دس اپریل 1869ء کی شام تھی جب ایک بحری جہاز بمبئی سے روانہ ہوا۔ اس کی منزل لندن تھی۔ اس میں دوسرے مسافروں کے علاوہ سرسید احمد خان بھی سوار تھے۔ سرسید احمد خان ایک سال اور پانچ مہینے لندن میں رہے اور 4 ستمبر 1870ء کو واپس روانہ ہوئے۔ اس سفر کی یادداشتیں سرسید نے ’’مسافرانِ لندن‘‘ کے عنوان سے لکھیں۔
میں نے یہ کتاب کئی سال پہلے کراچی سے خریدی اور بغیر پڑھے اپنے کتب خانے میں رکھ دی۔ 2005ء میں کچھ عرصہ انگلستان میں رہنے کا موقعہ ملا۔ واپس آ کر سب سے پہلے یہ کتاب پڑھی اور اب تک کئی بار پڑھ چکا ہوں۔ عربوں کا قول ہے کہ انسان کی بڑائی پر ایک چیز یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ لوگ اس کے بارے میں مختلف اور متضاد آراء رکھتے ہیں۔ یہ سفرنامہ ہندوستان میں مضامین کی صورت میں چھپا تو کچھ لوگوں نے مشہور کر دیا کہ سرسید عیسائی ہو گئے ہیں۔ آج بھی بے شمار لوگ سرسید کو برصغیر کے مسلمانوں کا محسن سمجھتے ہیں اور ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں!
اس سفر کے دو مقاصد تھے۔ ان دنوں ولیم میور نے ’’لائف آف محمدؐ‘‘ کے عنوان سے چار جلدوں میں ایک کتاب لکھی جس میں بہت سے نامناسب اعتراضات کیے گئے۔ سرسید اس کا جواب لکھنا چاہتے تھے اور جن کتابوں سے وہ استفادہ کرنا چاہتے تھے وہ صرف یورپ کے کتب خانوں میں میسر تھیں۔ دوسرا مقصد ان کے اپنے الفاظ میں یہ تھا کہ وہ ’’مغربی ملکوں کی ترقی کا بچشم خود مشاہدہ کریں اور ان مفید اور عمدہ باتوں کو ہندوستان کی بھلائی کے واسطے سیکھیں۔‘‘
زادِ راہ کے لیے سرسید نے اپنے نایاب اور بیش بہا کتب خانے کو فروخت کیا اور آبائی مکان کو گروی رکھ دیا۔ اس سفر میں چار افراد ان کے ساتھ تھے۔ ان کے دو بیٹے سید حامد اور سید محمود، مرزا خداداد بیگ اور سرسید کا پرانا خدمت گار چھجّو۔
اس وقت کے برصغیر میں غسل خانے کے شاور اور بیت الخلاء کے کموڈ کا کوئی تصور نہ تھا۔ بحری جہاز کے باتھ روم کے متعلق سرسید لکھتے ہیں کہ ’’سر کے اوپر ایک چھلنی لگی ہوئی ہے اور دیوار میں ایک پیچ ہے۔ جہاں اس پیچ کو پھرایا اور چھلنی میں سے مینہ برسنا شروع ہوا۔ اس کے نیچے کھڑے ہو کر خوب نہا لیے۔‘‘ بیت الخلاء کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’کموڈ کے ظرفِ چینی میں پانی آیا اور سب کچھ بہا لے گیا اور وہ ظرفِ چینی بالکل صاف ہو گیا۔‘‘
