اندلس براعظم یورپ کا ایک خوبصورت جزیرہ نما ہے۔اسے اسپین،ہسپانیہ اور جزیرہ نما آئبیریا بھی کہتے ہیں،اسکے ایک طرف خشکی اور تین اطراف میں سمندر ہے۔92ھ بمطابق 711ء میں اندلس کے جنوب میں ابنائے جبل الطارق کے مقام پر تاریخ اسلام کے عظیم سپہ سالارطارق بن زیاد ؒنے اپنے جہاز نذرآتش کیے تاکہ افواج اسلامیہ کے ذہن سے واپسی کا خیال ختم ہو جائے۔بہت جلد موسی بن نصیر ؒبھی اسکی مدد کو آن پہنچے اور اندلس کی ابتدائی مہم کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔آغاز میں والیان تعینات ہو کر آتے رہے،کبھی مرکز خلافت سے اور کبھی افریقہ کے پایہ تخت قیروان سے،لیکن جب مرکز خلافت اسلامیہ میں عباسیوں کا قبضہ ہوا توایک اموی شہزادہ عبدالرحمن بن معاویہ جسے تاریخ نے ”الداخل“ کا خطاب دیا،کالے جھنڈے والی عباسی سپاہ سے بچتا ہوااندلس میں تن تنہا داخل ہوا اور اموی اقتدار کی داغ بیل ڈالی۔عبدالرحمن (سوئم)الناصرلدین اللہ اسی کی نسل سے تھا اور اندلس پر خاندان بنی امیہ کا ساتواں حکمران بنا۔
عبدالرحمن الناصر کا شمار اندلس کے کامیاب ترین حکمرانوں میں ہوتا ہے۔اس نے اندلس پر پچاس سال حکمرانی کی وہ300ھ بمطابق 912ء کو اپنے دادا امیر عبداللہ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔اس وقت شاہی خاندان میں بڑے بڑے شہزادے بشمول عبدالرحمن الناصر کے چچاؤں کے موجود تھے لیکن سب لوگ اسکی حکمرانی پر مطمعن رہے۔سترہ سال کی مدت تک عبدالرحمن الناصر نے اپنے لیے امیر کا لقب اختیار کیے رکھا لیکن جب مشرق میں قوائے خلافت کمزوت ہوئے اور خلیفہ مقتدر عباسی کو اسکے ترکی غلام مونس مظفر نے قتل کر دیا تو خلافت اسلامیہ کا وقار جاتا رہا۔چنانچہ اندلس میں پہلی مرتبہ عبدالرحمن الناصر نے خلیفہ کا لقب اختیار کیا،امیرالمومنین کہلوایا،خطبہ میں اپنا نام شامل کیا اور ”ناصر لدین اللہ“کے لقب سے ملقب ہوا۔عبدالرحمن الناصرنے22سال کی عمر میں عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لی،تخت نشین ہوتے ہی اس نے شاہی خاندان کے تمام تنازعات کا خاتمہ کرایا اوراپنے مخالفین کو ٹھنڈا کیا۔اس میں جہانگیری و جہاں بانی کے تمام اوصاف موجود تھے۔اندلس کی حکومت کو جو مقام اس حکمران کے زمانے میں میسر آیاوہ اس سے پہلے اور اسکے بعد پھر کبھی نہ دیکھا گیا۔تعمیرات کے شوقین اس بادشاہ نے کئی نئے شہراور،محلات تعمیر کیے اور باغات کی کثرت تو اس کے زمانے میں اندلس کا جداگانہ تعارف بن گئی تھی۔
