جب آپ ماضی سے آنکھ بند کر لیتے ہیں تو آنے والے وقت سے بھی نابینا ہو جاتے ہیں۔
یہ فقرہ کرونا وائرس کی موجودہ وبا میں خاص طور پر متعلقہ ہے۔ ماضی پر نظر ہمیں ماضی میں کی جانے والی بڑی غلطیوں کے سبق دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، “اِس کو چُھپا لیا جائے” کس قدر ہولناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ تو ایک موازنہ آج کی وبا کا آج سے سو سال پہلے ۱۹۱۸ سے ۱۹۲۰ تک جاری رہنے والی عالمی وبا سے۔
دنیا میں جاری وبا کے مہلک اثرات کے باوجود کئی لوگ یہ کہتے سنائی دیں گے کہ اتنے بڑے پیمانے پر اقدامات کیوں؟ اس میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تعداد تو دوسرے طریقوں سے ہوتی ہے۔ مثلاً، یہ درست ہے کہ موسمی فلو سے سالانہ ساڑھے چھ لاکھ اموات ہوتی ہیں اور اس بیماری کے بارے میں ہم زیادہ فکرمند نہیں ہوتے۔ لیکن اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اس بیماری سے واقف ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ ہر سال آئے گی۔ کسی سال زیادہ اور ہم اس کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی چیز کووڈ ۱۹ کی طرح اچانک ہی سامنے آ جائے جس کے خلاف مدافعت نہیں اور آبادی میں تیزی سے پھیلنے والی ہے اور اس میں مرنے والوں کی شرح موسمیاتی فلو کے مقابلے میں بیس سے تیس گنا زیادہ ہے تو یہ سنگین عالمی مسئلہ ہے۔ خاص طور پر موجودہ دنیا میں، جہاں تیزرفتار سفر آسان ہے۔ جراثیم اب جس قدر تیزرفتار سے پھیل سکتے ہیں، ایسا تاریخ میں پہلے نہیں تھا۔
چین، اٹلی اور دوسرے ممالک میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے مریض جنہیں ہسپتال میں توجہ کی ضرورت پڑتی ہے، ان کا اضافہ اچانک اور بہت تیزی سے ہوتا ہے۔ اس قدر تیزی سے جس سے دنیا کا بہترین نظامِ صحت بھی مقابلہ نہیں کر پاتا۔ وبا اپنے ساتھ معاشی سرگرمیاں بند ہو جانے کی وجہ سے مالی نقصان اور بدحالی لے کر آتی ہے۔ ایسا کرنا اس وائرس کو روکنے کے لئے ضروری ہے اور یہی اس وقت آنے والے کسادبازاری کی وجہ بھی ہے۔ اس کے خلاف اچھی حکمتِ عملی جانی اور مالی نقصان کو کم سے کم رکھنے میں مدد کر سکتی ہیں۔
پچھلے سالوں میں کئی وبائیں آتی رہی ہیں جو کسی علاقے تک رہیں۔ اس میں فلو، کرونا وائرس (سارس اور مرس) اور ایبولا جیسی وبائیں شامل ہیں۔ لیکن آخری بڑی عالمی وبا دیکھنے کے لئے ہمیں سو سال پہلے جانا ہو گا۔ معلوم تاریخ میں قرونِ وسطیٰ میں طاعون کے بعد آنے والا سب سے بڑا صحت کا بحران ۱۹۱۸ کا سپینش فلو تھا۔ اس وقت دنیا کی ایک تہائی آبادی اس کا شکار ہوئی تھی۔ یعنی ایک ارب اسی کروڑ میں سے ایک تہائی اس کا شکار ہوئے تھے جبکہ ان میں سے مرنے والوں کی تعداد کا عدد پونے دو کروڑ سے پانچ کروڑ کے بیچ کا تھا۔ یہ اعداد اس چیز کی سنجیدہ وارننگ ہے کہ قابو سے باہر ہو جانے والی وبائیں کیا کچھ کر سکتی ہیں۔
اس وقت دنیا آج سے مختلف تھی۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کا وقت تھا۔ ابھی ہمیں وائرس یا ان سے لگنے والی بیماریوں کے بارے میں بہت ہی کم علم تھا۔ اب ہم جانتے ہیں کہ سپینش فلو H1N1 انفلوئنزا وائرس کی وبا تھی۔ یہ وائرس پرندوں اور ممالیہ میں عام ہے۔ اسی وجہ سے اس کے سٹرین کو برڈ فلو یا سوائن فلو بھی کہا گیا ہے۔ ان کے قریب رہنے کی وجہ سے یہ انواع میں پھلانگ گیا ہے۔ ہمیں ٹھیک علم نہیں کہ سپینش فلو کیسے شروع ہوا۔ اس کو سب سے پہلے برٹش فوجی ہسپتال میں ۱۹۱۸ مین شناخت کیا گیا۔ خیال یہ ہے کہ شاید یہ اس سے کافی پہلے پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔
جنگ ختم ہوئی۔ فوجی واپس آنے لگے۔ انفیکشن دنیا بھر میں پھیلنے لگی۔ یورپ، امریکہ اور برطانوی سلطنت کے ممالک میں۔ اور بالآخر تمام دنیا میں۔ یہاں تک کہ الاسکا کے جنگل اور بحرالکاہل کے جزائر بھی محفوظ نہیں رہے۔
یہاں پر یہ یاد رہے کہ سپینش فلو اور کووڈ ۱۹ کے وائرس بہت مختلف ہیں اور الگ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سپینش فلو انفلوئنزا کے جبکہ کووڈ ۱۹ کرونا وائرس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی سن ۲۰۰۰ سے ۲۰۰۳ تک رہنے والے سارس وائرس کے خاندان کا ہے۔ اگرچہ دونوں بیماریوں کی علامات میں کچھ مطابقت ہے۔ بہت سے کرونا وائرس انسان کو متاثر نہیں کرتے یا اگر کرتے ہیں تو زیادہ سنجیدہ بیماری کا باعث نہیں کرتے لیکن مرس، سارس اور اب کووڈ ۱۹ حال میں ہی جانوروں سے پھلانگ کر انسان میں پہنچے ہیں۔
کووڈ ۱۹ کے اسی فیصد کیسز میں علامات معمولی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کئی اس سے بے خبر ہجوم والی جگہوں پر بھی جاتے ہیں، کام پر بھی، دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی ملاقات کرتے ہیں اور اس دوران بے خبری میں وائرس پھیلانے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ جبکہ باقی بیس فیصد کو میڈیکل توجہ کی ضرورت پڑتی ہے۔
جب یہ تعداد بڑھنے لگے تو یہ اعداد و شمار کی کھیل بن جاتی ہے۔ ہسپتال کی جگہ یا آلات کافی نہیں رہتے۔ مریض اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ روپذیر ہوتا ہوا کئی جگہ پر ہم دیکھ چکے ہیں۔ اس سے ہونے والا اگلا مسئلہ یہ ہے کہ عام حالات میں بھی لوگوں کو بیماریوں، حادثات یا دوسری تکالیف کی وجہ سے ہسپتال کی ضرورت رہتی ہے۔ میڈیکل سسٹم ان سب کو توجہ نہیں دے پاتا۔
سپینش فلو دنیا میں جس وقت آیا تھا، یہ جنگِ عظیم کا آخری سال تھا۔ ہر ملک میں اس کی خبر اس لئے چھپائی گئی تھی کہ دوسرے اس کی کمزوری سے واقف نہ ہو جائیں اور ملک میں لوگوں کا مورال نہ گرے۔ اس کی وجہ سے جنگ میں نقصان کا خدشہ تھا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں خبر دینے پر سنسر شپ تھی۔ سپین جنگ کا حصہ نہیں تھا۔ یہاں پر اس وائرس کی خبریں آیا کرتی تھیں۔ اس لئے یہ سپینش فلو کہلایا۔ آگاہی کا نہ ہونا ایک انتہائی مہلک فیصلہ ثابت ہوا۔ اس وقت لوگوں میں صحت اور ہائی جین کا معیار مجموعی طور پر آج کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ عالمی غربت اور بھوک بہت زیادہ تھی، خاص طور پر جرمنی میں۔ ایندھن اور غذا کی کمی تھی۔ جس کی وجہ سے عالمی آبادی میں سکروی، تپدق، پیچش جیسے امراض بہت زیادہ تھے۔ کمزور امیون سسٹم کی وجہ سے بیماری کا ہو جانا آسان تھا۔
