اس رات بارش تھی کہ آسمان زار و قطار ہو رہا تھا. بجلی کڑکتی تھی جیسے اوپر کوئی زنجیر زنی کر رہا ہے اور رہ رہ کے کوئی اک چیختی دھاڑ سنائی دیتی تھی کہ جیسے دریا کے کنارے خشک حلق میں تیر اتر رہے ہوں. ماتمی سی ماتمی رات تھی اور ایک کربلا میرے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں برپا تھا. ابا کے ہاتھ، اس کی زبان سے بازی لے جانے کی مسلسل تگ و دو میں تھے. تھپڑ اور مکّے برس رہے تھے، زبان سے گالیوں کی برسات جاری تھی اور میں فرش پر منہ بازوؤں میں دئیے آسمان کی طرح رو رہا تھا. کمرے میں جیسے آدھا محلہ جمع تھا. اماں چارپائی کی پائنتی پر ٹکی دوپٹے میں منہ دئیے رو رہی تھی. بھائی اور بھابھی منہ نیچے کیے چپ بیٹھے تھے. دونوں بہنیں کمرے کے ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھیں. چاچا چاچی، پھوپھا، پھپھی،پڑوس کے ماسٹر سلیم بمع بیٹا اور بیوی اور محلے کے امام جو ابا کے دوست تھے، سب چپ چاپ ابا کے اٹھتے ہاتھوں اور چلتی زبان پر ایمان لا چکے تھے. جرم میرا بہت بڑا تھا اور سزا جرم سے بڑی ہو تو طاقت کی دھاک بیٹھی رہتی ہے. مجھ پر جو فردِ جرم عائد ہوئی تھی، وہ یہ تھی کہ میں نے مسجد کے چندے میں سے دو سو روپے چرائے ہیں. گاؤں کی جامع مسجد میں ہر جمعے، رمضان، عیدین وغیرہ پر جتنا بھی چندہ جمع ہوتا تھا، وہ سب ابا کے کمرے کی الماری کے لاکر میں رکھ دیا جاتا تھا. ابا یہ کام خود کرتے تھے. پرانی شے پھینک دیتے ہیں یا پھر رفو کر کے دوبارہ استعمال میں لے آتے ہیں، مسجد پرانی ہو گئی تھی تو اسے استعمال میں لانے کے لیے رفو کرنے کی ضرورت پڑی تھی تو خوب زور و شور سے چندہ اکٹھا کیا گیا، اب مسجد لَش پَش ہو گئی تھی، ابا کے لاکر کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں، کہاں وہ ربڑ چڑھے نوٹوں کی مہک سے مہکتا پھرتا تھا اب کسی سنسان محلے کا سماں پیش کر رہا تھا. گزرے جمعے کو بارہ سو پچاسی روپے جمع ہوئے تھے جو ابا نے گھر آ کے مجھے پکڑا دئیے اور چابی دے کر کہا کہ لاکر میں رکھ دو، میں نے اجڑے لاکر میں نئے مہمان پہنچا دئیے. دو تین دن بعد مسجد کی موٹر خراب ہو گئی تو ابا نے مستری بلوا کے نئی موٹر لگوائی اور گھر آ کے لاکر میں سے پیسے نکالے. گنے تو پھر گننے لگے، پھر گنے، پھر اٹھ کے لاکر میں جھانکا، ہاتھ ڈال کر سارا لاکر ٹٹولا. ابا کا سارا خون ان کے چہرے پر اتر آیا تھا. ابا نے گرج کے آواز لگائی، “مسعود، اوئے مسودے” میں تب کمرے میں جاسوسی ڈائجسٹ میں احمد اقبال کی کہانی میں ڈوبا ہوا تھا مگر گرج ایسی تھی کہ میں اچھل کے بیڈ سے اترا اور برآمدے میں پہنچا. ابا جیسے جلال سے کانپ رہے تھے، انہوں نے ہاتھ گھما کے میرے منہ پر دے مارا اور میں سامنے پڑی چارپائی پر جا رہا. منہ میں جیسے لوہے کا ذائقہ گھل گیا. ابا چپل اتار چکے تھے اور میری پیٹھ پر مارے جا رہے تھے اور میں چیخے جا رہا تھا.”کدھر گئے دو سو روپے؟ او کسے خنزیر کی اولاد، او کافر کتے، مسجد کے پاک پیسے چوری کرتا ہے” یہ بات ابا کے دانتوں کے اندر سے کھینچ کھینچ کے نکلی تھی اور پھر چپل میرے سر پر برسنے لگی. جانے میری چیخیں محلے میں پہلے پہنچیں یا ابا کی بلند آواز، جس سے وہ مسجد میں پنچ وقتہ نمازوں کی اذانیں دیتے تھے، پڑوس سے ماسٹر سلیم آ گئے تو انہوں نے ابا کا ہاتھ تھاما، ابا کو بٹھایا اور اماں کو ٹھنڈا پانی لانے کا کہا. “ہوا کیا کریم اللہ، تُو تو لڑکا ہی مارنے پر تُلا ہوا ہے” ماسٹر سلیم ابا کے پاس ہی بیٹھ گیا. میں ویسے ہی چارپائی پر اوندھا پڑا رو رہا تھا. “ماسٹر، اس نے میری سفید داڑھی پر کالک مَل دی ہے. اس حرام زادے نے میری سفید ٹوپی پر کیچڑ لیپ دیا ہے” میری آنکھوں سے آنسو رک گئے تھے یا جانے ختم ہو گئے تھے.” اس نے مسجد کے چندے میں سے دو سو روپے چوری کیے ہیں” ماسٹر سلیم نے سنتے ہی “اللہ اکبر” کا نعرہ لگایا پھر بولا” توبہ توبہ.. اس جرم کی معافی تو نہ یہاں ہے کریم اللہ اور نہ وہاں ہے.. اللہ ہی معاف کرے، توبہ” ابا نے ٹھنڈا پانی پیا اور ماسٹر کو لے کے مسجد چلے گئے. تب اماں آئی ،مجھے سیدھا بٹھایا اور بولی” وے مسودے، یہ کیا کر دیا ہے تُو نے، تُو تے میرا بِیبا پُتر تھا ” یہ سن کے میں پھر رونے لگ گیا” اللہ کی قسم اماں، میں نے پورے کے پورے پیسے اندر رکھ دئیے تھے، اور چابی ابا کو دے دی تھی، اماں تیری قسم میں نے دو سو کیا، ایک پیسہ بھی نہیں چرایا” اماں مجھے ساتھ لگا کے سہلانے لگ پڑی. بھائی آن کے سامنے کھڑا ہو گیا،” مسعود میں جانتا ہوں تُو ایسا لڑکا نہیں ہے، کوئی بات نہیں، غلطی ہو جاتی ہے، غلطی ماننے سے بندہ بڑا ہوتا ہے، چھوٹا نہیں” یہ سن کے میں مزید رونے لگ گیا.” بھا، میں نے نہیں چرائے، میں نے نہیں چرائے، میں نے نہیں چرائے” میں چیخنے لگ پڑا تھا. اماں نے پھر ساتھ لگا لیا
اور پھر باھر آسمان رو رہا تھا، جانے اسے کون پِیٹ رہا تھا اور اندر میں. ابا نے مجھے بال کھینچ کے فرش سے اٹھایا اور مجھے دھکا دے کے کمرے کے دروازے سے برآمدے، پھر برآمدے سے دھکے دیتے صحن اور پھر دھکے دیتے گھر کے دروازے کے باھر پھینکا اور “تُو مَر گیا میرے لیے آج سے، بس، تیرا باپ بھی مر گیا، دفع ہو جا کہیں جا مَر جا خنزیرا” اور دروازے کو اندر سے کنڈی لگا لی. اندر اماں چیخ رہی تھی، باھر میں دروازہ پِیٹ رہا تھا اور اوپر آسمان پر جیسے کسی اور کو بھی مسجد کے پیسے چرانے پر گھر سے نکال دیا تھا. پھر اندر سے آوازیں آنا بند ہو گئیں کہ سب اندر کمرے میں جا چکے تھے، میں دروازے کے ساتھ لگا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا ساری رات یہیں گزرے گی یا کہیں جاؤں، اور پھر کہاں جاؤں؟ وقت گزرتا گیا، کوئی بھی دروازے پر نہیں آیا. میں نے اپنا سر گھٹنوں سے اٹھایا، سر کے بالوں کو دونوں ہتھیلیوں سے نچوڑا اور اپنے دوست عامر کے گھر کی طرف چل پڑا. اس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر تین بار کھٹکھٹانے پر بھی نہیں کھلا. شاید اندر کمروں میں دبکے سو رہے ہوں گے. میرے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا. میں وہاں سے نکلا اور گلیوں میں پھرنے لگ گیا مگر بارش رکنے پر راضی ہی نہیں تھی، سو ایک گھر کے دروازے کے