عبدالرحمن الناصرکے دوراقتدار میں تقریباََ تمام مدت جہاد جاری رہا۔ابتدا میں خلیفہ خود جہاد میں شامل ہوتا،افواج اسلامیہ کی قیادت کرتا،دوران جہاد صوم و صلوۃ کی پابندی باہتمام کرتا اور کامیابی پر سجدہ شکر بجالاتا۔اسکے دور میں عمر بن حفصون کی مکمل سرکوبی ہوئی،یہ باغی مارا گیا اور اسکے قلعے پر شاہی افواج کا قبضہ مکمل ہوگیا۔یہ شخص ایک عرصہ سے قرطبہ کے حکمرانوں کے لیے درد سربنا ہوا تھا۔فرانسیسی افواج کے ساتھ تخت اندلس کی طویل جنگ رہی،حتی کہ فرانس کو اپنے زوال کا یقین ہو چلا تھاکیونکہ یہ ملک مسلمانوں کے حق میں اپنے کئی علاقوں سے محروم ہوچکا تھا،دوسری طرف افواج اسلامیہ یورپ کے عین قلب میں سلطنت تاج برطانیہ کی حدود پردستک دے رہی تھیں۔برطانیہ اور فرانس کی شہ پر اندلس کے اندر بھی کئی طاقتور عیسائی سرداروں نے بغاوت کی لیکن اس بادشاہ کے عہد میں کامیابی سے انکی سرکوبی کر دی گئی۔جنگ خندق نامی ایک مشہور اور طویل جنگ میں اسلامی سپاہ کے پچاس ہزار فوجی کام آئے اور خلیفہ بمشکل پچاس سواروں کے ساتھ وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکا۔اس جانکاہ واقعہ کے بعدعبدالرحمن الناصرخود کسی معرکے میں شریک نہ ہواتاہم جہاد کے تسلسل کے لیے افواج بھیجتا رہا۔اسکی ایک وجہ شایدبادشاہ پر بڑھاپے کا غلبہ بھی ہو سکتی ہے۔
عبدالرحمن الناصرکے عہد زریں میں کل اندلس میں عام طور پر اور قرطبہ میں خاس طور پر سینکڑوں تعلیمی ادارے جہالت و بے راہ روی کے خلاف خوش اسلوبی سے اپنے میدان میں برسر پیکار تھے۔طلبہ سے کوئی معاوضہ نہ لیا جاتا تھا اور تعلیم نہ صرف یہ کہ مفت اور عام تھی بلکہ مستحق طلبہ کو وظائف بھی دیے جاتے تھے۔جو طلبہ اعلی تعلیم کے خواہاں ہوتے انہیں انکے حوصلے کے مطابق اعانت میسر آتی تھی۔جو علمی تحقیقات اور تجسس کے شوقین ہوتے انہیں سرکاری معاونت بہم پہنچائی جاتی تھی۔کتابوں کی اشاعت حکومت کی ذمہ داری تھی،لکھنے والوں کو معاوضہ ملتا اور اچھی تصنیف پر دیگر انعامات بھی نذر کیے جاتے۔مہندسین اور ماہرین نجوم کے لیے رصد گاہیں میسر تھیں اور طب و طبعی علوم کے ماہرین کے لیے تجربہ گاہیں۔عبدالرحمن الناصرنے جامعہ قرطبہ کی توسیع بھی کی اور اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا۔اس جامعہ میں وقت کے بڑے بڑے علماء و فضلاء درس دیتے اور دربار شاہی میں بھی اپنا جائز مقام رکھتے تھے اور بڑے بڑے سرکاری فیصلوں میں دخیل ہوتے۔قرطبہ اس قدر علوم کا شہر بن چکا تھا کہ مشرق و مغرب سے مسلمان و غیر مسلم اساتذہ و طلبہ یہاں کھچے چلے آتے تھے۔علمی مجالس منعقد کرنا معاشرتی رواج بن گیا تھا،خود خلیفہ عبدالرحمن الناصرہفتہ بھر میں ایک دفعہ یا دو دفعہ علماء کے ساتھ دربار لگاتا اور اسکے علاوہ بھی اہل علم و فضل،شعرا اور ادیب اور مفسرین،محدثین و فقہ مالکی کے ماہرین اسکے دربار سے مستقل طور پر وابسطہ تھے۔عبدالرحمن الناصرکے عہد میں غیر عربی زبانوں سے تراجم کتب کا کام زوروں پر تھا اور بڑی سرعت کے ساتھ انکی نقول تیار کی جاتی تھیں۔نقال اور نساخ حضرات کے تحریر کی رفتار حیرت انگیز حد تک تیز ہوا کرتی تھی،انکے گروہ دونمازوں کے دوران ضخیم سے ضخیم کتاب کی نقل تیار کر کے تو اسکی جلد باندھ دیتے تھے،اندلس میں ایسے ماہرین فن کو”وراقین“کہا جاتاتھا۔عبدالرحمن الناصرکے زمانہ میں اندلس کی شرح خواندگی سو فیصد کو چھو رہی تھی اورعوام و خواص علم کے شوقین تھے حتی کہ ملاح،نان بائی اور حجام تک کی سطح کے لوگ فی البدیہ اشعار میں گفتگو کیا کرتے تھے۔
عبدالرحمن الناصربذات خود بھی شاعر تھا،اسکے اکثر اشعار مورخین نے محفوظ کیے ہیں۔علوم و فنون کا اتنا قدردان تھا کہ اس نے ریاست کی آمدنی کا تیسرا حصہ مقاصد تعلیم کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ہر دین،مذہب اور عقیدے کے علماء اسکے دربار سے وابسطہ تھے۔یونانی فلسفہ کے عربی ترجمہ پر اس نے خصوصی توجہ دی،لیکن اندلسی علماء نے اس کو پسند نہ کیا۔ہسدائی بن شبروت نامی یہودی ماہرمعاشیات عبدالرحمن الناصرکا وزیر تجارت تھا۔اس بادشاہ کی بہت بڑی لائبریری تھی،جہاں ہر ہر فن کی کتب الگ الگ الماریوں میں چنی تھیں اور ایک طرف ان کتب کے میزانچے(کیٹلاگ) بھی دھرے تھے جس کے باعث طالبان علم بڑی آسانی سے ان کتب تک رسائی حاصل کر لیتے تھے۔اس کے زمانے میں ایک چھاپہ خانہ بھی کام کرتا تھا جس پر بادشاہ کے احکامات چھپتے تھے۔دیگر مسلمان حکمرانوں کی طرح عبدالرحمن الناصرنے بھی رفاہ عامہ کے بہت سے کام کیے۔اس نے شہروں کے درمیان سرائیں بنائیں،مسافردو کوس بھی نہ چل پاتا تھا کہ اسے کوئی سرائے مل جاتی۔اندلس کی پن چکیاں پانی سے چلتیں تھیں صرف غرناطہ شہر میں 130پن چکیاں کام کرتی تھیں۔عبدالرحمن الناصرکے زمانے میں اندلس میں 800کارخانے صرف کپڑے کے تھے۔ریشم کے کیڑوں کی صنعت اپنے عروج پر تھی،گھروں کے اندر ریشم کے کیڑے پال کر ان سے بہترین ریشم حاصل کیا جاتا تھا۔اندلس کی چارکروڑ کی آبادی میں سے ایک کروڑ کی آبادی صرف ریشمی کپڑا استعمال کرتی تھی۔اندلس میں تیار کیا جانے والا کاغذ موجودہ زمانے کے کاغذ سے کسی طرح بھی کم نہ تھا۔شاطبہ نامی شہر میں روزانہ کئی ہزارٹن کاغذ تیار ہوتا تھا،اس شہر کی آبادی کا نصف اسی صنعت سے وابسطہ تھا۔قرطبہ کے بیس ہزار تاجر صرف کاغذ کا کاروبار کرتے تھے۔اندلسیوں نے روئی سے کاغذ بنانے کی تکنالوجی کا آغاز کیا۔کاغذ کی سب سے بڑی خریدار حکومت وقت تھی۔عبدالرحمن الناصرکے زمانے میں اندلس میں ایسے کارخانے تھے جن میں تیر سے توپ تک کی چیزیں بنا کر ڈھالی جاتیں تھیں ایسے کارخانوں کو ”دارالصناعۃ“کہتے تھے۔عینک اور جہاز بھی اندلسی مسلمانوں کی ایجاد ہیں،میزان الوقت(سٹاپ واچ)بھی سب سے پہلے اندلس میں متعارف ہوئی۔ہاتھی دانت،شیشہ،ظروف سازی اور چمڑے کی صنعت میں اندلسی مسلمان دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
