آؤ! اے جنگوں کے خالق لوگو
تم جو بڑی بڑی توپیں بناتے ہو
تم جو تباہ کُن ہوائی جہاز بناتے ہو
تم جو موت کا ساماں بناتے ہو
دیواروں کے پیچھے چُھپ جاتے ہو
پردوں کے پیچھے چُھپ جاتے ہو
میں چاہتا ہوں کہ تُم بھی جان لو
ماسک و نقاب کےباوجود
تم اپنا غلیظ چہرہ دکھاتے ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تباہ ہونے والے ساماں کے سوا
تم اور کچھ بھی نہیں بناتے ہو
جیسے یہ تمہارا ننھا سا کھلونا ہوا
تم میری دنیا سے کھیل جاتے ہو
تم میرے ہاتھ میں بندوق پکڑا کر
میری آنکھوں سے چُھپ جاتے ہو
جب تیزی سے گولیاں برستی ہیں
مُڑ کر تُم تیزی سے بھاگ جاتے ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عیسیٰ کو دغا دیتے یہودا کی مانند
تمہارا جھوٹ اور دھوکا دیکھتا ہوں میَں
’’عالمی جنگ جیتی جا سکتی ہے!‘‘
تمہارا جھوٹ کیسے مان لیتا ہوں میَں
تمہارے ہی تخیل سے گزر کر
تمہاری نظروں سے کیا دیکھتا ہوں میَں
کہ میرے گٹر کے غلیظ کالے پانی میں
تمہارا ہی بھیانک چہرہ دیکھتا ہوں میَں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دوسروں کے کندھوں پر رکھوا کر تُم
میزائل اور بندوقیں چلاتے ہو تُم
اورخود آرام و سکون سےٹیک لگاکر تُم
بے شمار لاشوں کا حساب لگاتے ہو تُم
جیتا جاگتا جوان خُوں مٹی میں ملا کر تُم
اپنے سفید محل میں چُھپ جاتے ہو تُم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ڈرون حملے، ہر طرف خودکش دھماکےہیں
نازوں پلی کوکھ بھری مَمتوں میں
آنے والے معصوم بچوں میں
تم نے کیسے خوف و ہراس پھیلائے ہیں
میری اشکبار بےقرار سوچوں میں
اپنے ہی خوں میں نہایا ہے
میرا ادھورا بے نام بچہ جو ابھی
اس دنیا میں نہیں آ پایا ہے
تمہارے سَر کی قیمت تو ابھی بھی
کم ہےاُس لہو سے جو تُم نے کمایا ہے
جو تمہاری رَگ رَگ میں سمایا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری باری آئے بھی تو میَں کیا بولوں
میں اتنا نہیں جانتا کہ خوہ مخواہ بولوں
تم کہو گے کہ میَں چھوٹا ہُوں ابھی
تم کہو گے کہ جاہل گدھا ہُوں ابھی
مگر صرف ایک بات جانتا ہُوں ابھی
اگرچہ تُم سے بہت چھوٹا ہُوں ابھی
تمہیں معاف نہیں کرے گا خدا بھی کبھی
ظُلم جو توڑتے ہو ہے جانتا خدا بھی سبھی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک سوال ہے میرا!
جواب دو گے کیسے
تمہاری دولت میں کیا
طاقت ہے اِتنی؟
لہو لتھڑے نوٹوں سے کِتنی
معافی خریدو گے کیسے
موت آئی تو اپنا ضمیر
واپس مانگو گے کیسے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چاہتا ہوں میَں کہ تُم مَر جاؤ ابھی
موت آ جائے تمہیں مَر جاؤ ابھی
شفق کی خونی شام، ملگجا سماں، لہو لہو ہو آسماں
تابوت میں تُم ہو بے درماں، جنازہ تمہارا ہو خراماں
پیچھے پیچھے چلوں میَں سینہ پُھلاتے ہوئے
اور دیکھوں تُمہیں لحد میں اُتارتے ہوئے
اور میَں تمہاری قبر پر کھڑا رہوں
ہاتھ میں مٹی کا ڈھیلا لئے
حتیٰ کہ مجھے آ جائے یقین
کہ تُم واقعی مُر چُکے ہو
تاکہ
آخری پتھر میرا ہو
“