اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں فرمایا کہ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًاOترجمہ:”اللہ تعالی تویہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبویﷺسے گندگی کو دورکردے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے“۔بی بی سکینہ اسی پاک گھرانے کی ایک خاتون مقدس ہیں۔آپ نواسہ رسول امام عالی مقام امام حسین کی صاحبزادی تھیں۔آپ کو ”آمنہ“ بھی کہاجاتاتھا،والدہ محترمہ کا نام نامی رباب بنت امراوالقیس تھا۔ولادت باسعات 20رجب 54ھ کو ہوئی،آپ کا بچپن مدینہ منورہ جیسے مرکزاسلام میں گزرا۔امام عالی مقام کو اپنی اس شہزادی سے بہت پیار تھا،بہت چھوٹی عمر میں حضرت بی بی سکینہ اپنے والد بزرگوارکے سینے پر ہی کھیلتے کھیلتے سو جایاکرتی تھیں۔جب کبھی بی بی سکینہ گھرپر نہ ہوتیں تو امام عالی مقام گھر کو خالی خالی قراردیتے۔جب بی بی پاک تھوڑی سی بڑی ہوئیں تو وہ رات کے ابتدائی حصے میں اپنے والد کے پاس باقائدگی سے جاتیں اور امام عالی مقام بی بی کو اپنے ناناﷺ،دیگرانبیاء علیھم السلام اور اپنے والد حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ایمان افروزواقعات سناتے تھے۔بی بی سکینہ اپنے چچا،عباس بن علی بن ابی طالب، کی بھی بہت لاڈلی تھیں،یہ چچا حضرت علی کی دوسری زوجہ ام البنین کے بطن سے تھے۔مدینہ منورہ میں قیام کے دوران دن میں کئی بار بی بی صاحبہ اپنے اس چچا کے گھر جاتی تھیں اور جب کبھی بی بی صاحبہ کوئی فرمائش کردیتیں تو چچا عباس بن علی ہر قیمت پر اس فرمائش کو پورا فرماتے تھے۔چچا کی محبت کا یہ عالم تھا کہ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا کے سفر کے دوران باربار محمل میں جھانک کر دیکھتے تھے کہ پیاری بھتیجی کو کوئی دقت اور پریشانی تو نہیں۔
قیام کربلاکے دوران جب یزیدی افواج نے جب اہل بیت مطہرین کامحاصرہ کرلیاتوامام عالی مقام نے اپنی بہن محترمہ بی بی حضرت زینب بنت علی سے کہا کہ اب سکینہ کومیرے بغیرسوناہو گااوربی بی سکینہ کی انگلی پکڑ کر انہیں بی بی زینب کے سپردکر دیا۔پہاڑ جیسے صبرکے وارث اس گھرانے کی لخت جگرنے چوں بھی نہ کی اور اطاعت وفرمانبرداری کی مجسم مثال بنتے ہوئے اپنے بابا کی جدائی برداشت کر لی۔7محرم الحرام کو جب اہل بیت مطہرین پر پانی کی بندش کر دی گئی تو کربلا کے اس گرم ترین ماحول میں بچے جاں بلب پیاس سے بلک گئے،وہ سب بچے،جنت کے پھول،جمع ہو کر بی بی سکینہ کے پاس آئے اور پانی کی فرمائش کی،جب کہ بی بی پاک کے اپنے ہونٹ بھی پیاس کے مارے سوکھ کر کانٹا ہو رہے تھے۔بی بی سکینہ نے کم و بیش بیالیس بچوں کی قیادت میں پانی کی ایک مشک اٹھائی اوراپنے پیارے چچا عباس بن علی کے پاس گئیں کہ پانی لائیں۔راج دلاری بھتیجی کی فرمائش پر عباس بن علی نے امام عالی مقام سے اجازت چاہی تو اجازت نہ ملی،عباس علمدار نے بی بی پاک سے کہا اپنے والد سے اجازت لے دو،پہلی دفعہ تو انکارہوالیکن باردیگرحالات پر جذبات غالب آ گئے اور اجازت مرحمت ہوگئی۔