سرسید احمد خان نے 1870ء میں جس برصغیر کا رونا رویا تھا آج کے پاکستان کی حالت اس سے کئی گنا بدتر ہے۔ اس حقیقت کا ادراک اگر نہیں ہے تو مینڈک کو نہیں ہے لیکن مچھلی خوب جانتی ہے کہ ایسا ہی ہے۔ کنوئیں کی تنگی کا احساس اسی کو ہو سکتا ہے جس نے دریا دیکھا ہوا ہو۔ جو لوگ بیرون ملک زندگی کے کچھ ماہ و سال گزار کر واپس آتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ یورپ، کینیڈا، امریکہ اور جاپان کا تو ذکر ہی کیا، پاکستان‘ متحدہ عرب امارات، ترکی اور ملائیشیا سے بھی کم از کم سو سال پیچھے ہے۔
سرسید نے اس وقت کے ہندوستانیوں کو وحشی جانور کہا تھا، تو آخر وہ کون سی خصوصیات تھیں جنہوں نے ’’لندن کے مسافر‘‘ کو یہ لقب دینے پر مجبور کیا تھا؟ وحشی جانور میں کم از کم تین خصوصیات ایسی ہیں جو اسے انسانوں سے الگ کرتی ہیں۔ ایک طاقت کا فیصلہ کن ہونا، جو طاقتور ہوتا ہے وہ دوسرے کو چیر پھاڑ دیتا ہے۔ دوسری خصوصیت لاقانونیت ہے۔ جنگل میں کوئی قانون نہیں ہوتا اور وحشی جانور کسی قانون کے تابع نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ کہ اس کا صفائی سے اور ہائی جین سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔
آپ آج کے پاکستان کو کسی بھی زاویے سے دیکھ لیں، یہ ’’خصوصیات‘‘ ہم میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ’’طاقت‘‘ فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ جس کے پاس اسلحہ ہے اسی کا راج ہے۔ اکبر بگتی آج تو ہیرو ہیں لیکن وہ وقت بھی تھا کہ وہ اسلام آباد میں اڑھائی سو اسلحہ بردار محافظوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوتے تھے۔ آج بھی ہمارے سیاسی لیڈر اور ایم این اے مسلح محافظوں کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ یہ منظر کس مہذب ملک میں دکھائی دیتا ہے؟ کہیں بھی نہیں! جس کے پاس طاقت ہے وہ اغوا کرکے کروڑوں روپے تاوان میں لے رہا ہے۔ ہر روز سینکڑوں کاریں اسلحہ کے زور پر اغوا ہو رہی ہیں اور اس ’’کاروبار‘‘ سے کروڑوں کمانے والوں میں اچھی خاصی تعداد باریش نمازیوں کی ہے۔ جس کے پاس طاقت ہے وہ کم سن بچی کو اپنے یا اپنے ہم قبیلہ کے نکاح میں لے لیتا ہے۔ کوئی چاہے تو لڑکیوں کو صحرا میں زندہ درگور کر دے اور یہ حال ہی میں ہوا ہے۔ ملوث حضرات اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں۔ کراچی کیا ہے؟ آج کا کراچی وحشی جانوروں کے پنجے میں ہے۔ اسلحہ طاقت ہے اور طاقتور قتل بھی کر رہے ہیں اور بھتہ بھی لے رہے ہیں۔ اب بھتہ صرف تاجروں اور دکانداروں ہی سے نہیں، گلستان جوہر کے فلیٹوں میں رہنے والوں سے بھی وصول کیا جا رہا ہے۔ قربانی کے ایک ایک جانور پر چھ چھ بار بھتہ لیا گیا ہے۔ جو لوگ اب بھی اس ملک کو مہذب اور اسلامی کہنے پر مصر ہیں انہیں مریض سمجھ کر مرفوع القلم ہی قرار دیا جا سکتا ہے!
