کو کام اور تفریح کے خانوں میں تقسیم کیا ہوا ہوتا ہے لیکن ہم میں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو نہ تفریح کرتے ہیں اور نہ کام وہ بھلا وقت سے متعلق کیا جانیں۔ وقت کی اہمیت سمجھنے اور ناقدری کرنے کا معاملہ تو بعد کی بات ہوگا۔
میں اپنے وقت کو امریکہ جانے اور وہاں سے لوٹ انے کے بعد میں تقسیم کرتا ہوں۔ میں امریکہ 13 دسمبر 1999 کو گیا تھا اور ایک سال کاٹ کر 13دسمبر 2000 کو لوٹ آیا تھا۔ اس کے بعد کبھی امریکہ نہیں جا سکا۔ البتہ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں کل امریکہ گیا تھا۔ آپ نے شاید سوچا ہو کہ امریکہ جانے سے وقت کو کیوں باندھ دیا۔ وجہ یہ ہے کہ میں 9مئی 1999 کو پیش آئے ایک حادثے کے بعد مر کر زندہ ہوا تھا۔ اب یہ بھی عقدہ ہے کہ مر کر بھلا کوئی زندہ ہوتا ہے مگر میں ہوا تھا۔
لگنے کو تو لگتا ہے کہ یہ واقعہ کل کی بات ہے مگر اس اثنا میں مجھ سے بہت کچھ سرزد ہوا۔ میں نے ہزار کے قریب مضامین لکھے۔ پانچ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے تین شائع ہوئیں دو غیر مطبوعہ ہیں۔ انٹرنیٹ کا استعمال شروع کیا پھر سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بک کا استعمال کیا۔ اس پر ہزاروں شذرے لکھے، تھوڑی سی شاعری بھی کی۔ کئی نئے دوست بنائے۔ ریڈیو صدائے روس کے ساتھ منسلک ہوا۔ پاکستان میں اس کے سامعین کی چار کانفرنسیں کروائیں۔ کئی ملک دیکھے۔ چھہتر سال کے بعد ریڈیو روس کی اردو سروس بند ہوتے دیکھی۔ اٹھارہ نئے سال منائے اب یہ انیسواں ہوگا، انشااللہ۔ ان عمومی واقعات و اعمال کے علاوہ خالصتا" ذاتی زندگی کے بھی کئی واقعات و اعمال ہیں۔
پھر ایسا کیوں لگتا ہے کہ امریکہ جانا جیسے کل کی بات ہو۔ اس کا تعلق شاید اس سے ہو کہ پھر سے جی جانے کے بعد یہ ایک سال پر محیط واحد واقعہ تھا ویسے تو میں جی جانے کے بعد مختصر مدت کے لیے یورپ کے پانچ چھ ملکوں میں بھی گیا تھا۔ امریکہ کچھ باتوں میں بالکل نیا ملک تھا۔ امریکہ میں رہنے کی خواہش بھی تھی اور وہاں سے بھاگ لینے کی جلدی بھی۔ روس میں میری زندگی کے 26 برسوں میں سے یہ ایک سال منہا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے یہ بہت یاد رہ گیا اور کل کی بات لگتی ہے۔
2017 میں مجھ سمیت سبھوں کے ساتھ اچھے اور برے معاملات ہوئے ہونگے۔ کچھ کے ساتھ سب اچھے اور کچھ کے ساتھ سب برے بھی لیکن اکثریت کے ساتھ دونوں بلکہ پاکستان جیسے ملکوں میں رہنے والوں سبھوں کے ساتھ کیونکہ آپ ملکی معاشی و سیاسی حالات کو علیحدہ نہیں کر سکتے۔ ہم ہر برس دیکھتے ہیں کہ اخبارات جائزہ لیتے ہیں، اس برس میں کیا کھویا کیا پایا مگر ایسے ملکوں میں کھونے کا عمل جاری رہتا ہے اور پانے کا عمل سست بلکہ بیشتر اوقات بہت ہی سست۔
