(5/ اگست 1917ء۔۔۔۔۔۔۔۔19/ ستمبر 1997ء)
احوال و آثار (۱۹۹۷ء۔۱۹۱۷ء)
آنے لگی اُن کو بھی اب یاد نورؔ کی
جب سے یہاں وہ درد کا مارا نہیں رہا
(نور محمد نور کپورتھلوی)
پاکستان کے ممتاز شاعر، ادیب ، ماہر لسانیات ، مؤرخ ، ماہرِ علم بشریات و فنونِ لطیفہ اور دانشور جناب نور محمد نور کپور تھلوی نے ۱۹ ستمبر ۱۹۹۷ء جمعہ کے روز دوپہر ڈیڑھ بجے فیصل آباد (لائل پور) پاکستان میں اس دھوپ بھری دنیا کو چھوڑ کر عدم کی بے پناہ وادیوں کی طرف رختِ سفر باندھ لیا۔ علم و ادب کا خورشید جہانِ تاب جو ۵/اگست ۱۹۱۷ء کو ہندوستان کے ضلع جالندھر کی ریاست کپور تھلہ کے ایک گاؤں نور پور راجپوتاں میں طلوع ہوا اور ۱۹ ستمبر ۱۹۹۷ء کو فیصل آباد پاکستان میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ فیصل آباد کے نواح میں واقع ایک گاؤں چک نمبر ۸۷ گ ب بابے دی بیر (براہ ڈجکوٹ) کی بے آباد زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ خرابات آرزو پر اس کی دائمی مفارقت کا غم اس طرح برسا کہ میرے وجود کی تمام توانائیاں کمزور پڑ گئیں۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور کچھ بھی تو سجھائی نہیں دیتا۔ آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے اور دل کی ویرانی کا اب کیا مذکور؟ الفاظ میرے ہونٹوں پر پتھرا گئے ہیں اور میں اپنے جذباتِ حزیں کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے ہوئے دشواری اور دُکھ محسوس کر رہا ہوں۔ فرشتۂ اجل نے اس فطین، فعال، مستعد اور زِیرک تخلیق کار سے قلم چھین لیا جو گزشتہ سات عشروں سے تخلیق ادب میں ہمہ وقت مصروف تھا۔ ہماری محفل کے وہ آفتاب و ماہتاب جن کے دم سے ہمارے دل کی انجمن میں اُجالا ہوتا ہے۔ جب زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے پناہ وادیوں میں غروب ہو جاتے ہیں تو سفاک ظلمتیں اور جان لیوا سناٹے ہمارا مقدر بن جاتے ہیں۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے جس پر شہر کا شہر سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ اُس کی یاد میں بزم ادب ایک عرصے تک سوگوار رہے گی۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہم اپنے رفتگان کو یاد کر کے اپنے دلوں کو ان کی عظمتوں کی امین مہک سے آباد رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی فرقت کے زخم نے جو صدمے دیے ہیں ۔ اُن کے احساس سے کلیجہ مُنہ کو آتا ہے ۔ میری محفل کے کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب غروب ہو گئے اور فیضانِ نظر کا نور بکھیرتے روشن چراغ اجل کے ہاتھوں بُجھ گئے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ موت کی مبسوم ہواؤں نے میرے سب چراغوں کو دیکھ لیا ہے اور اب میں جان لیوا تنہائی کے عالم میں شہر آرزو کی ویرانی پر اشک بہانے اور لٹی محفلوں کی نوحہ خوانی کے لیے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہوں۔
الفاظ میں کب چھُپتے ہیں دُکھ درد دلوں کے
خود کو بہلا رہا ہوں یونہی کاغذوں کے ساتھ
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اپنے جذباتِ حزیں کو کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر اس درد و غم کا اختتام کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوڑی پیشانی ، کڑاکے دار لہجہ، روانی زبان و قلم، بیدار ذہن، عالمانہ گفتگو، محققانہ باریکیاں، محبوبانہ مسکراہٹیں، تاریخ ساز ادائیں، میٹھے بول اور کڑوے حقائق ، راہ حق پر ڈٹ جانا۔۔۔۔یہ ہے نور محمد نور کپور تھلوی کی زیست کی مختصر کہانی۔۔۔۔