حضرت عباس بن علی نے مشکیزہ اپنے علم پر دھرااوریزیدی افواج کو چیرتے ہوئے کناردریاجا پہنچے،تمام بچوں کی نظرعلم پر لہراتے ہوئے مشکیزے پر تھی۔ مشکیزہ دریاکے پانی میں ڈالنے پربچے پریشان ہوگئے لیکن امام عالی مقام نے فرما یاگھبراؤنہیں مشکیزہ دریامیں ڈالنے کے باعث نظروں سے اوجھل ہواہے۔بھراہوامشکیزہ جب دوبارہ علم پر نظر آیاتو تمام بچے اپنے ننھے منے ہاتھوں میں پانی کے چھوٹے چھوٹے برتن لیے امید میں انتظارمجسم بن گئے۔حضرت عباس بن علی جیسے ہی خیموں کی طرف بڑھے توابن سعد کی مکروہ و منحوس آواز گونجی کی اگرپانی خیموں میں پہنچ گیاتو بنی ہاشم کے ان جانبازوں سے جیتنا ممکن نہیں رہے گا،چنانچہ اس کے حکم پر یزیدی فوج نے خانہ نبوت کے اس چشم و چراغ پر پے درپے حملے شروع کر دیے۔مشکیزہ بچاتے ہوئے حضرت عباس بن علی کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے علم زمین پر گرااور پھر بی بی سکینہ اپنے اس پیارے چچا کو کبھی نہ دیکھ سکی۔پیاری سکینہ نے اپنے والد بزرگوارکی طرف نظر کی انہوں نے چہرہ دوسری طرف پھیرلیااورحوض کوثرکے وارث بچے اپنے پیاسے ہونٹوں کے ساتھ خیموں میں لوٹ گئے۔
دس محرم الحرام کی شام یزیدی افواج خیموں پر ٹوٹ پڑیں،بدبخت شمرنے بی بی سکینہ کے چہرہ انور پر زوردارطمانچہ رسیدکیااور ان کے کانوں سے جھمکے نوچ لیے،بی بی کا چہرہ خوف زدہ اورکان لہولہان ہو گئے،ان ظالموں نے اسی پر بس نہ کی اور خیموں کو نذرآتش کرناشروع کردیا،نسل آد م کی مقدس ترین خواتین دوسرے خیمے میں تشریف لے جاتیں تواس کوبھی آگ میں جھونک دیاجاتا۔بی بی پاک زینب نے سب بچوں اور خواتین کو ایک جگہ جمع کیاجب کہ امام عالی مقام کا جسم اطہر سر سے جداہوامیدان کرب و بلامیں خاک و خون سے آسودہ راحت فردوس ہورہاتھااور یتیم اور بیوگان اس کے گرد جمع تھیں۔بی بی زینب کو اچانک ننھی سکینہ کاخیال آیاتو وہ غیرموجود پائی گئیں،دو خواتین اہلبیت کو فوراََدوڑایاگیا،انہوں نے جلتے خیموں میں خوب چھان بین کی لیکن ننھی بی بی کا کوئی سراغ نہ ملا،بی بی پاک زینب پریشان حالت میں میدان کی طرف لپکیں تو پیاری سکینہ کو اسی طرح باپ کے سینے سے چپکاہواپایا جس طرح بچپن میں وہ اس شناسا سینے پر استراحت فرمایا کرتی تھیں۔بی بی زینب نے انہیں پانی بھرا برتن پیش کیاتوننھی بی بی نے پوچھا کیا چچا عباس بن علی لوٹ آئے،تو انہیں جواب دیاگیا کہ نہیں یہ پانی حر کی بیوہ نے بھیجاہے تو انہوں نے پہلے حرکی بیوہ کا شکریہ اداکیااورپھر پانی نوش جان کیا۔اگلے دن یہ کاروان کوفہ کی طرف روانہ ہواتو بی بی زینب نے اپنے بھائی کی امانت،بی بی سکینہ،کواپنی ہی اونٹنی پر بٹھایا۔کوفہ میں ایک عورت نے اپنے گھرکی چھت سے اونٹنی پر بیٹھی بی بی سکینہ کو پانی پیش کیا۔کوفہ کے بعد یہ قافلہ سخت جاں دمشق کے لیے روانہ ہواتودوران سفربی بی سکینہ بچی ہونے کے ناطے تمام خواتین اہل بیت کی خدمت داری کرتی رہیں،خاص طور پراگرکوئی بچہ روتاہوا نظر آتا تو بی بی فوراََ اسے اپنی گود میں سمو لیتی تھیں،دوران سفر وہ اپنے چھوٹے شہید بھائی علی اصغرکو بھی بہت یادکرتی رہیں۔کربلا سے دمشق تک عموماََایک ماہ کا طویل سفرتھا لیکن اس بابرکت گھرانے کے طفیل یہ سفرمحض سولہ دنوں میں ختم ہوا۔