سپینش فلو اور کووڈ ۱۹ مختلف وائرس ہیں لیکن دونوں پھیپھڑوں پر موسمیاتی فلو کے مقابلے میں زیادہ شدت سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ سپینش فلو نوجوان اور فِٹ لوگوں کے لئے زیادہ مہلک رہا۔ بیس سے چالیس سال کی عمر کے لوگ زیادہ ہلاک ہوئے۔ یہ ایک فوجی کی اوسط عمر تھی۔ بہت سے ہلاک ہونے والوں میں امیون سسٹم کا سائیکاٹون طوفان وجہ بنا۔ اس میں امیون سسٹم کے اپنے پروٹین سائیکوٹون پھیپھڑوں میں سیلاب لے آتے ہیں اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس سے سیکنڈری بیماری بیکٹیریا کی وجہ سے ہونے والا نمونیا ہوتی ہے۔ جبکہ کووڈ ۱۹ ابھی تک عمررسیدہ افراد کے لئے یا صحت کے مسائل والے افراد کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ (اس کا مطلب یہ نہیں کہ کم عمر والے یا نوجوان محفوظ ہیں، صرف یہ کہ تناسب میں فرق ہے)۔
کووڈ ۱۹ کے پھیلنے کی رفتار عام فلو کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ہر متاثر فرد دو سے تین افراد میں یہ بیماری منتقل کرتا ہے۔ موسمیاتی فلو میں یہ عدد 1.3 کا ہے۔ اٹلی اور چین سے آنے والی انفارمیشن یہ بتا رہی ہے کہ سنجیدہ ہونے والے مریضوں میں وائرس پھیپھڑوں پر جارحانہ وار کرتا ہے۔ اس میں سوجن اور پانی بھر جانا سیکنڈری بیکٹیریل انفیکشن نمونیا کا سبب بنتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ وائرس دل پر براہِ راست حملہ آور ہوتا ہے۔ جو لوگ دل کا کوئی عارضہ رکھتے ہیں، (خواہ انہیں خود اس کا علم ہو یا نہیں)، ان میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سپینش فلو میں جس طرح سائیکوٹون طوفان لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنے، وہ بھی کووڈ ۱۹ کے بدترین متاثرین میں عام ہیں۔ اور اگر اس طرف میڈیکل توجہ نہ ملے تو عام طور پر مہلک ثابت ہوتے ہیں۔
خوش قسمتی یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں سارس کی وجہ سے اس کی تشخیص اور سائیکوٹون طوفان کے علاج کے بارے میں سیکھا جا چکا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ میڈیکل پروفیشنلز اس سے آگاہ ہوں اور اس کی جلد شناخت کر سکیں۔ جو لوگ کووڈ ۱۹ کے بدترین اثرات کا شکار ہونے کے بعد بچ گئے ہیں، ان کے پھیپھڑوں پر پڑنے والے زخم اور نقصان مستقل ہے۔
جہاں تک مورٹیلیٹی ریٹ کا تعلق ہے، یعنی مرض ہو جانے کے بعد ہلاک ہونے کا امکان کتنا ہے۔ سپینش فلو کے بارے میں جمع ہونے والے ریکارڈ بہت اچھے نہیں لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ یہ 2.5 فیصد کے قریب تھا۔ عام فلو میں یہ 0.1 فیصد ہے۔ کووڈ ۱۹ میں شرح سپینش فلو کے قریب کی ہی لگ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ عام فلو کے مقابلے میں یہ بیس سے تیس گنا زیادہ مہلک بیماریاں ہیں۔ عمر رسیدہ افراد میں یہ تناسب چودہ فیصد کے قریب ہے۔ لیکن اس کا تعلق عمر سے زیادہ میڈیکل کنڈیشن سے ہے۔ نوجوان لیکن میڈیکل کنڈیشن کے شکار فرد کیلئے زیادہ عمر کے فٹ فرد کی نسبت خطرہ زیادہ ہے۔
اب ایک اہم سوال: سپینش فلو ختم کس طرح ہوا؟ یہ پہلی لہر کے بعد ختم نہیں ہو گیا تھا۔ اس کی دوسری لہر آئی، جو پہلی لہر کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا تھی۔ یہ جان لیوا میوٹیشن فرانس، امریکہ اور سیرا لیون میں پھیلی۔ پہلی لہر میں جو سویلین زیادہ بیمار ہوئے، وہ گھروں میں رہے اور جو لوگ کم بیمار ہوئے، وہ کام کرتے رہے اور بیماری پھیلنے کا باعث بنتے رہے۔ فوجیوں میں جن کو ہلکی بیماری تھی، وہ مورچوں میں رہے اور جن کو جان لیوا مرض تھا، وہ واپس آئے اور ان کے ساتھ اس میوٹیشن کا سٹرین ہسپتالوں میں پھیلا اور پھر عام آبادی میں۔
موجودہ وبا میں وائرولوجسٹ اسی چیز کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ جہاں لوگ زیادہ تعداد میں اکٹھے ہوں یا سوشل نظم و ضبط نہ ہو، وہاں پر جان لیوا سٹرین کے پھیلنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
سپینش فلو کا عروج اکتوبر ۱۹۱۸ میں آیا۔ نومبر میں یہ کیس بہت تیزی سے کم ہوئے۔ اس کے بعد یہ دنیا میں آہستہ پھیلا اور ۱۹۲۰ تک رہا۔ یہ ختم کیوں ہوا؟ خیال یہ ہے کہ اپنی زیادہ جان لیوا قسم کی وجہ سے۔ یہ قسم اپنے مریض کو جلد ہی مار دیتی تھی اور مرض آگے پھیلنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ فلو کے وائرس میوٹیٹ ہوتے ہیں اور کم ضرر رساں یہ دوڑ جیت جاتے ہیں۔ کیونکہ وائرس کی جیت اپنے ہوسٹ کو مار دینے میں نہیں۔ آگے پھیلنے میں ہے۔ اس کے لئے کھانستا مریض تو اس کی جیت ہے لیکن مردہ مریض وائرس کے لئے بھی اختتام۔ دو سال دنیا میں تباہی پھیلانے کے بعد سپینش فلو کا خطرناک سٹرین ۱۹۲۰ میں ختم ہو گیا۔
ہمیں معلوم نہیں کہ کووڈ ۱۹ کا مستقبل کیا ہے۔ یہ کیسے میوٹیٹ ہو گا۔ جب بھی دنیا سے اس کو روکنے کے اقدامات ختم کر دئے جائیں گے تو واپس تو نہیں آ جائے گا۔ پہلے سے زیادہ مضبوط تو نہیں ہو جائے گا۔ یہ ہمیں وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ایک بہت بڑا فرق موجود ہے۔
سپینش فلو کے وقت دنیا کی توجہ جنگِ عظیم پر تھی۔ اس کی ہلاکتوں پر تھی۔ اس جنگ سے کئی گنا لوگوں کو مارنے والی یہ بیماری خبر ہی نہیں بنی تھی۔ سارس اور مرس کے بعد بیماریوں کی تاریخ میں اس میں دلچسپی بڑھی کہ سپینش فلو کیسے اور کیوں پھیلا۔ تا کہ مستقبل کی وباوٗں سے نمٹا جا سکے۔
عالمی وبائیں آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی۔ سوال صرف یہ ہوتا ہے کہ کب۔ آج ہم ۱۹۱۸ کے مقابلے میں کہیں زیادہ آبادی بھی رکھتے ہیں، کہیں زیادہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ کہیں زیادہ علم اور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ایسا تقریباً ناممکن ہے کہ نتائج ۱۹۱۸ جیسے ہوں۔ ہم وباوٗں کا مقابلہ کہیں زیادہ بہتر طریقے سے کر رہے ہیں۔ لیکن موجودہ وبا بلاشبہ ہماری زندگیوں میں آنے والا صحت کا سب سے بڑا بحران ہے۔
اگر ہم ماضی سے آنکھ بند کر لیں تو مستقبل سے نابینا ہو جائیں گے۔ کووڈ ۱۹ بڑے پیمانے پر عالمی تباہی پھیلانے کا اہل ہے۔ ماضی ہمیں خطرات سے بھی آگاہ کرتا ہے اور مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی سکھاتا ہے۔
اس کی شدت کو کم کرنا اور بدترین اثرات سے محفوظ رہنا ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ ان ہاتھوں کو دھوتے رہنے سے، ان کو دوسروں سے نہ ملانے سے اور لوگوں سے فاصلہ رکھنے میں۔ (جگہ کا فاصلہ، نہ کہ دِلوں کا)۔ جو لوگ اس بارے میں لاپرواہی برت رہے ہیں، ان کو اس کی آگاہی دے کر۔