قانع ہونا اچھی بات ہوتی ہے مگر مجبور ہونا کوئی اتنی اچھی بات نہیں ہوتی۔ پھر ہمارے ملکوں کی تو ساری کی ساری آبادیاں مجبور ہوتی ہیں۔ اگر مجبور نہ ہوتیں تو کم از کم اپنے ووٹ کا درست استعمال سیکھ لیتیں۔ اپنی حالت بدلنے سے پہلے ایسے لوگوں کو چنتیں جو ملک کی حالت کو کچھ تو بدل دیں۔ چلیں کوئی بات نہیں 2018 آ رہا ہے۔ جولائی بھی آ ہی جائے گا۔ دیکھ لیں گے کہ بات آوے ای آوے، جاوے ای جاوے سے نکل کر کچھ ہو۔
کہتے ہیں کہ دنیا مابعد النظریہ جاتی سیاست سے نکل چکی ہے۔ اس پوسٹ آئیڈیولوجیکل عہد میں لوگ نظریے کا چارہ نہیں چرتے بلکہ عملی کام کر کے دکھانے والوں کو اپنا نمائندہ چنتے ہیں۔ دو ایک بڑے شہروں میں میگا پروجیکٹ مکمل کرکے ووٹ بینک کو محفوظ بنانے والوں کو نہیں بلکہ ملک بھر میں بنیادی جیسے صاف پانی، تعلیم پانے اور صحت کا خیال رکھے جانے کی سہولتیں فراہم کرنے والوں کو۔ مگر ہم ہمیشہ دنیا سے پیچھے ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں پارٹیوں کے پاس پروگرام چاہے ہوں یا نہ ہوں، نظریہ ضرور ہوتا ہے اور وہ بھی مارکس سے بڑے الطاف کا، عمران کا، نواز کا، آصف کا خیر آصف تو چالاک ہیں انہوں نے تو سسر کے نظریے کی ہی پیپنی بجانی ہے۔
ہمارا مخمصہ وقت جلدی گذرنے کے احساس کا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ چالیس برس کی عمر کے بعد وقت تیزی سے گذرنے کا احساس ویسے بھی زیادہ ہونے لگتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی 25 سال سے کم عمر کی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا اور جو 25 برس بعد کے گھوڑے ہیں انہیں پورے پورے کنبوں کو جیتے رکھنے کی خاطر اتنے کام کرنے پڑتے ہیں کہ وہ تفریح کا سوچ ہی نہیں سکتے اور کام، کام بھی ایسے ہوتے ہیں جن سے ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ جس کو آرٹسٹ بننا تھا وہ ڈاکٹر بنا بیٹھا ہوتا ہے جسے ڈاکٹر بننا تھا وہ انتظامیہ کا افسر۔ چنانچہ یہی لگنا ہے کہ وقت رسے تڑا کر بھاگا جا رہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم مرنے سے کچھ زیادہ ہی ڈرتے ہیں۔ مرنے سے تو بچ نہیں سکتے مگر یہ سوچنے سے بھی نہیں بچ پاتے کہ ہمارے مرنے کے بعد پیچھے رہ جانے والوں کا کیا ہوگا؟ بھئی جو بھی ہوگا، کم از کم آپ مرحوم و مغفور اس میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گے اس لیے پرسکون ہو جاؤ۔ قانع ہونا سیکھو۔ نہ اتنا بناؤ کہ اس کی تقسیم سے متعلق مرنے سے پہلے ہلکان ہوتے رہو اور نہ اتنے تہی دامن ہوں کہ آپ کے پیچھے بچنے والے آپ کی تکفین و تدفین کے لیے محتاج ہوں۔ مگر آپ کہیں گے کہ میں کیا کر سکتا ہوں، وہی ہوتا ہے جو مقدر ہوتا ہے۔ صحیح جب ریاست اپنی آبادی کے لیے کچھ نہیں کرے گی تو آبادی کو قسمت پر ہی تکیہ کرنا پڑے گا اور اللہ پر بھروسہ۔ ویسے بھی ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ تک نہیں ہلتا۔ 2017 کوئی اتنا بھی ساکت نہیں تھا۔ اللہ کرے 2018 باقاعدہ مستعد سال رہے، آمین۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