لیختینستائن(Liechtenstein)وسطی یورپ کے جنوب مغرب میں واقع اس براعظم کا چوتھا سب سے چھوٹا ملک ہے۔اسکا کل رقبہ 62مربع میل یا 160مربع کلومیٹر سے بھی کم ہے۔اسکادارالحکومت”وڈز“ہے۔یہ ملک سوئیزرلینڈ اور آسٹریا کے درمیان واقع ہے،مشرق اور شمال میں آسٹریلیااور جنوب اور مغرب میں سوئزرلینڈ کی سرحدیں یہاں پر ملتی ہیں۔یورپی یونین کے علاوہ باقی تقریباََتمام یورپی ممالک کی تنظیموں کا رکن ملک ہے۔5300قبل مسیح میں یہاں انسانوں کی آمدکی پہلی اطلاع ملتی ہے۔2011کی مردم شماری کے مطابق اسکی کل آبادی 36000سے کچھ زائدنفوس پر مشتمل تھی۔تقریباََ تمام ملک ہی پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔یہاں ایسے قدرتی وسائل نہیں ہیں جن کی کوئی تجارتی حیثیت ہو یہاں تک کہ پہاڑی سطح ہونے کے باعث یہاں کاشتکاری بھی ممکن نہیں اور لکڑی تک باہر سے درآمد کی جاتی ہے۔پورے ملک میں کوئی بڑے کارخانے نہیں ہیں تاہم چھوٹے چھوٹے کارخانے مشرق سے مغرب تک پوری مملکت میں پھیلے ہیں اور سیاحت یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے،شاید اسی وجہ سے یہ ملک بہت خوشحال ہے اور یہاں شرح خواندگی مردوں عورتوں میں 100%ہے۔جانوروں کی پرورش بھی یہاں وسیع پیمانے پر کی جاتی ہے۔یہاں کی دفتری زبان جرمن ہے۔بہت مختصر سی پولیس ہے جو اس چھوٹے سے ملک کا امن و امان قائم رکھتی ہے،جب سے سوئزرلینڈ نے یہاں کا دفاع اپنے ذمہ لیا ہے تب سے فوج ختم کر دی گئی ہے۔یہاں آبادی میں اضافے کاتناسب0.713%ہے،آبادی میں 65%مقامی لوگ آباد ہیں جبکہ35%غیرمقامی ہیں۔ریاست کی شق نمبر37کی رو سے یہاں کا سرکاری مذہب عیسائیت رومن کیتھولک ہے جب کہ آئین میں دیگر مذاہب کو بھی تحفظ فراہم کیا گیاہے تاہم حکومت کی مالی معاونت صرف مذہب عیسائیت کوہی فراہم کی جاتی ہے۔آبادی میں اکثریت عیسائی مذہب کے پیروکاروں کی ہے جن کی شرح 90%تک ہے اور اس میں بھی اکثریت رومن کیتھولک چرچ کی ہے جبکہ مسلمان 4%ہیں اور یہ سب سے بڑی اقلیت ہے،2001میں مسلمانوں کو مستند اجتماعیت تسلیم کرلیاگیاہے اورمسجد میں امام رکھنے کی اجازت بھی مل گئی جبکہ رمضان المبارک میں دو امام بھی تعینات کیے جا سکتے ہیں۔سردیوں میں درجہ حرارت -15ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے اور گرمیوں میں 20سے 28ڈگری تک ہی رہتاہے۔بارش اور برف باری بہت ہوتی ہے اور تقریباََ ساراسال بادل چھائے رہتے ہیں۔
قدیم تاریخ میں یہ خطہ رومی سلطنت کے صوبے ”ریتیا“کا حصہ رہا لیکن فوجی اہمیت کی کمی کے باعث یورپ کی مجموعی تاریخ میں یہاں کاکوئی قابل ذکرکردارنہیں ملتا۔ سولھویں صدی میں یہاں روس اور فرانس کی فوجوں کا قبضہ رہا اس کے بعد یہ ملک جرمن یونین کا حصہ بن گیا۔پہلی جنگ عظیم میں جب جرمن یونین بکھر گئی تویہ ملک بھی آزاد ہوگیا۔آسٹریااگرچہ اس ملک سے قریب تر ہے لیکن سوئزرلینڈ کے ساتھ معاشی تعلقات کی مضبوطی کی وجہ سے یہاں کا سیاسی و عسکری جھکاؤ بھی اسی طرف ہی ہے۔یہاں آئینی بادشاہت کا نظام رائج ہے اور ایک شہزادہ یہاں کا حکمران ہے تاہم 1921کے آئین کے تحت اس نے سیاسی انتظام کے لیے قدیمی طور پر مملکت کے دو حصوں ہیں ایک ملک بالا اور دوسراملک زیریں کو دو انتخابی حلقے قرار دے رکھے ہیں۔