65 کی جنگ: قسط 2
آپریشن جبرالٹر:
دسمبر 1964 میں ہمارے فارن آفس اور 'لمبرون' ایجنسی نے جنرل ایوب کو ایک پلان بنا کردیا۔ کہ کشمیر میں 'درانداز' داخل کئے جائیںَ لیکن جنرل ایوب نے کچھ مشیروں کے کہنے سے اسے وقتی طور ٹال دیا۔ 1965 میں جنرل ایوب دوبارہ صدر منتخب ہونے پر اس پلان پرپھر غورشروع ہوا۔ پہاڑی علاقوں کی جنگی مشقیں خفیہ طور پرشروع ہوگئ۔فروری 65 میں جنرل ایوب، جنرل موسی، وزیر خارجہ بھٹو، اور سیکرٹری خارجہ عزیز احمد کی ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں ائرفورس اور نیوی کے نمائندے نہ بلائے گے۔ جنرل صدر ایوب کو جنرل اختر حسین ملک کا تیار کردہ ایک اور پلان دکھایا گیا، جس کا نام 'آپریشن جبرالٹر' تھا۔ پلان کے مطابق اکھنور پرقبضہ کرنا تھا۔ مزید مباحثہ کے بعد پلان میں کچھ تبدیلیاں کی گئی، اور اس کا نام 'آپریشن گرینڈ سلام' رکھ دیا گیا۔ جنرل ایوب نے اس پلان کے لئے اضافی وسائل مختص کردیئے۔ یہ بھی کنفیوزن رہی، کہ بعد ازاں جو کچھ ہوا، وہ آپریشن جبرالٹرتھا یا گرینڈ سلام تھا۔ ائرمارشل اصٖغرخان نے رن آف کچھ میں بھی ائرفورس کو الگ تھلگ رکھا، اور وہ جولائی 65 میں ریٹائرڈ ہوگے۔ بھٹو نے بطور وزیرخارجہ جنرل ایوب کو ایک خط لکھا، جس میں کہا گیا، کہ انڈیا چین کی وجہ سے پاکستان پرحملہ کرنے کا رسک نہیں لےگا۔ اور ہم انڈیا سے بہتر پوزیشن رکھتے ہیں۔ جنرل موسی کو بھٹو کی رائے سے اتفاق نہیں تھا۔ لیکن بھٹودیگرجنرلوں کو اپنی بات منوا چکا تھا۔ مشہور اسلامی جنگجووں کے نام پر پانچ گروپ بنائے گے۔ 4000 مجاہدین تیارکئے گے اور ان کو کشمیر سے انڈین کشمیر کی طرف خفیہ طورپرداخل کرا دیا گیا۔ انڈیا کا دعوی تھا کہ یہ لوگ 30 ہزار تھے۔ ادھر انڈیا نے کشمیر میں انٹی انڈیا کشمیری لیڈروں اور تنظیموں پر کریک ڈاون شروع کردیا۔۔اگرچہ ہمارے جی ایچ کیو میں کو 'کشمیرسیل' بنایا گیا تھا۔اس کو مختلف رپورٹیں دی جارہی تھی۔ جو 'مجاہدین' یہاں سے داخل کئے گے، وہ جب بھارتی کشمیر پہنچے، تو ان کو کشمیرزبان نہیں آتی تھی۔ وہاں کا ناپ تول کا نظام ان کو پتا نہ تھا۔۔وہ پہچانے تھے کہ یہ پاکستان کے بھیجے ہوئے لوگ ہیں۔۔مقامی کشمیر ی نہیں۔گوہرایوب اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جنرل اختر ملک کا پلان نہائت ناقص تھا۔ بھارت نے اپنی فوجیں فوری متحرک کی اور جو داخلے کے پوائنٹس تھے ان کو بند کرنا شروع کردیا۔ 28 اگست کوانڈین فوج نے ایک اہم جگہ 'حاجی پیر پاس' پر قبضہ کرلیا۔ جنرل موسی بھٹو کے گھر دوڑتا ہوا گیا، اور اس کو خبر تھی، کہ پاکستانی فوج مشکل صورت حال میں آگئی ہے۔ اور کہا، کہ فوری طور پر جنرل ایوب سے سیکنڈ پلان 'گرینڈ سلام' کی اجازت لی جائے، اور اسے لانچ کیا جائے۔ بھٹو نے چین کے سفیرسے بھی ملاقات کی۔ چین نے گوریلا جنگ کی کچھ ترکیبیں بتائی۔ اس دوران پاکستانی سائڈ پراس خدشے پرصلاح مشورے ہوتے رہے، کہ انڈیا انٹرنیشنل بارڈ کو کھولے گا یا نہیں۔ ان کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ معاملہ 'ورکنگ بونڈری' تک ہی رہے گا (سیالکوٹ ٹو جموں)۔ جنرل ایوب اس وقت سوات میں آرام فرما رہے تھے۔ انہوں نے بھٹو کو ہدائت دی، کہ مسئلہ کشمیر کو گرم کیا جائے۔ انڈیا کو کانفرنس میز پر آنے پرمجبور کیا جائے۔ 'ہندو بزدل ہوتا ہے' ایک دو چوٹیں کھا کرسیدھا ہوجائے گا'
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