دو قانونی سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دنوں جسٹس شوکت صیقی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ملک کے چیف آف آرمی سٹاف سے اپیل کی کہ اپ اپنے ادارے کے شعبہ آئی ایس آئی پہ کڑی نظر رکھیں کہ وہ عدلیہ کے کاموں میں مداخلت نہ کریں یہ ادراہ ججوں کو اپروج کرتا ہے ۔۔ اپنی مرضی کے بیننچ تشکیل کرواتا ہے اور اپنی مرضی کے فیصلے چاہتا ہے ۔۔ بعد میں جسٹس شوکت صدیقی نے ان ریمارکس کو فیصلہ کا حصہ بھی بنا دیا ۔۔۔
پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس شوکت صدیقی کی ان باتوں کا فوری نوٹس لیا اور جسٹس شوکت صدیقی کو نوٹس جا ری کر دیا کہ ۱۱ اگست کو اپنی باتوں کے ثبوت بڑی عدالت میں جمع کرائیں ۔۔
کل بروز جمعرات اسلام آباد کی ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے فیصلے سے جسٹس شوکت صدیقی کے یہ ریمارکس حذف کر دئیے ہیں
سوال یہ ہے کہ کیا فیصلہ سے ان ریمارکس کے حذف ہونے کے بعد کیا چیف جسٹس پاکستان کا شوکت صدیقی کے خلاف لیا گیا نوٹس بر قرار رہے گا ۔۔ جب وہ ریمارکس ہی حذف کر دئیے تو پھر اس نوٹس کی کیا حثیت رہ جاتی ہے
دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ ریمارکس کیوں حذ ف کیے گئے
کیا اس لیے حذف کیے گئے کہ ۱۱ اگست کو ہونے والی سماعت میں اگر شوکت صدیقی اپنے کہے گئے ریمارکس کے ثبوت عدالت میں پیش کر دئیے گے تو پھر کیا ہوگا ۔۔ لہذا فیصلے سے یہ ریمارکس ہی حذف کر دو تاکہ سماعت شروع ہوتے ہی کہا جا سکے کہ وہ ریمارکس حذف کر دئیے گئے ہیں لہذا یہ نوٹس غیر موثر ہوگیا عدالت یہ کیس نمٹا رہی ہے
سوال یہ ہے کہ کیا شوکت صدیقی یہ کہہ سکتے ہیں کہ
نہیں جناب میں اپنے ریمارکس کے ثبوت لے کر آیا ہوں اور میں یہ ثبوت عدالت کو دیکھانا چاہتا ہوں کہ کس طرح آئی ایس آئی عدلیہ میں مداخلت کرتی ہے اور اس پہ بات کرنا چاہتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“