جہاز عدن میں رکا۔ وہاں کے بازار کے بارے میں سرسید لکھتے ہیں ’’یہاں دکاندار اور تمام لوگ نہایت کثیف اور میلے کچیلے ہیں اور صومالی تو بالکل وحشی جنگلی معلوم ہوتے ہیں۔ نان بائیوں اور قہوہ والوں کی دکانیں ایسی خراب بدبودار ہیں کہ پائوں رکھنے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘ مصر میں ریل کا سفر کیا تو سرسید افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ریل کا تمام سامان فرانس اور برطانیہ کا بنا ہوا ہے اور کوئی چیز بھی مصریوں کی بنائی ہوئی نہیں! جنوبی فرانس کے ساحلی شہر مارسیلز کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کارخانوں میں سات ہزار افراد ملازم ہیں۔ ہر سال سولہ لاکھ اسی ہزار من صابن بنتا ہے۔ ایک لاکھ بارہ ہزار من سالانہ تیل تیار ہوتا ہے اور ہر سال سرخ ترکی ٹوپی پچاس ہزار تیار ہوتی ہے! ریڈی میڈ ملبوسات یورپ میں اس وقت بھی عام تھے۔ پیرس میں سرسید کے ہم سفر مرزا خداداد بیگ کو کپڑے لینے پڑے۔ سرسید لکھتے ہیں ’’دکان میں گئے۔ دکاندار نے دریافت کرکے کہ کس قسم کا کپڑا خریدنا ہے، مرزا کا ناپ لیا اور اپنے اسسٹنٹ سے کہا کہ فلاں نمبر کا کوٹ پتلون لائو پھر ایک آراستہ کمرہ بتایا۔ مرزا اس میں گئے اور کپڑے بدل کر برش آئینہ کنگھی کرکے خوبصورت جوان بنے ٹھنے نکل آئے۔‘‘
لندن سے سرسید کا برسٹل جانا ہوا جو لندن سے ایک سو اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ برسٹل کے مشہور پل کی سرسید نے داستان بیان کی ہے۔ 1753ء میں ایک تاجر مسٹر وِک نے مرتے وقت دس ہزار پائونڈ پل کے لیے عطیہ دیا۔ شہریوں نے یہ رقم تجارت
میں لگا دی۔ 1834ء میں یہ رقم اسی ہزار ہو گئی۔ تین لاکھ ستر ہزار پائونڈ چندے میں جمع کیے گئے۔ پھر کمپنی بنائی گئی اور شیئر (حصص) جاری ہوئے اور یوں کمپنی نے پل بنایا۔ سرسید لکھتے ہیں… ’’اب میں اپنے ہم وطنوں سے نہایت دستہ بستہ اور ادب سے پوچھتا ہوں کہ یہ لوگ آدمی ہیں یا ہم؟ جو صرف حیوانوں کی طرح اپنی خودغرضی میں مبتلا ہیں۔ اور ہر کام میں کہتے ہیں کہ گورنمنٹ بندوبست کرے۔ لڑکوں کے پڑھانے کا کام بھی گورنمنٹ کرے۔ ان کو ان کا مذہب سکھانے کا بھی گورنمنٹ ہی بندوبست کرے۔ افسوس صد افسوس ہزار افسوس! حقیقت میں ڈوب مرنے کی جگہ ہے۔ ہم اس قابل بھی نہیں کہ کسی تربیت یافتہ ملک کے لوگوں کو اپنا منہ بھی دکھلاویں!‘‘
سرسید نے قیام برطانیہ کے دوران اپنے وطن کو ایک لمحہ کے لیے بھی فراموش نہیں کیا۔ وہ ہر وقت انگلستان کا برصغیر سے موازنہ کرتے تھے اور انگریزوں کی طاقت اور اپنے ہم وطنوں کی غلامی کے اسباب پر غور کرتے رہتے تھے۔ وہ نوابوں اور لارڈز کی محفلوں میں بھی شریک ہوئے۔ ان سے کم درجہ کے امرا سے بھی ملے۔ متوسط درجے کے اشراف سے بھی ملاقات کی۔ عورتوں کو بھی دیکھا۔ لوئر کلاس کے انگریزوں کے رہن سہن کا بھی مشاہدہ کیا۔ کارخانے، دکانیں اور بازار بھی دیکھے۔ اسباب رکھنے، سودا بیچنے اور خریداروں کے ساتھ پیش آنے کے طریقے بھی دیکھے۔ محلات اور عجائب گھروں کی سیر بھی کی۔ جہاز بنانے، توپیں بنانے اور تار برقی بنانے کے کارخانے بھی دیکھے۔ جنگی جہازوں کا بھی مشاہدہ کیا۔ سوسائٹیوں اور کلبوں کے اجلاسوں اور کھانوں میں بھی شریک ہوئے۔ اس کے بعد وہ کس نتیجے پر پہنچے؟ ان کے اپنے الفاظ میں پڑھیے۔