رہا قانون… تو وہ اس ملک میں صرف اس کے لیے رہ گیا ہے جو پولیس کو ٹیلی فون نہیں کرا سکتا۔ جنگل میں کم از کم اتنا قانون تو ہے کہ درخت کوئی نہیں کاٹتا اور دریا کا پانی گدلا نہیں کیا جاتا، اس ملک میں اتنا بھی نہیں!
ہماری ٹریفک اس حقیقت کی بہت بڑی شاہد ہے کہ ہم وحشی جانور ہیں۔ کیا آپ دن رات نہیں دیکھتے کہ لوگ گاڑی وہاں سے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں قانون تو دور کی بات ہے، گزارنے کی جگہ ہی نہیں ہوتی۔ آپ کسی خالی جگہ گاڑی پارک کرنے لگتے ہیں تو اچانک ایک وحشی جانور آتا ہے اور یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ایک شخص پہلے سے پارک کرنے لگا ہے، پھرتی دکھا کر پارک کر دیتا ہے اور آپ کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔ ایک اور وحشی جانور آپ کے دیکھتے دیکھتے سرخ بتی کو عبور کر جاتا ہے۔ ایک اور طرف سے ایک ایسا وحشی جانور آ جاتا ہے جس کی گاڑی کے نہ آگے بتیاں ہیں اور نہ پیچھے، اسے خوف ہے نہ حیا۔ اور یہی وحشی جانور کی خصوصیت ہے جو اسے بنی نوع انسان سے الگ کرتی ہے۔ جنگل کے جانور قطار بنانے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں اس پر کوئی یقین نہیں رکھتا۔ آپ زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کو دیکھ لیجئے، وہ امداد میں ملنے والے سامان کو کس طرح ’’حاصل‘‘ کرتے ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد کے ریلوے اسٹیشن پر، ہوائی اڈے پر اور ڈائیوو جیسے ماڈرن بس سٹاپوں پر آج بھی قطار بنانے کا کوئی تصور نہیں! ہمارے حکمران قانون پر کتنا یقین رکھتے ہیں کل کی خبر دیکھ لیجے روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے بتایا ہے کہ ’’وزارت تجارت نے بیرون ملک کمرشل قونصلروں کی تعیناتی سے پہلے ہی ان تقرریوں کی بندر بانٹ کر لی ہے۔ وزیر تجارت کی سربراہی میں آج ہونے والے انٹرویو محض خانہ پری کے طور پر ہو رہے ہیں۔‘‘ خبر کا آخری حصہ پڑھیے اور ہو سکے تو وحشی جانوروں کی ’’قانون پسندی‘‘ پر ماتم کیجیے۔
’’ان کمرشل قونصلروں کو منتخب کرنے کے لیے امتحان لاہور کی ایک یونیورسٹی نے لیا تھا اور 278 امیدواروں میں سے 206 کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم ان کامیاب امیدواروں کے نہ تو نمبر جاری کیے گئے اور نہ ہی ان کی فہرست شائع کی گئی۔ آڈٹ اینڈ اکائونٹس گروپ کے افسر نے دعویٰ کیا ہے کہ امیدواروں کی فہرست پہلے ہی سے تیار کی جا چکی ہے اور ہر سیٹ کی قیمت لی جا چکی ہے۔ اس سے پہلے 2009ء میں بھی کمرشل قونصلروں کی اسامیوں پر من پسند افراد بھیجے گئے تھے جبکہ ٹیسٹ اور انٹرویو میں نمایاں پوزیشن لینے والے امیدوار تقرریوں سے محروم رہے تھے اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان تعیناتیوں کو چیلنج کیا گیا تھا اور ابھی تک معاملہ زیر سماعت ہے۔‘‘
کیا ان وحشی جانوروں کو کسی قانون کی پروا ہے؟ اور قانون ہے تو کہاں ہے؟ ابھی تو چند ہی دن پہلے ایک سابق وزیراعظم کے فرزند نے اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ اگر قانون نے ان کے والد محترم کی طرف دیکھا تو وہ نہ صرف اسمبلی بلکہ ملک چھوڑ جائیں گے۔ اس پر دوسرے قانون پسندوں نے اس افسر کو ہتھکڑی لگانے کی تجویز پیش کی جو قانون نافذ کرنا چاہتا تھا۔