۵/اگست ۱۹۱۷ء کو راجپوت قبیلے میں چودھری محمد بخش کے گھر ریاست کپور تھلہ مشرقی پنجاب (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپور تھلہ کی منڈی میں آڑھت کا کاروبار کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم ریاست کپور تھلہ سے حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد اپنی خُدا داد صلاحیتوں اور کچھ حاصل کرنے کے جذبے سے گریجوایشن تک علمی مدارج طے کیے۔ اس کے علاوہ آپ نے فارسی، عربی، اور اردو فاضل جیسے علمی کورسز بھی کیے۔ آپ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ ۱۹۳۹ء میں آپ دوسری جنگ عظیم کے وقت فوج میں ڈرائیور انسٹرکٹر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔۴۷۔۱۹۴۶ء میں آپ اپنے چچا چودھری نبی بخش کے پاس ایران کی آئل کمپنی میں فیلڈ انچارج کے طور پر کام کرتے تھے۔ برصغیر کی تقسیم کے اوائل میں آپ کچھ عرصہ لائل پور کاٹن ملز میں کلرک کے عہدہ پر کام کرتے رہے۔ بعد ازاں اس ملازمت کو چھوڑ کر گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس) میں موٹر مکینک بھرتی ہو گئے۔ موٹر مکینک کے عہدہ سے ترقی کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کے ذریعیبتدریج ورکس مینجر اور بعد ازاں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ٹرانسپورٹ ونگ میں موٹر وہیکل ایگزامینر(Motor Vehicle Examiner)کے عہدے پر ترقی کر گئے۔۱۹۵۷ء میں آپ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔
وہ ہمیشہ دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ اپنے افسرانِ بالا کے ناجائز مطالبات، دباؤاور سفارش کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وقت کے حکمران کے اشارے پر غلط کام نہ کرنے پر اُن کا تبادلہ ان کو تنگ کرنے کے لیے دوسرے صوبے کے شہر پشاور کر دیا گیا۔وہاں اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے ہوئے انھوں نے دیکھا کہ یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ سفارش، اقربا پروری اور رشوت زوروں پر تھی جو اُن کے اُصولوں کے خلاف تھے۔ انھوں نے ہمیشہ معیار اور سچائی کو ملحوظ خاطر رکھا اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں روشن مثالیں قائم کیں۔ کبھی اصولوں پر سودے بازی نہ کرنے کی خوبی تمام زندگی اُن کے ساتھ ساتھ رہی۔ صوبہ سرحد میں تمام کام وہاں کے جرگوں کی مرضی سے ہوتے تھے۔ ایسے کام اور فیصلے دیکھ کر آپ زیادہ عرصہ وہاں اپنی خدمات سرانجام نہ دے سکے۔ اور اپنا استعفیٰ اپنے سے بڑے آفیسر کی میز پر رکھ کر سیدھے اپنے گھر لائل پور(فیصل آباد) آ گئے۔ پھر لائل پور آ کر اپنے کام کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں سرگرم عمل ہو گئے۔ 1966ء میں آپ کچھ عرصہ پاکستان برما شیل میں مینجر تعینات ہو گئے اور جلد ہی اس ملازمت کو خیر باد کہہ کر گھر گرہستی کے مسائل میں مصروف ہو گئے۔ نور محمدنور کپور تھلوی نے تادمِ مرگ حق و صداقت کا علم بلند رکھا۔ خودداری، غیرت، شرافت، ایمان داری، ملنساری، حیا اور انکساری ان کی زندگی کے نمایاں وصف تھے۔وہ اکثر کہا کرتے تھے:
"Your livings should always be simple but your ideasshould always be high.”(۸)
خاندانی پس منظر
تقسیم برصغیر کے بعد آپ کا خاندان وریاہ کپور تھلہ سے ہجرت کر کے ضلع فیصل آباد (لائل پور) کی مغربی سمت قصبہ ڈجکوٹ کے قریب ایک گاؤں چک نمبر ۸۷ گ ب (بابے دی بیری) میں آباد ہو گیا۔ ’’بابے دی بیری‘‘ نام سکھوں نے اپنے گردواروں کے نام پر رکھا ہوا تھا۔ اس نام کا ایک گاؤں سیالکوٹ(پاکستان) اور دوسرا کپور تھلہ (ہندوستان) میں موجود ہے۔
آپ کے والد اور دیگر رشتہ داروں کو یہاں پر ہی زمینیں الاٹ ہوئیں۔ دیگر اراضی کے ساتھ ساتھ اسی گاؤں میں آپ کے والد کو آموں کا ساڑھے چار ایکڑ پر مشتمل ایک قدیم باغ بھی الاٹ ہوا۔ آپ کے چار بھائی اور ایک بہن تھی۔ آپ سب بہن بھائیوں سے بڑے تھے۔ آپ کے بہن بھائی آپ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ بھائیوں میں مبارک علی خاں، شفاعت احمد خاں، محمد حیات خاں اور محمد گلزار خاں اور بہن ہدایتاں بی بی شامل ہیں۔
حیف صد حیف کہ یہ سب سراپا خلوص و شفقت ہستیاں نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتے ہوئے خاموشی سے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئیں۔ قلم میں اتنی سکت نہیں کہ تقدیر کے ستم حرف حرف لکھ کر اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کر سکے۔ ہماری محفل سے وہ آفتاب و ماہتاب غروب ہو گئے کہ جن کے دم سے ہمارا وجود برقرار تھا۔ دل کی انجمن میں انھی کی وجہ سے رونقیں تھیں۔
تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
شادی اور آل اولاد
نور محمد نور کپور تھلوی کی شادی ۲۳ برس کی عمر میں ۱۹۴۰ء کو اپنی پھوپھی زاد نذیراں بی بی سے ہوئی۔ جو بڑی پرہیز گار اور نیک خاتون تھیں۔ آپ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑا بیٹا محمد اکرم پاکستان بحریہ میں کیپٹن کے عہدہ پر فائز ہے ، منجھلا بیٹا محمد اسلم پاکستان آرمی میں میجر ڈاکٹر ہے، چھوٹا بیٹا افتخار احمد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے اور ایک ٹیکسٹائل گروپ میں جنرل مینجر فنانس کے عہدہ پر فائز ہے، ایک بیٹی طاہرہ ارشد نے بی۔اے ، دوسری بیٹی عابدہ اقرار ایم۔اے انگریزی اور سرکاری معلمہ ہیں۔
شاعری میں اُستاد
۱۹۶۵ء میں نور محمد نور کپور تھلوی نے شاعری کا باقاعدہ آغاز تو کر دیا تھا مگر انھیں ایک اُستاد کی تلاش تو ضرور رہی لیکن کوئی بندہ ایسا نہ ملا جو اُن کے مزاج اور طبیعت پر پورا اُترتا۔ ۱۹۸۲ء میں سید تنویر بخاری کے جادوئی علم و فضل سے متاثر ہو کر اُن کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہو گئے۔ علم کی پیاس نے انھیں عمر کے آخری حصے میں بھی بے چین رکھا۔ سید تنویر بخاری کی شاگردیمیں آنے کا عمل بھی علم کی پیاس ہی تو تھی۔ اُن کے اُستاد اُن سے سے ۲۵ برس چھوٹے تھے۔ وہ ایسے شاگرد دیکھے گئے جن کو اُستاد بھی ’’بابا جی‘‘ کہہ کر بلاتے اور اُن کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔
تصانیف/شعری مجموعے
۱۔ ’’زنبیلِ سُخن‘‘ شعری مجموعہ، مطبع ۱۹۸۳ء، پنجابی کلچرل سنٹر، شیخوپورہ
۲۔ ’’جہانِ رنگ و نور‘‘ شعری مجموعہ ،مطبع ۱۹۸۵ء، احمد پبلی کیشنر، اُردو بازار، لاہور