’’ان سب باتوں کا جو نتیجہ حاصل ہوا وہ یہ ہوا کہ ہم جو ہندوستان میں انگریزوں کو ایک نہایت بداخلاقی کا ملزم ٹھہرا کر (اگرچہ اب بھی میں اس الزام سے انگریزوں کو بری نہیں کرتا) یہ کہتے تھے کہ انگریز ہندوستانیوں کو بالکل جانور سمجھتے ہیں اور نہایت حقیر جانتے ہیں، یہ ہماری غلطی تھی۔ وہ ہم کو سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ درحقیقت ہم ایسے ہی ہیں! میں بلامبالغہ نہایت سچے دل سے کہتا ہوں کہ تمام ہندوستانیوں کو اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک، امیر سے لے کر غریب تک سوداگر سے لے کر اہل حرفہ تک، عالم فاضل سے لے کر جاہل تک انگریزوں کی تعلیم و تربیت اور شائستگی کے مقابلے میں درحقیقت ایسی ہی نسبت ہے جیسے نہایت لائق اور خوبصورت آدمی کے سامنے نہایت میلے کچیلے وحشی جانور کو… پس تم کسی جانور کو قابل تعظیم یا لائق ادب کے سمجھتے ہو؟ کچھ اس کے ساتھ اخلاق اور بداخلاقی کا خیال کرتے ہو؟ ہرگز نہیں کرتے۔ پس ہمارا کچھ حق نہیں ہے (اگرچہ وجہ ہے) کہ انگریز ہم ہندوستانیوں کو ہندوستان میں کیوں نہ وحشی جانور کی طرح سمجھیں؟‘
سرسید یہ موازنہ اس جغرافیائی اور موسمی فرق کی وجہ سے نہیں کر رہے جو مختلف ملکوں کے درمیان قدرت نے رکھا ہے بلکہ اخلاقی، تعلیمی اور معاشرتی حوالوں سے کرتے ہیں اور صفائی سلیقے اور ہنر اور تربیت و تعلیم کا رونا روتے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ ان کے ہم وطن ان کی تحریر کو سخت اور جارحانہ قرار دیں گے لیکن ان کا موقف یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے برطانیہ میں دیکھا وہ ان کے ہم وطنوں کے تصور میں بھی نہیں۔ پھر وہ مچھلی اور مینڈک کی مثال دیتے ہیں۔ ایک مچھلی کنویں میں گر پڑی۔ اس نے کنوئیں کے مینڈکوں کو بتایا کہ دریا کتنا بڑا اور چوڑا ہوتا ہے۔ یہ سن کر ایک مینڈک کنوئیں کی دیوار سے ذرا سا پیچھے ہٹ گیا اور پوچھا کہ کیا دریا اتنا بڑا ہوتا ہے جتنا میں کنوئیں کی دیوار سے پیچھے ہوں۔ مچھلی نے کہا اس سے بھی زیادہ۔ مینڈک پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کہ دوسری دیوار سے جا لگا۔ جب مچھلی نے کہا کہ اس سے بھی بڑا تو مینڈک نے اس کا مذاق اڑایاکہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔ اس سے زیادہ کس طرح ہو سکتا ہے!اس پر مچھلی نے کہا کہ جس چیز کو تم نے دیکھا نہیں وہ تمہارے خیال میں کس طرح آ سکتی ہے؟
