65 کی جنگ: قسط 1
تقسیم کے وقت سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کا تنازعہ چل رہا تھا۔ دونوں ریاستیں اپنی اپنی جگہ پر ایسی پوزیشنیں (شاہ رگ اور اٹوٹ انگ) لے چکے تھی، جس سے مسئلے کا حل ناممکن ہو چکا تھا۔1963 میں انڈیا نے کشمیر کو اپنے ساتھ ضم کرنے کے مزید اقدامات کئے یہ کہہ کرکہ پاکستان نے کشمیر کا کچھ حصہ چین کو تحفہ میں دے دیا ہے۔ سن 1964 ، 65 کے درمیان دونوں ملکوں میں کشمیر تناو بڑھتا رہا۔ اس دوران وزیرخارجہ بھٹو نے کوشش کی امریکہ سے ایسے جاسوسی طیارے لئے جائیں جو بھارتی کشمیر پر اور فلائی کرکے بھارتی فوج کی نقل و حمل کی اطلاعات دے سکیں۔ لیکن امریکہ نے پاکستان کی ان درخواستوں کو رد کردیا۔ مارچ 1965 میں سندھ میں رن آف کچھ کے دلدلی سرحدی علاقے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بارڈر پولیس جھڑپیں شروع ہو گئی۔ چند دن بعد دونوں ملکوں کی فوجیں بھی ان جھڑپوں میں شریک ہوگئی۔ پاکستان نے اس میں امریکہ کے دیئے ہوئے وہ ٹینک استمعال کئے جو امریکہ نے ہمیں کمیونسٹ ملکوں کے خلاف ممکنہ استعمال کے لئے دیئے تھے۔ جس سے امریکہ نے پاکستان سے ناراضگی کا اظہارکیا۔ رن کچھ جیسے علاقے میں کوئی خاص فوائد نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن اس سے بین الاقوامی میڈیا میں ہندوستان پاکستان کے تصادم کو شہرت ملی۔ اس سے پاکستانی سائڈ کو مزید حوصلہ ملا، رن آف کچھ کی لڑائی سے پاکستان میں پروپیگنڈے پاکستانی عوام کی امیدیں بڑھائی گئ کہ پاکستانی فوج انڈین فوج کا مقابلہ کرسکتی ہے۔اور جیت سکتی ہے۔ ہم کشمیر پربھارت کی ہڈ دھرمی کو توڑ سکتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگجو اور عسکریت پسندانہ جذبات کو ابھارا گیا۔ انڈیا نے بھی 6 ڈویژن (سوا لاکھ) فوج پاکستان کے بارڈرز پر لگا دی۔ 1964 میں شیخ عبداللہ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ جنرل ایوب خان نے وزارت حارجہ کو ہدائت دی، کہ مسئلہ کشمیر کو سرد خانے سے نکال کر'گرم' کیا جائے۔۔چنانچہ وزارت خارجہ، سیکورٹی ایجنسیون اور جی ایچ کیو کے درمیان میٹینگیں شروع ہو گئی، پاکستانی سائڈ کے مفروضے یہ تھے کہ اگرکشمیر کی طرف پاک فوج کو آگے کیا جائے تو اس کے ساتھ انڈین کشمیر میں پاکستان کی حمائت میں مظاہرے اور فسادات شروع ہو جائیں گے۔اور بھارت چین کی مداخلت سے ڈرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ آل اوٹ جنگ شروع نہیں کرے گا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“