پاس ایک چھجا سا بنا تھا، اس کے نیچے بیٹھ گیا. دیوار سے ٹیک لگانے لگا تو ہاتھ پھسلا اور میں سیدھا دروازے پر جا پڑا. دروازہ لوہے کا تھا مگر کچھ ہِلا ہوا تھا کہ اس کے دونوں پاٹ آپس میں ہی کافی زور سے بجے. پہلے تو میں وہاں سے بھاگنے لگا پھر سوچا کہ جب عامر کو میری تین دستکیں نہ سنائی دیں، یہ ایک کسی کو کیا جگائے گی. مگر میں ٹھٹھک گیا جب کچھ دیر بعد ہی دروازے کی کنڈی اندر سے کھلنے لگی. میرا دل میرے سینے سے باھر نکلنے کو پھر رہا تھا. پھر آواز آئی “کون ہے؟ ” پہلے میں نے سوچا کہ نکل جاؤں پھر بارش اور رات بھر کے خوف نے پیر پکڑ لیے. “جی میں.. میں مسعود ،حاجی کریم..” میری بات مکمل ہونے سے پہلے دروازہ کھل گیا اور سامنے شائستہ ٹاٹ سے سر ڈھانپے کھڑی تھی. شائستہ اپنی ایک بچی کے ساتھ اکیلی رہتی تھی، اس کا شوھر کہیں کویت میں ٹرک چلاتا تھا. دو چار سال میں ایک بار گھر آتا تھا. شائستہ کا دیور جہلم میں کہیں رہتا تھا اور اکثر اس کے گھر آتا جاتا رہتا تھا. محلے کی تمام عورتیں شائستہ کی خوبصورتی اور بیباک طبیعت سے شاید جلتی تھیں یا واقعی اسے گشتی سمجھتی تھیں کیونکہ اس کے سامنے تو نہیں مگر میں نے اکثر عورتوں اور پھر گلی محلے کے لڑکوں کو اسے گشتی کہتے ہی سنا تھا. وہ کسی مرد سے بات کم ہی کرتی تھی، اور اکثر مردوں سے کافی روکھے انداز میں پیش آتی تھی، سو مردوں کے لیے بھی وہ ایک گشتی ہی تھی، گشتی اس لیے کہ شاید وہ ان کے ہاتھ نہیں آنے والی تھی!… “آ جا اندر مسعود، بہت تیز طوفان ہے.. آ جا” میرے دماغ میں لفظ گشتی مسجد میں لگے بڑے گھڑیال کی، زور زور سے گرتے، سیکنڈ والی سوئی کی طرح بج رہا تھا. میں ڈر رہا تھا یا جھجک رہا تھا. اس نے پھر کہا ” آجا اندر، کھا نہیں جاؤں گی” میرے قدم دروازے کی دہلیز پار کر گئے، وہ کنڈی لگا کے دوڑتی کمرے کے اندر پہنچی. دوڑتے ہوئے اس کے کولہے جیسے مچلتی مچھلی کی طرح تھے. میں اندر پہنچا، اس کی بچی سو رہی تھی، اس نے ایک تولیہ نکال کے مجھے دیا اور فریج سے بوتل نکال کے پانی کا گلاس بھرنے لگی. میں نے پہلی بار شائستہ کو اتنے قریب سے دیکھا تھا. کچھ کچھ بھیگی قمیص کہیں کہیں سے چپکی ہوئی تھی ” گھر سے نکال دیا ابا نے یا خود ہی نکل آئے ہو؟” میں نے سر جھکا کے ‘نکال دیا’ کہا اور تولیہ چارپائی پر رکھ دیا. وہ ربڑ سے نکلے بال دونوں بازوں اوپر کر کے پیچھے باندھنے لگی تو جیسے مارگلہ کی دو پہاڑیاں تن کے کھڑی ہو گئی تھیں. “کچھ کھانا ہے؟ بھوک لگی ہو گی” میں نے نفی میں سر ہلایا تو ٹاٹ مجھے پکڑاتے بولی ” اچھا پھر سامنے والے کمرے میں سو جاؤ، فرید (اس کا دیور) کا کمرہ ہے، وہ جب آتا ہے وہیں سوتا ہے” میں نے ٹاٹ ہاتھ میں پکڑا اور صحن کی طرف بڑھا، پھر رکا اور مڑ کے پوچھا “آپ نے پوچھا نہیں کہ کیوں نکالا گیا ہوں؟” وہ لیٹنے کے لیے چارپائی پر بیٹھ چکی تھی. “مجھے پتا ہے، خالہ ناظمہ کے گھر شام کو دودھ لینے گئی تو انہوں نے بتایا تھا ” میری نظریں مارگلہ کی چوٹیوں کا بار بار طواف کر رہی تھیں “آپ کو بھی لگتا ہے کہ میں نے پیسے چرائے ہیں؟ “.. اس نے چادر کھینچ کے ٹانگوں پر کی اور اَدھ لیٹی بولی ” چور کو کوئی گھر نہیں گھساتا.. جاؤ سو جاؤ جا کے” میری آنکھیں بھر آئیں اور ٹاٹ سر پر رکھ کے صحن کے دوسرے کمرے میں گھس گیا. لیٹے لیٹے سر میں مارگلہ کی پہاڑیاں گھوم رہی تھیں اور میں اسی کشمکش میں سو گیا