۳۔ ’’تھوہر کے پھُول‘‘ شعری مجموعہ، مطبع ۱۹۸۹ء، شاہین پبلی کیشنز، اُردو بازار، لاہور
۴۔ ’’کُلیاتِ نور‘‘ مطبع ۲۰۰۲ء، گلزار پبلی کیشنز، فیصل آباد، پاکستان
بیادِ نور محمد نور کپور تھلوی
* ’’جامع مسجد نورِ مدینہ‘‘ بمقام چک نمبر 87گ ب (بابے دی بیر) براہ ڈجکوٹ ، ضلع فیصل آباد، پاکستان
* نور محمد نور کپور تھلوی نمبر (خصوصی اشاعت)
ماہنامہ ’’لکھاری‘‘ لاہور، دسمبر2011صفحات 176
* نور محمد نور کپور تھلوی ۔۔۔۔آثار و احوال
مقالہ ایم فل اردو، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد2016ء
* نور محمد نور کپور تھلوی تھنکرز فورم (علمی و ادبی تنظیم)
* النور فاؤنڈیشن (سماجی و رفاہی تنظیم)
* نور اینڈ نور لاء ایسوسی ایٹس
ڈسٹرکٹ کورٹس، فیصل آباد، پاکستان
فیصل آباد کی محافلِ شعر و سُخن
نور محمد نور کپور تھلوی ، فیصل آباد کی ادبی محافل کی جان تھے۔ آپ بڑے شوق سے شہر میں ہونے والے ہر محفلِ مشاعرہ میں بطور خاص شرکت کرتے۔ جب کبھی پنجابی ادبی محاذ کے مشاعروں میں یہ نوجوان بزرگ قلمکار بابا شوق عرفانی ، نور محمد نور کپور تھلوی ، بابا عبیر ابو ذری، ڈاکٹر حبیب العیشی، سید زیارت حسین جمیل، بیکس بٹالوی، اسیر سوہلوی اور بسمل شمسی اکٹھے ہو جاتے تو ایسے لگتا جیسے زندگی سمٹ کر اس مختصر سی جگہ میں آ گئی ہو۔ اُن کی باتوں میں ادب سے لے کر سیاست تک ہر رنگ موجود ہوتا تھا۔ اِس ضمن میں ممتاز محقق اور نقاد ڈاکٹر شبیر احمد قادری رقم طراز ہیں:
’’فیصل آباد کو پیار اور محبت کا مرکز بنانے میں ادیبوں اور فن کاروں کے کردار کو کبھیبھلایا نہیں جا سکتا۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کو ساری دُنیا جانتی اور پہچانتی ہے۔ فیصل آباد کے ادیبوں اور شاعروں میں ایک نمایاں اور قد آور شاعر کا نام نور محمد نور کپور تھلوی ہے ۔ جن کو لوگ پیار سے ’’بابا جی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ میرا ان ’’بابا جی‘‘ سے تعارف فیصل آباد کے ایک اور بابا جی شوق عرفانی کی بیٹھک میں ہوا۔ یہ بیٹھک (چنیوٹ بازار) فیصل آباد شہر کا ایک معروف ادبی مرکز تھا۔ جہاں پر رات دن ادیب بیٹھتے اور شعر و سخن کے علاوہ سیاسی گفتگو بھی کیا کرتے تھے۔ پنجابی ادبی محاذ کے زیرِ اہتمام ہونے والے ہفت روزہ مشاعروں میں جن شاعروں کو باقاعدگی سے شریک ہوتے دیکھا ہے اُن میں بابا عبیر ابو ذری، بسمل شمسی، احمد شہباز خاور، بیکس بٹالوی، میاں اقبال اختر، اسیر سوہلوی، جگنو گرداسپوری شامل تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور بزرگ جن کو اُن کی بارُعب شخصیت کی بنا پر ہر کوئی احترام سے ملتا اور وہ شعر بھی بڑے اچھے انداز میں سناتے اور مشاعرہ لوٹ لیتے۔۔۔۔نور محمد نور کپور تھلوی رونقِ محفل ہوتے تھے۔ اس لیے وہ باتیں بھی بڑی پُر مغز کرتے تھے۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی دوسرے شعراء اور قلم کاروں سے جو نوک جھونک ہوتی ۔ شوق عرفانی اس سے بہت لطف اندوز ہوتے۔ اس محفل میں شوق عرفانی (جو پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن فیصل آبادکے سیکرٹری تھے) کی حیثیت ایسے دھاگے کی تھی ، جس نے ان خوبصورت موتیوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا تھا۔ انھی موتیوں میں جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ نور محمد نور کپور تھلوی کی چمک دمک اور شان بان سب سے منفرد ہوتی تھی۔ نور محمد نور کپور تھلوی کے بچھڑنے سے شہرِ ادب ایک بزرگ اور کہنہ مشق شاعر کے وجود سے محروم ہو گیا ہے۔ بلاشبہ وہ خیر کی قدروں کے نقیب تھے اور بری قدروں کو بری نظر سے دیکھتے تھے اور یہی ایک اچھے اور کھرے ادیب کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی اور غیروں کی خیر چاہے۔۔۔۔خیر، امن اور سلامتی کے گیت گاتا چلا جائے۔۔۔۔یہی اُس کے اخلاص کی نشان دہی کرتی ہے۔۔۔۔نور محمد نور کپور تھلوی کے فن آگاہ اور مزاج آشنا لوگ جانتے ہیں کہ اُنھوں نے ہر عہد اور ہر دور میں یہی رنگ بکھیرے اور اسی خوشبو کو عام کیا ۔ یہی دولت تقسیم کی اور اسی نور سے ظلمتوں کے خاتمے کی تمام تر کوششیں کیں۔‘‘(۹)
ان کی ایک مشہور پنجابی نظم ’’دو نور جہاناں‘‘ (ملکۂ ہند تے ملکۂ ترنم) کا بڑا چرچا تھا۔ شعری نشست ہو یا کوئی نجیمحفل۔۔۔۔یہ نظم ان سے فرمائش کر کے بار بار سنی جاتی۔ اوپر سے ان کے پڑھنے کا انداز اور بھی مزا دوبالا کر دیتا تھا۔ اس نظم کے چند بند ملاحظہ ہوں:
اک نورجہاں جہانگیر والی ، اک نور جہاں اعجاز والی
جے اوہ نور جہاں سی حُسن والی ، تے ایہہ نور جہاں آواز والی
ایس نور جہاں نے اوس وانگر اُپر کسے دے ظلم کمایا نہیں
اپنے میحل دے بیٹھ جھروکیاں وچ کسے دھوبی تے تیر چلایا نہیں
کیہڑا راگ ہے راگ دی لغت اندر جیہڑا ایس نے سودھ کے گایا نہیں
جے اوہ نور جہاں سی سوز والی تے ایہہ نور جہاں ہے ساز والی
اک نور جہاں جہانگیر والی ، اک نور جہاں اعجاز والی
اسی نظم کا آخری بند نور محمد نور کپور تھلوی کی فکر اور سوچ کا کھُل کھلا کر اعلان کر رہا ہے اور یہ اشعار اقوال زریں کے درجے تک پہنچ کر ذہنوں کی تطہیر کا ذریعہ بنتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں:
جیہڑے وچ مصیبتاں کم آون
سکے بھائیاں دے نالوں اوہ یار چنگے
سونے وچ خوشبو نہ مول ہووے
مینوں سونے توں پھلاں دے ہار چنگے
جیہڑے ہیرے نوں چٹ کے مرن سوہنے
اوس ہیرے توں لوہے دے تار چنگے
مینوں شاہی چوں خُون دی بو آوے
بادشاہواں نالوں فنکار چنگے
دیندے کڈھ اُداسیاں دِلاں وچوں
سرگم چھیڑ دے جدوں آواز والی
اِک نور جہاں جہانگیر والی
اِک نور جہاں اعجاز والی
نور محمد نور کپور تھلوی جب اپنی یہ نظم مکمل کر لیتے تو ’’واہ واہ‘‘ کی آوازیں اس وقت تک بلند ہوتی رہتیں جب تک وہ اپنی سیٹ پر جا کر نہ بیٹھ جاتے۔ وہ یہ نظم جس مشاعرے میں بھی سناتے مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ سامعین بار بار اس نظم کے سننے کیفرمائش کرتے۔ اس موازناتی نظم کو نور محمد نور کپور تھلوی کی سوچ اور فکر کا بھرپور اظہار قرار دیا جا سکتا ہے۔
انسانی ہمدردی ، پیار، ایثار، رواداری ، بے لوث محبت ، بے باک صداقت کو تمام عمر حِرز جاں بنانے والے جری تخلیق کار نور محمد نور کپور تھلوی کے دامن میں ہمیشہ محبت کے لازوال پھول ہوتے۔ اُن کا ظاہر اور باطن شفاف آئینے کی مانند ہوتا تھا اور بعد ازاں الفاظ کے روپ میں قلم و قرطاس کی زینت بنتا چلا جاتا ۔ اُن سے مل کر خود اپنی ہی ذات سے عشق ہو جاتا تھا۔ شاید انھی کے لیے سرور بارہ بنکوی نے کہا تھا۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں شاید ، مگر ایسے بھی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“