(Last Updated On: )
حافظ حدیث امام الائمہ
امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ(223-311ھ)
امام ابن خذیمہ کا شمار صف اول کے محدثین میں ہوتاہے،ان کا پورانام محمدبن اسحاق ابن خذیمہ تھا،ان کی کنیت ابوبکر تھی لیکن یہ ”امام ابن خذیمہ“رحمۃاللہ علیہ کے نام سے زیادہ مشہور ہوئے،انہوں نے زیادہ تر امام شافعی ؒکے شاگردوں سے علم حاصل کیا اس لیے فقہ شافعی سے ان کا تعلق بہت مضبوط رہا۔فقہ شافعی سے مرادقرآن و سنت سے قوانین اخذکرنے کاوہ طریقہ ہے جسے سب سے پہلے امام محمدبن ادریس شافعی نے اختیار کیا،اس طرح ابتدامیں مسلمانوں کے ہاں کوئی درجن بھر مکتبہ ہائے فقہ رائج تھے،رفتہ رفتہ کچھ متروک ہوگئے اوراس وقت کل پانچ مکاتب فقہ:فقہ حنفی،فقہ شافعی،فقہ حنبلی،فقہ مالکی اورفقہ جعفری امت میں رائج ہیں۔امت کے کل مشاہیر کسی نہ کسی فقہ سے وابسطہ رہے ہیں چنانچہ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ کاجھکاؤفقہ شافعی طرف بہت زیادہ تھا۔امام صاحب صفر223ھ میں پیداہوئے اورنیشاپورجیساعلمی طورپر سرسبزوشاداب علاقہ ان کی جائے پیدائش ہے۔نیشاپورایک زمانے میں خراسان جیسے تاریخی اعتبار سے اہم ترین صوبے کا دارالحکومت تھاجو آج کل شمال مشرقی ایران میں واقع ہے،اور یہاں سے بے شمار نابغہ روزگارہستیوں نے جنم لیا۔
علم کاحصول اور علمی استنادکی حقیقت اسفارعلمیہ میں پوشیدہ ہوتی ہے۔اسلامی نشاۃ اولی کے دور میں کسی شخص کی علمیت جاننے کے لیے اس کے علمی اسفارکا جائزہ لیاجاتا تھااور جس طالب علم نے حصول علم کے لیے جتنے زیادہ سفر کیے ہوتے اور جتنے زیادہ علاقوں کے علماء سے کسب فیض کیاہوتااس کی استناد علمی اتنی زیادہ تصور ہوتی تھی۔فی زمانہ بھی اس تصورکی باقیات موجودہیں اورملازمت کے لیے آنے والے امیدواران مختلف ملکوں یا مختلف شہروں میں اپنے حصول علمی کے قیام کو بیان کرنا فخرسمجھتے ہیں۔چنانچہ حصول علم حدیث کے لیے امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آبائی علاقہ نیشاپور سے کم و بیش اس وقت کی کل اسلامی دنیاکاسفرکیا۔جن جن علاقوں میں آپ تشریف لے گئے ان میں عراق،شام،مصراور حجازخاص طورپر شامل ہیں۔آپ نے اسحق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن حمیدرحمۃ اللہ علیہ جیسے نابغہ روزگارہستیوں سے کسب حدیث کیاان کے علاوہ مرو میں علی بن حجررحمۃ اللہ علیہ،مصرمیں یونس بن عبدیل رحمۃ اللہ علیہ اورواسط میں محمدبن حرب رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدثین سمیت وقت کے تمام بڑے بڑے علمائے حدیث سے سماع حدیث نبویﷺ کیا۔اسی طرح ایک زمانے تک آپ حدیث کادرس دیتے رہے اور ایک بہت بڑی تعداد نے آپ سے حدیث کو روایت کیاجن میں بعض بڑے بڑے محدثین کے نام بھی ملتے ہیں۔امام الائمہ امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ صرف متن حدیث کے ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے دینی علوم کے ماہر تھے اور رائج الوقت متعدد علوم و فنون پر ان کو دسترس حاصل تھی،خاص طورپر فقہ،استنباط احکام،اسماء الرجال اوراسناد وروایات پر انہیں بے پناہ دسترس حاصل تھی۔