صفائی کے میدان میں ہم وحشی جانوروں کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان میں جتنے لوگ ایک دن میں شاہراہوں اور گلی کوچوں میں تھوکتے ہیں اور دوسروں کے سامنے انگلیوں سے ناک کی کھدائی کرتے ہیں، جنگل میں جانور سو سال میں بھی نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کسی ملک کی تہذیب دیکھنا ہو تو اس کے غسل خانوں کو دیکھیے، ہماری مقدس مسجدوں کے وضو خانے غلاظت کا گڑھ ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں، بس سٹاپوں اور ریستورانوں کے غسل خانے دیکھ لیجیے۔ ٹخنوں تک فرش پر پانی ہوتا ہے۔ فلش کھینچنے کا رواج ہی نہیں! کیا کسی مہذب ملک میں سڑک کے کنارے دوسروں کے سامنے شلوار میں ہاتھ ڈال کر چلتے پھرتے طہارت کرنے کا تصور پایا جاتا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار!!
دارالحکومت کے عین وسط میں ایک پررونق جگہ ہے جسے ’’سوک سنٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ (سوک کا ایک ترجمہ شہری ہے اور دوسرا مہذب) اس میں پلازوں کے نمبر ہیں۔ پانچ نمبر پلازا کے ایک سرے پر ایک بنگالی کی مٹھائی، سموسوں اور جلیبی کی دکان ہے۔ یہ ایک گزرگاہ ہے اور دو بلاکوں کے درمیان واقع ہے۔ اس گزرگاہ سے ایک دن میں ہزاروں لوگ گزرتے ہیں۔ اس گزرگاہ کے عین درمیان میں، پلازے کی اوپر والی منزل سے، غلیظ پانی کا پرنالہ گرتا ہے جس کے چھینٹے سموسوں اور جلیبی کے علاوہ اردگرد کے دکانداروں پر گرتے ہیں اور گزرنے والوں کے سر پر بھی… یہ پانی ہر روز گھنٹوں گرتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک دکاندار کو کھانا کھاتے دیکھا جس کی روٹی سالن پر یہ چھینٹے پڑ رہے تھے۔ ان لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے نہایت بے پروائی سے جواب دیا کہ ہوٹل والے سے پوچھیں، یہ پانی اسی کے ہاں سے آتا ہے۔ ہوٹل والے کا کہنا تھا کہ کبھی کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔ وہ تعجب سے پوچھ رہا تھا کہ آپ تو یہاں نہیں رہتے تو پھر آپ کو کیا تکلیف ہے؟
یہ دارالحکومت کے وسط کا حال ہے۔ مضافات کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ریڑھیوں پر کھڑے ہو کر کیلے اور مالٹے کھانے کا رواج عام ہے۔ کیا آج تک کسی نے وہاں کوڑے کی ٹوکری دیکھی ہے؟ سبزی والا سارا گندا اپنی دکان کے سامنے ڈالتا ہے یہاں تک کہ گندی سبزیوں کی تہہ زمین پر جم جاتی ہے اور گاہک اس کے اوپر سے گزرتے ہیں۔ گزرتے وقت اس تہہ سے گندا پانی رس رس کر باہر آتا ہے۔
یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہونے والی۔ ایک کالم کی جگہ ہی کتنی ہے اور حیثیت بھی کیا ہے! 1870ء میں مسلمانوں کی جو حالت تھی اس پر سرسید روئے تھے۔ آج ہماری جو حالت ہے اس پر رونے والا بھی کوئی نہیں! آیئے! اور کچھ نہیں تو ہم اپنے آپ کو بددعا ہی دیں ؎
ہم ظالموں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم