اردو زبان کے مشہور نثر نگار، غزل گو، نعت گو شاعر،محقق اور مصنف پروفیسر ڈاکٹر شریف احمد المعروف عاصی کرنالی 2 جنوری 1927ء کو کرنال میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی نام شریف احمد تھا مگر اپنے شعری تخلص عاصی کرنالی سے شہرت پائی۔
والد کا نام شیخ وزیر محمد تھا۔ تقسیم ہند 1947ء میں کرنال سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور ملتان میں اقامت اختیار کر لی۔
تعلیم میں اعلیٰ ثانوی تعلیم کی تحصیل میں ایم اے اُردو، ایم اے فارسی کیا۔ آپ نے ’’اُردو حمد و نعت پر فارسی روایت کا اثر‘‘ کے عنوان پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز بحیثیت استاد کے شروع ہوا، بعد ازاں ملتان میں گورنمنٹ ملت کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور یہاں سے بطور پرنسپل کے ہی ریٹائر ہوئے۔ سابق وزیرِاعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی بھی ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔
عاصی کرنالی قادرالکلام اور زودگو شاعر تھے۔ ابتدا میں آپ کا شمار غزل گو شعرا میں ہوتا تھا بعد ازاں پھر لالہ زارِ نعت میں بھی آپ کی نعتوں کی گونج سنائی دینے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی نعتوں کے مجموعوں کی تعداد زیادہ ہے۔عاصی کرنالی متحرک شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں کہ جن کی زندگی میں ادبی خدمات ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔زبان و بیان پر قدرت رکھتے تھے۔آپ کی نعتیہ شاعری نعتیہ ادب میں ایک موثر حوالہ ہے۔ مجموعی طور پر 19 کتب تصنیف کیں جن میں 11 شعری مجموعہ جات ہیں۔ مجموعہ ہائے نعت ’’ نعتوں کے گلاب‘‘ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔مشہور محقق عزیز احسن نے عاصی کرنالی کی بابت لکھا ہے کہ:
عاصی کرنالی موضوع کے بھرپو رادراک کے ساتھ شاعری کرتے ہیں۔ اسلوب اظہار میں اعلیٰ سنجیدگی کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کی شاعرانہ مشق اس حد تک ہے کہ وہ جس بات کو جس انداز سے کہنا چاہیں کہہ سکتے ہیں ۔ عاصی کی شاعری میں استعاروں ، تشبہیوں اور علامتوں کا ایچ پیچ بھی نہیں ہوتا۔ وہ مروّجہ بلکہ خاصی حد تک کلاسیکی مزاج کی شاعری کرتے ہیں۔ لیکن اپنے انداز نگارش سے بات میں ندرت کے پہلو پیدا کردیتے ہیں۔
عاصی کرنالی نے 20 جنوری 2011ء کو 84 سال کی عمر میں ملتان میں وفات پائی۔ وہ قبرستان خانیوال روڈ ملتان میں آسودہ خاک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رموز مصلحت کو ذہن پر طاری نہیں کرتا
ضمیر آدمیت سے میں غداری نہیں کرتا
قلم شاخ صداقت ہے زباں برگ امانت ہے
جو دل میں ہے وہ کہتا ہوں اداکاری نہیں کرتا
میں آخر آدمی ہوں کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے
مگر اک وصف ہے مجھ میں دل آزاری نہیں کرتا
میں دامان نظر میں کس لیے سارا چمن بھر لوں
مرا ذوق تماشا بار برداری نہیں کرتا
مکافات عمل خود راستہ تجویز کرتی ہے
خدا قوموں پہ اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتا
مرے بچے تجھے اتنا تو کل راس آ جائے
کہ سر پر امتحاں ہے اور تیاری نہیں کرتا
میں آسیؔ حسن کی آئینہ داری خوب کرتا ہوں
مگر میں حسن کی آئینہ برداری نہیں کرتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد