ازقلم ’Paulo Coelho‘
اقتباس Book: ‘Like The Flowing River
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ یونیورسٹی میں ایک سیمینار کا آغاز ہو رہا تھا۔ ہال میں بیٹھے طلبا و طالبات کو معلوم نہ تھا کہ سیمینار میں کیا ہونے والا ہے۔ ہر جانب ہلکا سا شور مچا ہوا تھا۔
اتنے میں پروفیسر نما ایک شخص سٹیج پر آئے۔ ہال میں خاموشی چھا گئی۔ کچھ دیر وہ حاضرین کو دیکھتے رہے۔ اُن کے ہاتھ میں 20 ڈالر کا نوٹ تھا۔ اُنہوں نے ہاتھ اوپر کر کے سب کو نوٹ دکھایا اور پُوچھا ’’یہ 20 ڈالر کا نوٹ کِس کو چاہیے؟ جو ہاتھ کھڑا کرے گا، یہ نوٹ اُس کا ہو جائے گا۔‘‘
ہال میں ہر جانب اُٹھے ہوئے ہاتھ نظر آنے لگے۔ پروفیسر نے کہا ’’اوہ، سب کو چاہیے۔ اب کیا کریں۔ چلیں مَیں ایک اور کام کرتا ہُوں.. فی الحال ہاتھ نیچے کر لیں…‘‘
پروفیسر نے 20 ڈالر کے نوٹ کو تروڑ مروڑ کر گیند بنا دیا اور پھر پوچھا ’’اب یہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ اب بتائیے کہ یہ کسے چاہیے؟‘‘
دوبارہ اُتنے ہی ہاتھ اُٹھے جتنے پہلی بار اُٹھے تھے۔ پروفیسر نے کہا ’’اچھا، ابھی بھی چاہیے۔ لو پھر یہ دیکھیں…‘‘ پروفیسر نے 20 ڈالر سے بنے گیند کو زمین پر پٹخا، اپنے جوتے سے اُسے مسلا، پھر گیند کو اُٹھایا اور گھما کر ہال کی ایک دیوار پر دے مارا۔ ٹپاک کی آواز آئی۔ گیند دیوار سے لگ کر حاضرین میں جا گری۔ منظر سے پتا چل رہا تھا کہ گیند نہ صرف زمین پر گری ہے بلکہ بھگدڑ کے نتیجے میں اُسے ٹھوکریں بھی لگ رہی ہیں۔ کچھ ہڑبونگ کے بعد ہال کی ایک اور جانب سے ایک لڑکے نے خوشی سے ہاتھ بلند کیا۔ گیند اُس کے ہاتھ میں تھی۔
پروفیسر نے سب کو خاموش کروایا اور بولے ’’ہاں جی لڑکے! اگر یہ 20 ڈالر کا ’بے عزتی یافتہ نوٹ‘ ابھی بھی چاہیے تو جیب میں ڈال لو ورنہ ساتھ والے کو دے دو۔‘‘ لڑکے نے ہنستے ہنستے اپنی جیب میں ڈالا اور بیٹھ گیا۔
تب پروفیسر صاحب گہرے انداز میں بولے ’’آج جو کچھ ہوا ہے، یہ سب یاد رکھیے گا۔ 20 ڈالر کے نوٹ کے ساتھ مَیں نے یا ہم سب نے مل کر جو کچھ بھی کیا ہے، وہ ابھی بھی پہلے جتنا ہی قیمتی ہے۔ اُسے کوئی فرق نہیں پڑا…… اِسی طرح زندگی اور معاشرہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی کریں، بُری طرح پیش آئیں، حالات تنگ ہو جائیں، ہماری بے عزتی ہو، ہمیں پریشان کیا جائے.. پھر بھی ہماری حیثیت اور وقعت میں کوئی کمی نہیں ہو گی، وہی رہے گی جو پہلے تھی۔ ہماری طاقت وہی رہے گی جو پہلے تھی۔ اس لیے مایوس ہو کر پیچھے نہ ہٹ جانا، ہر حال میں محنت جاری رکھنا۔ اب لیکچر کا آغاز کرتے ہیں۔‘‘
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...