فقہ سے مراددین و شریعت کی سمجھ بوجھ ہے،استنباط احکام سے مرادقرن و سنت سے عصری احکام مرتب کرنا ہے جسے اجتہاد بھی کہاجاسکتاہے اوراسماء الرجال سے مراد کم و بیش پانچ سے چھ لاکھ افرادکے حالات زندگی ہیں جنہوں نے محسن انسانیتﷺکی احادیث مبارکہ سن کرآگے بیان کیایاضبط تحریرمیں لے آئے۔امام موصوف کے اکثرہم عصرعلمائے دین ان کے حافظے پر انحصارواعتمادکیاکرتے تھے۔خودامام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے مجھ پر اللہ تعالی کاخصوصی کرم ہے کہ احادیث میرے حافظے میں محفوظ رہتی ہیں۔حافظ ابوعلی نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ کو احادیث اسی طرح یاد تھیں جس طرح حفاظ کو قرآن کی سورتیں یادہوتی ہیں۔
”سنن التحدیث“امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہکا تالیف کردہ مجموعہ احادیث نبویہ ﷺہے جسے ”صحیح ابن خزیمہ“بھی کہاجاتاہے۔احادیث نبویﷺکی کتب کوعلماء نے کئی اقسام میں تقسیم کیاہے:’
’الجامع الصحیح“وہ کتب ہیں جن میں ہمہ قسم کی کل احادیث نبویہ ﷺمرتب کردی گئی ہوتی ہیں۔
”مسند“کتب احادیث کی وہ قسم ہے جس میں ہر صحابی کی روایت کردہ احادیث نبویﷺکوایک جگہ جمع کردیاگیاہوتاہے۔
”سنن“حدیث کی اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں احادیث نبویﷺ کو فقہ کی ترتیب سے جمع کیاگیاہوتاہے۔اور
”اربعین“حدیث نبویﷺکی ایسی کتاب ہوتی ہے جس میں چالیس احادیث نبویﷺدرج کی جاتی ہیں،وغیرہ۔
چنانچہ ”سنن التحدیث“امام ابن خذیمہ کی تدوین میں کتب فقہ کی ترتیب کو پیش نظررکھاگیاہے یعنی کتاب کی تبویب میں پہلے طہارت کے مسائل ہیں پھرعبادات کے اور پھر معاملات کے۔اس کتاب میں امام موصوف رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عرق ریزی سے احادیث کو جمع کیاہے،ان کی اسناد کا بڑی تفصیل سے ذکر کیاہے،اسناد سے مرادحدیث نبویﷺکو جس جس راوی نے بیان کیااس کی ساری تفصیل درج کردی ہے۔احادیث کے متن کوبھی بڑی عمدگی کے ساتھ ترتیب وار درج کیاہے،،متن سے مراد حدیث نبویﷺکا وہ حصہ ہے جس میں قول رسولﷺ،فعل رسولﷺیا سکوت رسولﷺ درج کیاگیاہوتاہے۔متن سے جوجواحکام جس جس طرح سے ان کااستنباط ہو سکتاہے ان طریقوں کو بھی درج کر کے تو وہ احکام مرتب کیے ہیں،احکام و قوانین کے نکالنے میں ائمہ فقہ کے درمیان جو اختلافات تھے امام موصوف نے ان کا بھی بڑی تفصیل سے ذکر کیاہے اورپھر کن کن بنیادوں پر کس کس امام نے اس حدیث کو قبول کیایانہیں کیااس کا بھی اس کتاب میں ذکر کیاہے۔امام ابن خزیمہ کے اس اتنے بڑے کارنانے پر ابوالفضل صالح نے تبصرہ کرتے ہوئے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاہے کہ”اللہ تعالی میری امت میں ہر صدی کے اندر ایک مجددبھیجے گا“پس ابوالفضل صالح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلی صدی میں حضرت عمربن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ،دوسری صدی میں امام محمدبن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور تیسری صدی کے مجدد امام محمدبن اسحاق ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔کچھ علمانے لکھاہے کہ ”صحیح ابن خزیمہ“کاکچھ حصہ امتدادزمانہ کی نذرہوگیاہے اور یہ کتاب بعدمیں آنے والوں تک مکمل حالت میں نہیں پہنچی۔لیکن پھربھی ماضی قریب میں اس کتاب کے بعض اجزاکو جمع کر کے اس کی تکمیل کی کوشش کی گئی ہے اورڈاکٹرمحمدمصطفی اعظمی نے اس کتاب کی تدوین نو کی ہے اور تین جلدوں میں مکتب الاسلامی بیروت سے اس کتاب کو شائع کیاگیاہے۔
احادیث نبویﷺکی تدوین و تحریرمیں کل ائمہ احادیث انتہائی حزم و احتیاط برتتے تھے۔ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کبھی مجھے کچھ تحریرکرناہوتاتھاتو پہلے میں استخارہ کرتاتھا تب اس کی روشنی میں کچھ فیصلہ کیاکرتاتھا۔ایک اور موقع پر ایک شاگردنے سوال کیاکہ آپ اتناعلم کیسے سمیٹ لیتے ہیں تو اس کاجواب دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کاارشاد مبارک ہے کہ ”زم زم کاپانی جس نیت سے پیاجائے وہ پوری ہوتی ہے“توامام موصوف رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ میں نے زم زم کاپانی علم نافع کی نیت سے پیاتھا۔اسی طرح ایک بار ایک طالب علم نے آپ سے حفظ علوم کے بارے میں دریافت کیاتوآپ نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی اور اسے جواب دیا مجھے نہیں یادکہ میں نے کچھ بھی کبھی لکھاہواور وہ مجھے بھول گیاہو۔امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اکثر کہاکرتے تھے انسان کاقول نبیﷺ کے قول کے برابر نہیں ہو سکتااور انہوں نے اپنے شاگردوں سے یہ وعدہ لیاہواتھاکہ جب کبھی بھی میرے کسی قول کے مقابلے تم تک نبیﷺکی کوئی حدیث پہنچ جائے تو میرے قول کو چھوڑ دینا۔آپ سے منسوب کتب کی کل تعداد ایک سو چالس سے متجاوزہے۔آپ نے 88سال عمر پائی،بدھ کے دن بیمارہوئے اورمختصرعلالت کے بعد 2ذوالقعدہ 311ھ ہفتہ کے دن بعد نمازعشاء اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔آپ کونیشاپورمیں آپ کے گھر کے احاطے میں ہی ایک کونے میں دفنادیاگیابعد میں وہیں آپ کا مقبرہ تعمیر کیاگیا۔ابوسعیدعمروبن محمدرحمۃ اللہ علیہ نے بتایاکہ وہ امام رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے وقت ان کے پاس موجود تھے جب ان کی زبان پر کلمہ شہادت جاری تھاااورانکی شہادت والی انگلی متحرک تھی۔اللہ تعالی انہی غریق رحمت کرے،آمین۔
محسن انسانیت ﷺکی احادیث کے جمع وتدوین میں جس قدر کاوش کی گئی ہے اور اس علم کی حفاظت اورصحت کا جس قدر خیال رکھاگیاہے،تاریخ انسانی میں اس کی کوئی مثال عنقا ہے۔اللہ تعالی نے ایسا انتظام کیاکہ محسن انسانیتﷺکے فوراََبعد اصحاب رسولﷺکے ہاتھوں سے قرآن کی جمع و تدوین کاکام لے لیااور تابعین وتبع تابعین،فقہاء کرام اور محدثین عظام سے احادیث رسولﷺ کی جمع تدوین کاکام لے کر اس مقدس ذخیرے کوتاقیامت محفوظ و مامون کردیا۔صدیوں پر صدیاں گزرگئیں لیکن گلستان حدیث نبویﷺآج بھی سرسبزوشاداب ہے اور قال قال اللہ تعالی اور قال قال رسول للہ ﷺکی صدائیں آج بھی ممبرومحراب سمیت کل بلاد انسانی سے بلندہوتی چلی آئی ہیں،ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی،انشاء اللہ تعالی اور یہ امام ابن خذیمہ جیسے بزرگ لوگوں کی کاوش سعیدہ کا ثمر مبارک ہے۔