65 کی جنگ: قسط 4
6 ستمبر صبح ساڑھے پانچ بجے انڈین فوج نے لاہورکی طرف پیش قدمی کی، ہمارے جنرل، جی ایچ کیو، آئی ایس آئی۔۔سب اس وقوعے کی پیشگی خبرسے بے خبر تھے۔ ظاہر ہے یہ قومی سلامتی کے ان اداروں کی بہت بڑی ناکامی تھی۔ پاک فوج کو لاہورسیالکوٹ کے بارڈر پرمحتاط اور تیار ہونا چاہئے تھا۔ چند انفنٹری بٹالینز تھی، جو صبح کے وقت اپنی معمول کی پی ٹی کررہی تھی!! یہ ائرفورس تھا جس کو سب سے پہلے انڈین فوج کی لاہورکی طرف ایڈوانسمنٹ کی خبرہوئی اورانہوں نے اسے جی ایچ کیو تک پہنچایا۔ جی ایچ کیو میں فوج کی ہائی کمانڈ اپنے وہم میں سوئی ہوئی تھی کہ انڈیا انٹرنشینل بارڈ پرحملہ نہیں کرے گا۔ بے خبری کا سب سے زیادہ نشہ فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب کو تھا۔ جب کہ وہ کشمیرپرانڈیا کے ساتھ خطرناک حد تک کی مہینوں سے پنگے بازی میں شریک تھے۔ اور انڈیا کئی بار پاکستان کو ملڑی ایکشن کی دھمکیاں دے چکا تھا۔ بہرحال پاکستانی فوج نے انڈیا کو خوب مزاحمت دی، اور وہ اپنے سرپرائز حملے کا اتنا فائدہ نہ اٹھا سکا۔۔جتنا وہ چاہ رہا تھا۔ کہ شام کو لاہور جم خانے میں جا کر شراب و کباب کا جشن منائیں گے۔ انڈیا میں پاکستانی ہائی کمشنر ترکی کے سفیر کی وساطت سے پاکستان وزارت خارجہ کو اطلاع دے چکا تھا کہ انڈیا 6 ستمبرکو انٹرنیشنل بارڈ پرحملہ کرنے والا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو اور سیکرٹری خارجہ عزیز احمد نے اس اطلاع کو دبا دینے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ وہ تو پہلے دن سے جنرلوں کو یقین دلا رہے تھے، کہ انڈیا ایسا نہیں کرے گا۔
اور پھر اس کے بعد 17 روز تک پاکستان اور انڈیا کے درمیان بری، بحری، فضائی شدید جنگ ہوئی۔ ریڈیو پاکستان نے سچی جھوٹی فتوحات اور مزاحمت کی خبریں نشر کرتا رہا۔ حب الوطنی میں اخباریں بھی اسی طرح کے فل مبالغہ آمیز پروپیگنڈے اور جوش و جذبات سے بھری ہوتی تھی۔انڈیا کے طیاروں کو گرانے، ٹینکوں کو تباہ کرنے تصویریں ہوتی۔ عزیز احمد نے یہ مشورہ بھی دے دیا کہ لاکھوں کے تعداد میں پمفلٹ چھاپ کرائرفورس کے زریعے امرتسر شہر پر پھینکے جائیں۔ جس میں سکھوں کو یقین دلایا جائے کہ پاک فوج ان کو 'آزاد' کرانے آ رہی ہے۔۔ ادھر پھر ایک بار قبائلی 'گل خانوں' کے جتھوں کو لاہور محاز پر سپورٹ کے لیےبھیجا جانے لگا۔۔ انہوں 1948 کشمیر جنگ کی طرح پھر راستے میں لوٹ مار شروع کردی۔۔ان گل خانوں سے جنرل حمید بہت پریشان ہوا۔۔ کہ وہ ان کے لئے پنجاب میں پہاڑی علاقہ وہ کہاں سے لاتا۔۔ جہاں یہ اپنی روائتی صلاحیت آزما سکتے۔
ادھرہماری ریاست کا پروپیگنڈا اس قدر شدید تھا۔ کہ لوگوں کو یقین ہو چکا تھا کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں، ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا۔۔ اور ہندو بزدل کو شکست یقینی ہے۔ ہرے چولوں والے بزرگوں نے بھی بھارتی ائیر فورس کے گرائے گے بم اپنی جھولیوں میں اٹھانے شروع کردیئے۔ سیالکوٹ اور لاہور کی آبادی ان شہروں کو خالی کرکے بھاگ چکی تھی۔ اور بھاگنے والوں کی کاروں اور بسوں کے پیچھے لکھا ہوتا تھا۔۔ Crush India ۔ مجھے وہ خود جنگ کا زمانہ یاد ہے اور ہم سیالکوٹ سے گوجرانوالہ کے نزدیک کسی عزیز کے گاوں جا کرپناہ لی تھی۔ ہر دوسرے روز بھارئی ائیرفورس سیالکوٹ پر بمباری کرنے آجاتی، سائرن بجتے، بلیک آوٹ ہوتا۔ لیکن ہماری ائرفورس غائب ہوتی، اپنے وقت کے سب سے وزنی اور خوفناک بم سیالکوٹ قلعے پرپھینکے گے۔ جس سے قلعے کے ارد گرد ساری آبادی، محلے، بازار تباہ ہوگے تھے۔ انڈین توپوں کے گولے رنگ پور محلے میں گھروں پر پڑے تھے۔ ہمارے ایک عزیز کا گھر تباہ ہوا تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“