بیسویں اور اکیسویں صدی کے جرمن ادب پر ایک نظر
جرمن ادیب عام طور پر ادب کو بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ اُن کے کردار دیکھنے میں نظر کیسے آتے ہیں، رہتے کیسے ہیں، سوچتے کیا ہیں اور اُن کے ساتھ کیا کچھ واقعات پیش آتے ہیں۔ جرمن ادب میں تھوماس مان کا نام خاص طور پر لیا جا سکتا ہے۔ 1955ء میں 80 برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے جرمن ادیب Thomas Mann نے اپنے شاہکار ناول Buddenbrooks میں شہر Lübeck کے ایک تاجر خاندان کے زوال کی داستان بیان کی ہے۔ اُن کی بیان کی ہوئی چھوٹی چھوٹی، مکمل اور واضح تفاصیل کی مدد سے Lübeck شہر میں اُن کے ناول نگار بڑے بھائی ہائِنرِش اور خود اُن سے موسوم مرکز میں باقاعدہ ایک پورا کمرہ تیار کیا گیا ہے۔
جہاں تھوماس مان اپنے ناولوں مثلاً دا میجِک ماؤنٹین اور ڈَیتھ اِن وینس میں طبقہء اُمراء کے زوال اور ایک پورے دَور کے خاتمے کو موضوع بناتے ہیں، وہاں 1877ء میں جنم لینے والے اور 1962ء میں انتقال کرنے والے ادیب ہَیرمان ہَیسے کی تمام تخلیقات میں ایک عام شہری کو پیش آنے والے مصائب پر توجہ مرکز کی گئی ہے۔
خود اپنی ذات کے اندر سفر اور خود کو دریافت کرنا بھی اُن کا ایک بڑا موضوع ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’جب عمر رسیدہ انسان اس موضوع پر سوچ بِچار شروع کریں کہ کب، کتنی مرتبہ اور کتنی شدت کے ساتھ اُنہوں نے خوشی کو محسوس کیا ہے تو وہ اِسے خاص طور پر اپنے بچپن میں تلاش کرتے ہیں۔‘‘
جرمن زبان کے ادیبوں میں ایک اور اہم نام ایلیاز کانَیٹی کا ہے۔ 1905ء میں جنم بلغاریہ میں ہوا، پرورِش انگلینڈ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا اور جرمنی میں ہوئی اور 1938ء میں جرمنی سے نقل مکانی کے بعد باقی زندگی لندن میں گزاری۔ انکا انتقال 1994ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر زِیورِچ میں ہوا۔ اُن کی تخلیقات میں سب سے اہم اُن کی کئی جِلدوں پر مشتمل خود نوِشت ہے، جس میں اُنہوں نے بتایا ہے کہ مختلف ثقافتوں اور زبانوں میں اُن کی زندگی کیسے گزری۔
آسٹریا کے Peter Handke کی تخلیقات میں بھی مرکزی اہمیت اپنی ذات کی تلاش کی ہے۔ بالخصوص 1966ء میں اپنے اسٹیج ڈرامے Offending the Audience اور 1972ء میں اپنے افسانے شارٹ لیٹر لانگ فیئر وَیل کے ذریعے وہ قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔ وہ ادیبوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہتے ہیں:
’’لوگ ادب کے ذریعے سماج کو تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن جب تبدیلی کے سلسلے میں عملی قدم کی باری آتی ہے تو بلا سوچے سمجھے زبان اور گرامر کے وہی قواعد استعمال استمال کرتے ہیں، جو بالآخر اُس سماج کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ مَیں اِنہی غلط ڈھانچوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں، لوگوں کو اُن کا احساس دلانا چاہتا ہوں۔‘‘
تاہم سرب قائد سلوبوڈان ملوشے وِچ کی رسمِ تدفین میں شرکت کے بعد Peter Handke اپنے بہت سے قارئین کی ہمدریوں سے محروم بھی ہو چکے ہیں۔
قدرے جدید جرمن ادب میں نیشنل سوشلزم اور عالمی جنگوں کو زیادہ موضوع بنایا گیا ہے۔ اِس میں نمایاں نام ہیں، گنٹر گراس، مارٹن والزر، بَیرن ہارڈ شلِنک اور ژُولیا فرانک کے۔ یہ ادیب اپنی تحریروں میں اپنے کرداروں کے اندر کی دُنیا بیان کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ حالات کیسے کسی شخص کے کردار اور عمل پر اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔
گنٹر گراس کا ناول دا ٹِن ڈرم قد میں چھوٹے رہ جانے والے اوسکار ماٹسے راتھ کی کہانی بیان کرتا ہے، جو بچوں کے زوایہ نگاہ سے بالغوں کی دُنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ گراس کو جرمنی میں ایک اخلاقی اتھارٹی کا درجہ دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اُنہوں نے اپنی کتاب Peeling the Onion میں یہ انکشاف کر کے ایک ہلچل مچا دی کہ نوعمری میں وہ نازیوں کے خاص طور پر بے رحم مانے جانے والے دَستے Waffen SS کے رکن رہے تھے۔
لوگوں کے تنقید پر انہوں نے لکھا ’’مجھے اِس تنقید کو قبول کرنا ہو گا اور جیسا کہ میری کتاب سے واضح بھی ہوتا ہے، کہ میں نے اِس حوالے سے خود بھی اپنے آپ پر تنقید کی ہے۔ لیکن کئی اور امور کی طرح یہ معاملہ بھی ایسا تھا کہ اِس سے پہلے تک میں خود کو اِسے بیان کرنے اور منظرِ عام پر لانے کی حالت میں ہی نہیں سمجھ رہا تھا۔"
نئے لکھنے والوں میں ایک اور بڑا نام پاٹرِک زُوس کِنڈ کا ہے۔ جنکا تاریخی ناول دا پرفیوم نے عالمگیر کامیابی حاصل کی ہے۔ اِس میں ایک شخص ایک مکمل اور ابدی خوشبو تیار کرنے کے جنون میں قاتل بن جاتا ہے۔ اور اَیلفرِیڈے ژیلی نیک حقوقِ نِسواں کی سرگرم علمبردار ہیں اور اپنی تحریروں میں تشدد، نسل پرستی اور خواتین کے ساتھ نفرت آمیز سلوک کو موضوع بناتی ہیں۔
آج کل کے جرمن ادیبوں میں ڈانیعیل کیہل مان کو سرِ فہرست قرار دیا جا سکتا ہے، جن کی کتاب دُنیا کی پیمائش کو غیر متوقع طور پر زبردست کامیابی ملی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آگے چل کر وہ جرمن ادب کی عظیم شخصیات میں شمار ہوں گے۔
بہت سے جرمن ادیبوں کی تخلیقات کا اردو زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے جن میں نوبیل انعام یافتہ جرمن ادیب ہائِنرِش بوئیل کا ناول Die Verlorene Ehre der Katharina Blum (کیتھارینا بلوم کی کھوئی ہوئی عزت) کو اہم مانا جاتا ہے جسکا ترجمہ معروف مؤرخ اور مترجم ڈاکٹر مبارک علی نے کیا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“