65 کی جنگ: قسط 3
جنرل موسی کو بھی صحیح صورت حال سے مطلع نہیں کیا جارہا تھا۔ علاقوں کی فتوحات اور فوج کے ایڈوانس کرنے کی مشکوک اور مبالغہ آمیز خبریں دی جا رہی تھی۔ آپریشن گرینڈ سلام کو بالآخر 31 اگست کو لانچ کیا جاتا ہے، جسے بھارتی فوج کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے۔ 2 ستمبرتک آپریشن گرینڈ سلام کا ستیاناس ہوچکا تھا۔۔چنانچہ جی ایچ کیو سے آرڈرجاری ہوئے کہ جنرل اختر ملک سے کمانڈ لے کرجنرل یحی کو دے دی جائے۔جوجنگ کو اعلی افسر کمانڈ کر رہے تھے۔ وہ بالکل ناکام ہورہے تھے۔ بھارتی فوج کے بارے لگائے گے اندازے میدان جنگ میں غلط ہورہے تھے۔ جب گرینڈ سلام آپریشن بھی ناکام ہونے لگا، تو ہماری سائڈ میں مایوسی پھیلنی شروع ہوگئی۔ حالات ہمارے جنرلوںکے ہاتھ سے نکل رہے تھے۔ اگرچہ کچھ بھارتی پوسٹوں پرپاکستانی فوج نے قبضہ کرلیا ہوا تھا۔ جنرل ایوب نے بھٹو اور جنرل موسی کو بلایا، اور سچی صورت حال بتانے کوکہا۔ جنرل موسی نے بتایا کہ جبرالٹر تو مکمل ناکام ہوچکا ہے۔ اور گرینڈ سلام کو بھی منجمد کیا جارہا ہے۔اپنے نقصانات کوکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپریشن کوبندکردیاجائے۔ اس سے ممکن ہے کہ بھارت کو کچھ اچھا پیغام جائے اور مزید محاز کھولنے سے باز رہے۔ اس دوران جنرل اخترملک ہائی کمان کی نظروں میں اپنا اعتماد کھو چکا تھا۔ ادھرپاکستانی اخباروں اور ریڈیو پاکستان پر قوم کو تصوراتی فتوحات، فوجوں کی پیش قدمی کی خبروں اور جنگی ترانوں سے خوب بے وقوف بنایا جارہا تھا۔ کمانڈ کی تبدیلی کی خبر کوایسے چلایا گیا جیسے فتح کو حاصل کرنے کا یہ کوئی بہت اہم قدم ہے۔ طارق بن زیاد کی کشتیاں جلانے والے قصے سنائے جارہے تھے۔ چینج آف کمانڈ کے فیصلے پربھی بعد میں تنقید کی گئی۔ کہ اس سے جنگ کے نہائت اہم 24 گھنٹےضائع ہوگے۔ اس دوران انڈیا کو اپنی پوزیشن بہتر کرنے کا موقع مل گیا۔ بہرحال الطاف گوہراس رائے سے اختلاف کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آپریشن جبرالٹراور گرینڈ سلام کے بہت سے پہلو پراسرار ہی رہے۔
ادھر ہمارے جنرلوں اور وزیر خارجہ بھٹو کا یہ اندازہ کہ انڈیا لاہوراورسیالکوٹ کا محاز نہیں کھولے گا۔۔ وہ غلطان عظیم ثابت ہوا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