18سال سے زائد عمر کے مردوخواتین اپنا جمہوری حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔پچیس منتخب افراد کی پارلیمان ہوتی ہے،یہ ملک کا واحد جمہوری قانون سازادارہ ہے جس کی سفارش پروہاں کا حکمران شہزادہ ایک وزیراعظم اورچار وزرا،ہر انتخابی حلقے سے دو وزراکاتقررکرتا ہے۔پارلیمان چار سالوں کے لیے منتخب کی جاتی ہے۔مقامی حکومتوں کو بھی منتخب نمائندے چلاتے ہیں لیکن انکی مدت انتخاب تین سال ہی ہوتی ہے۔یہاں کی اعلی عدلیہ سپریم کورٹ ہے اور ایک محتسب بھی اپیلوں کی سماعت کے لیے بیٹھتاہے۔1990ء میں یہ ملک اقوام متحدہ کارکن بھی بن گیا۔
سڑکوں کا بہت عمدہ نظام ہے اور ریلوے بھی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں کو باہم ملاتی ہے،ریلوے لائین کی کل لمبائی نو کلومیٹر ہے جو بنیادی طور پر آسٹریاورسوئزرلینڈ کو ملانے کے لیے یہاں سے گزرتی ہے۔ پورے ملک میں کوئی ہوائی اڈاہ نہیں ہے اوریہاں کوئی مقامی ٹیلی ویژن چینل بھی نہیں ہے۔یہاں کی دلچسپ بات پبلک باتھ ہے جس کی فراہمی حکومت کی ذمہ دارہ ہے اور حکومت نے اس مقصد کے لیے باقائدہ ایک کمیٹی بنا رکھی ہے جوعوام کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے۔نیشنل بورڈ آف ایجوکیشن کے تحت یہاں کا تعلیمی نظام چلایا جاتا جس میں ابتدائی،ثانوی اور فنی تعلیم دی جاتی ہے۔اعلی تعلیم کا کوئی انتظام یہاں موجود نہیں۔اچھے علاج کے حصول کی طرح اعلی تعلیم کے لیے بھی لوگ سوئزرلینڈ کی طرف سفر کرتے ہیں اور ”سوئس فرانک“ہی یہاں کرنسی کے طورپر استعمال ہوتاہے۔Alpenrhein Riverکے نام سے ایک طویل دریا اس ملک میں بہتا ہے جو بعد میں سوئزرلینڈ میں داخل ہوجاتاہے۔ایک طویل عرصے سے آئیس لینڈ،سوئزرلینڈ اور ناروے کے ساتھ اس مملکت کا آزادتجارت کا معاہدہ ہے جس کے تحت یہ ممالک باہمی اشیاکاتبادلہ کرتے ہیں۔
یہاں کے مسلمان سب کے سب ہی تقریباََ باہر سے آئے ہوئے ہیں،1990میں 2.4%تھے،2000میں 5.8% ہوگئے یعنی تعداددوگنی ہو گئی اور اس وقت یہاں کی آبادی میں مسلمانوں کی شرح 5.4%سے متجاوز ہے۔یہاں مسلمانوں کی درجن بھر تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں اور سب کی سب ایک ڈھیلے ڈھالے نظام کے تحت کافی حد تک مل کر بھی کام کرتی ہیں۔عید کی نمازیں مل کر اداکی جاتی ہیں جبکہ قربانی کی عام اجازت نہیں ہے اس لیے چند ایک خاص خاص قصبوں میں جہاں جہاں اجازت مل جاتی ہے وہاں سب مسلمان اجتماعی قربانی کااہتمام کرتے ہیں۔حلال گوشت کی دکانیں مفقود ہیں،کہیں کہیں مرغی میسر آ جاتی ہے چنانچہ مسلمان آبادیوں کے لوگ ترک مفتی صاحب کی زیر نگرانی اپنے جانور خرید کر سرکاری مذبح خانے میں مفتی صاحب کی زیرنگرانی ذبح کرتے ہیں اور پھر آپس میں اخراجات کی شرح کے مطابق بانٹ لیتے ہیں۔مسلمان خواتین اپنے حجاب کے باعث پہچانی جاتی ہیں خاص طور پر جمعۃ المبارک کے دن نماز جمعہ کے لیے آنے والی خواتین حجاب میں مستورہوتی ہیں۔یہاں مسلمانوں کے اخبارات بھی نکالے جاتے ہیں لیکن کم تعدادمیں کیونکہ زیادہ تر مسلمان ان اخبارات کا آن لائین ہی مطالعہ کر لیتے ہیں۔اس سیکولر ملک میں بھی مسلمان اپنے نکاح کی مجالس مساجد میں منعقد کرتے ہیں اور ریاست ان کے اس اقدام کو تسلیم کرتی ہے جبکہ باقی دنیاعدالتوں میں جا کر شادی کرتی ہے۔اس سب کے باوجود وہاں کی سیاست میں مسلمان قطعاََ بھی دخیل نہیں ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...