اس مقدس ترین قافلے کے ساتھ جو دردانگیزسلوک روارکھاگیااسے تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ رکھاہے۔چار پانچ سالہ ننھی سکینہ اپنے والد کی جدائی برداشت نہ کر سکی۔وہ شام کے قیدخانوں میں اکثراپنے والد،شہیدکربلا کوخواب میں دیکھتی تھیں کہ وہ کہ رہے ہیں کہ تم بہت جلد میرے پاس پہنچ جاؤگی۔بادی النظر میں دیکھا جائے تو محبت کرنے والے والد محترم بھی اس ننھی سکینہ کے بغیربہت اداس تھے۔دمشق کے قید خانے میں ایک دفعہ ننھی سکینہ نیندسے بیدارہوئی اور شہید والد کو شدت سے یادکرنے لگی،ماں،پھوپھی،بھائی اور دیگر رشتہ داروں نے بہت دلاسے دیے لیکن تسلی نہ ہو سکی۔روایات میں لکھا ہے کہ ملعون یزید نے امام عالی مقام حضرت امام حسین کاسر مبارک قیدخانے میں بھیج دیا،اہل بیت نبوی کواذیت دینے کا یہ بھی ایک طریقہ تھا۔باپ کی شفقت سے محروم یتیم سکینہ اپنے والد کی اس حالت کو دیکھ کر سو گئی۔امام زین العابدین نے جب ماتھے پر ہاتھ رکھا تو انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ ابدی نیند ہے۔یہ ماہ صفرالمظفرکی 10یا11تاریخ تھی اور زندان شام کامقام تھا۔باپ بیٹی کا فراق ختم ہو چکاتھا۔قید خانے میں ہی کربلا کے خیموں سے جلے ہوئے اور خون آلود کپڑوں میں اہل بیت کی اس شہزادی کوموتیوں سے بنی جنت میں حریرودیبا اورمخمل کے لباس پہننے کے لیے عازم سفرآخرت کردیاگیا۔بی بی زینب نے ننھی کا جسد مبارک ہاتھ میں تھامے رکھااور امام زین العابدین نے قبر کھودی۔قیدخانے میں ہی قبر مبارک بنی اورصدیوں بعد جب اس قبر میں پانی چرانے لگا تووقت کے رحم دل حکمران نے ننھی شہزادی کی قبر کشائی کی اور صدیوں کے بعد بھی تروتازہ جسم اطہرکو موجودہ جائے مقبرہ میں دفن کر دیاگیا۔یہ مقبرہ آج مرجع خلائق ہے،زائرین دوردراز سے اس کم عمرمعصوم پاک بی بی کی عزم و ہمت اور استقامت کو سلام کرنے کے لیے جوق درجوق آتے ہیں اور اپنا ایمان تازہ کر کے چلے جاتے ہیں کہ یہ وہ خانوادہ ہے جسے سند طہارت اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔
اے جان سکینہ بے جان سکینہ ماں ننھی سی میت پہ ہو قربان سکینہ
جھیلی نہ گئیں بچی سے زنداں کی جفائیں اماں کو چلیں چھوڑ کے نادان سکینہ
بابا سے مری جان،نہ شکوہ مراکرنا سب رہ گئے دل میں مرے ارمان سکینہ
قیدی ہوں بلاکش ہوں کفن دے نہیں سکتی دفنانے کاکیوں کرکروں سامان سکینہ
تنہامجھے تم چھوڑ کے جنت کو سدھاریں اب ماں ہے تری اور یہ زندان سکینہ
رخساروں پہ ظالم نے طمانچے ترے مارے کچھ صغرسنی کانہ کیادھیان سکینہ
کانوں کے ترے چیرکے بندوں کواتارا اورخوں سے بھراتیراگریبان سکینہ
نیندآئے گی کیونکرمیری بی بی کو لحد میں
کیاگزرے کی تجھ پرمیری نادان سکینہ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...