کسی نے ہلکے سے میرا بازو ہلایا” اٹھو مسعود، صبح کی اذان ہونے والی ہے ” شائستہ میرا بازو ہلا رہی تھی. میں ہڑبڑا کے اٹھا، بارش تھم چکی تھی مگر سیاہ بادل اب بھی رات کو جپھی ڈالے پڑے تھے. اس نے مجھے غسل خانے کی راہ دکھائی اور جب میں وضو کر کے نکلا تو وہ سامنے کھڑی تھی. اس نے پچاس پچاس کے چار نوٹ مجھے تھما دئیے” یہ لے لو… لے لوووو.. جا کے ابا کو دے دو اور غلطی مان کے معافی مانگ لو، وہ ابھی مسجد پہنچے ہی ہوں گے، اس وقت اور کوئی نہیں ہو گا مسجد میں” میں پتھر کا بنا کھڑا تھا “مجھے یقین ہے تم نے پیسے نہیں چرائے، یہ لو جاؤ ابا کے دے دو، سامنے رو لو گے تو وہ معاف کر دیں گے ” میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ پڑا. اس نے پاس آ کے مجھے ہلکے سے گلے لگایا اور پھر سر سہلا کے جانے کو کہا. میں دروازے سے باھر نکلا، اس نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے دیکھا اور آنکھوں سے” سب ٹھیک ہو جائے گا “کہا اور دروازہ بند کر دیا. گلی میں چپ اندھیرا تھا. میں مسجد کی طرف چل پڑا. مسجد میں لائٹس آن تھیں یعنی ابا پہنچ چکے تھے. میں نے دھڑکتے پیروں سے جوتے اتارے اور مسجد کے اندر پہنچا تو ابا دو زانو بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے. میں ڈرتے ڈرتے پاس پہنچا اور کوئی گز بھر کے فاصلے پر بیٹھ گیا. دل سینے میں ہی نہیں، ہاتھوں، پاؤں، زبان ہر شے میں دھڑک رہا تھا. ابا نے میری طرف دیکھا اور سامنے مجھے پا کے اس کے ہلتے ہونٹ جسے جم گئے. پھر انہوں نے سر ہلایا اور پاس آنے کا اشارہ کیا. میں گھر میں اتنی مار کھا چکا تھا مگر اب مسجد میں مار کھانے کا سوچ کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنے لگے. میں نے خود کو گھسیٹ کے ابا کے کچھ قریب کیا اور داہنی طرف والی جیب میں ہاتھ ڈال کے پیسے نکالنے لگا “پیسے مل گئے ہیں” ابا کی آواز اور اس بات سے میرا ہاتھ جیب میں ہی رک گیا “وہ تیری اماں نے اور بہن نے ڈھونڈ لیے، وہ لاکر کی پچھلی طرف گرے پڑے تھے” میں خدا کے گھر میں ایک پتھر بن کے بیٹھا ہوا تھا. ابا اٹھے اور لاؤڈ سپیکر کی طرف جاتے ہوئے بولے “چل کوئی بات نہیں، اذان کا وقت ہو گیا ہے، وضو کر کے آ جا، نماز پڑھ کے گھر چلیں گے”
میں کسی بے جان مورت کی طرح وہیں مسجد میں محراب کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، ہاتھ شائستہ کے دئیے دو سو روپے چھو رہے تھے. مجھے مسجد کے محراب میں مارگلہ کی پہاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں اور کانوں میں” چور کو کوئی گھر نہیں گھساتا “اور الصلاۃ خیر من النوم کی آوازیں بج رہی تھیں
اندھوں کا دیس
"اندھوں کا دیس" انگریزی ناول نگار ہربرٹ جے ویلز نے اس کو پہلی مرتبہ 1936 میں پبلش کیا گیا تھا...