عبدالرحمن الناصرکے زمانے میں زراعت نے بے پناہ ترقی کی۔سو سے زیادہ باغات توغرناطہ شہر میں صرف شاہی محلات سے ملحق تھے۔دو شہروں کے درمیان سفرکرنے والا مسافر سڑک کے دونوں طرف لگے پھل دار درختوں کے سائے میں ہی سفر کرتاتھا۔کثرت باغات کے باعث مسلمانوں کے زمانے میں اندلس جنت ارضی کا پتہ دیتا تھا۔پچاس پچاس فٹ کے تالاب پانی کے ڈیم کے لیے جھیل کا کام کرتے اورکاشتکاری کے لیے پانی یہیں سے فراہم کیا جاتا،ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پانی کی فراہمی کے لیے زیرزمین نہریں بنائی گئی تھیں۔ہر جمعرات کوتقسیم آب کے لیے مسجد کے دروازے پر شرفائے علاقہ کی پنچائت ہوتی اور حکومت اس پنچائت کے فیصلے کا احترام کرتی۔کاشتکاروں کی تربیت کے لیے تعلیمی ادارے بھی تھے۔اندلسی مسلمان فصل دشمن کیڑوں کی ہلاکت کے لیے کیڑے مار دوائیوں کا استعمال بھی جانتے تھے۔لیموں،شہتوت،انجیر،کیلا،پستہ،بادام چاول،تل،پالک،سیاہ مرچ اور زعفران اس زمانے میں اندلس کی مشہور پیداوار تھے۔
عبدالرحمن الناصر تعمیرات کا شوقین بادشاہ تھا اس نے اندلس کے ہر حکمران کی طرح جامع قرطبہ کی توسیع کی۔اپنی دلپسند کنیز”زہرا“کے نام سے ایک محل بھی تعمیر کیاجو بعد میں آنے والے عیسائی فاتحین نذر آتش کر دیا۔یہ محل چالیس سال تک تعمیر ہوتا رہا،کروڑوں کے اخراجات اٹھے،سونے کا بے پناہ استعمال نے اسے حسن و زیبائش کا اعلی نمونہ بنا دیا،قصر میں ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی جس میں قیمتی دھاتیں بے تکلفی سے استعمال کی گئیں۔یہ محل بادشاہ کو اس قدر پسند آیا کہ اس نے اسے ہی اپنا پایہ تخت بنا لیا۔اسکی تعمیرات میں سنگ تراشی،مرصع نگاری اور خطاطی کے بے شمار نمونے آج تک موجود ہیں۔
عبدالرحمن الناصر اندلسی ذاتی طور پر بہت محنتی حکمران تھا،اس نے لکھا کہ میں نے زندگی میں کل چودہ دن فرصت کے گزارے ہیں۔پچاس سال پر محیط اس بادشاہ کے دور حکمرانی نے کبھی ظلم و جور کو اس دھرتی پر روا نہیں دیکھا،مسلمان،یہودی اور عیسائی اس کی سلطنت میں اسلامی تعلیمات میں دیے گئے حقوق کے عین مطابق متوازن زندگی گزارتے تھے۔ایک بار شاہ فرانس نے عیسائی پادریوں کو خط لکھا کہ میں باہر سے حملہ کروں گا تم اندر سے میرا ساتھ دینا۔پادریوں کے اجتماع کی طرف سے اسے جواب دیا گیا کہ اس ریاست میں ہمیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور ہمارے حقوق کا پورا پورا احترام کیا جاتا ہے،ہمارے باہمی جھگڑوں کے فیصلے کے لیے ہمارا ہم مذہب قاضی تعینات ہے پس محض حکمرانوں کی تبدیلی کے لیے ہم کسی کشت و خون کی خاطر تمہارا ساتھ نہیں دے سکتے۔شاندار حکمرانی کا حامل یہ باشاہ 3رمضان المبارک350ھ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...