برصغیر کی عورتوں کی ناخواندگی کے متعلق انہوں نے عجیب مثال دی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر ہندوستان میں کوئی خاتون بازار سے برہنہ گزرے تو ہمارے ہم وطنوں کو کتنا تعجب ہوگا! اسی طرح جب انگلستان کی عورتیں سنتی ہیں کہ ہندوستان کی عورتیں پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں تو انہیں ایسا ہی تعجب ہوتا ہے! بنگالیوں اور پارسیوں کی ترقی کی تعریف کرتے ہوئے مسلمانوں کی حالت پر افسوس کرتے ہیں… ’’شاید مسلمان تو اتنے دنوں تک پڑے رہیں کہ پھر وقت اور زمانہ ان کی ترقی کا باقی نہ رہے اور جو مرض ہے وہ علاج پزیر نہ رہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو جہلِ مرکب نے گھیرا ہے۔ اپنے باپ دادا کے قصے یاد کرتے ہیں اور جو باغ ان کے سامنے ہے اور گل پھول کھل رہے ہیں اسی جہل مرکب نے ان کی آنکھوں کو اس کے دیکھنے سے اندھا کر رکھا ہے…‘‘
سرسید جتنا عرصہ انگلستان میں رہے اپنی قوم کے تعصب اور تنزل پر کڑھتے رہے۔ کتاب بھی تصنیف کرتے رہے۔ وسائل کی سخت کمی تھی ’’ادھر جب حساب کتاب دیکھتا ہوں تو جان نکل جاتی ہے کہ الٰہی لکھنا اور چھپوانا تو شروع کر دیا روپیہ کہاں سے آئے گا۔ مسلمان آستینیں چڑھا کر اس باب میں تو لڑنے کو تیار ہوں گے کہ انگریزوں کے ساتھ کھانا مت کھائو مگر جب کہو کہ مذہبی تائید میں کچھ روپیہ خرچ کرو تو جان بچائیں گے۔‘‘
ایک اضطراب تھا جس میں سرسید مسلسل مبتلا رہے۔ اپنے وطن کے مسلمانوں کے بارے میں ان کی پریشانی اس باپ کی پریشانی کی طرح بے لوث اور بے غرض تھی جس کا بیٹا بیمار ہو۔ ایک ہی دھن تھی کہ مسلمان پستی سے نکلیں اور ترقی کے زینے پر چڑھیں۔ ان کا خلوص ان سطور سے ظاہر ہوتا ہے جو انہوں نے ایک خط میں مہدی (غالباً مہدی الافادی) کو لکھیں… ’’افسوس کہ مسلمان ہندوستان کے ڈوبے جاتے ہیں اور کوئی ان کا نکالنے والا نہیں۔ ہائے افسوس! امرت تھوکتے ہیں اور زہر اگلتے ہیں۔ ہائے افسوس! ہاتھ پکڑنے والے کا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں اور مگرمچھ کے منہ میں ہاتھ دیتے ہیں۔ اے بھائی مہدی! فکر کرو اور یقین جان لو کہ مسلمانوں کے ہونٹوں تک پانی آ گیا ہے، اب ڈوبنے میں بہت ہی کم فاصلہ باقی ہے۔ اگر تم یہاں آتے تو دیکھتے کہ تربیت کس طرح ہوتی ہے اور تعلیم ِاولاد کا کیا قاعدہ ہے اور علم کیوں کر آتا ہے اور کس طرح پر کوئی قوم عزت حاصل کرتی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں یہاں سے واپس آ کر سب کچھ کہوں گا اور کروں گا مگر مجھ کافر، مردود، گردن مروڑی مرغی کھانے والے، کفر کی کتابیں چھاپنے والے کی کون سنے گا؟‘‘
مسلمانوں کے جو حالات 1870ء میں تھے اور جن کی وجہ سے سرسید احمد خان پریشان تھے۔ کیا اب وہ حالات بدل گئے ہیں؟ سرسید احمد خان نے آخر وحشی جیسا سخت لفظ اپنے ہم وطنوں کے لیے کیوں استعمال کیا؟ ان سوالوں کا جواب ہم اگلی نشست میں دیں گے۔