ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتاتھا ، اسی سبب اغیار نے ہمیشہ اس پر بری نظر کا بسیرہ بنائے رکھا، برطانیہ اپنے وقت میں عالمی آبادی کے ایک چوتھائی حصہ پر قابض رہا ہے ۔’برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1600ء میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ہندوستان سے تجارت کا پروانہ ملا۔ 1613ء میں اس نے سورت کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی ،اس زمانے میں اس کی تجارت زیادہ تر جاوا اور سماٹرا وغیرہ سے تھی جہاں سے مصالحہ جات برآمد کرکے یورپ میں بھاری داموں بیچا جاتا تھا۔ 1623ء میں جب ولندیزیوں نے انگریزوں کو جزائر شرق الہند سے نکال باہر کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تمام تر توجہ ہندوستان پر مرکوز کر دی۔ 1662ء میں بمبئی بھی اس کے حلقہ اثر میں آ گیا اور کچھ عرصہ بعد شہر ایک اہم تجارتی بندرگاہ بن گیا۔ 1689ء میں کمپنی نے علاقائی تسخیر بھی شروع کردی جس کے باعث بالآخر ہندوستان میں برطانوی طاقت کو سربلندی حاصل ہوئی۔ 1858ء میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم 1874ء تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔(ویکیپیڈیا)
اس کے اثر ورسوخ کودیکھ کرنواب بنگال سراج الدولہ بہت جلد بھانپ گئے کہ دال میں ضرور کہیں نہ کہیں کالا ہے ،انگریز جرنیل کلایوپورے بنگال پر قبضہ جمانا چاہتا تھا ، اس لئے شہنشاہ بنگال نے بغیر کسی تامل کے 23 جون 1757ء کو کلکتہ سے 70 میل کے فاصلے پر دریائے بھاگیرتی کے کنارے قاسم بازار کے قریب انگریزوں کی اس غاصبانہ چال کے خلاف محاذ قائم کردیا جسے پلاسی کی جنگ کے نام سے تعبیر کیا جاتاہے۔ فتح جنگ نواب کے نصیب میں تھی لیکن سپہ سالار میرجعفر کی غداری نے پورانقشہ ہی الٹ دیا ، اس کو اور ماچند نامی شخص کو سازش کے تحت خرید لیا گیا ،میر جعفرکونواب بنانے کی لالچ نے سراج الدولہ کے حصہ میں آئی فتح کو غاصبوں کی طرف موڑدیا ورنہ انہیں شکست فاش کا سامناکرنا پڑتا اور یہ ان کےلئے کڑوا گھونٹ ثابت ہوتا مگر ۔۔۔!
اسی طرح 22؍ اکتوبر 1764کو بکسر کی لڑائی ہوئی ، یہ جنگ ایسٹ انڈیا کمپنی اور نواب بنگال میر قاسم ، نواب اودھ شجاع الدولہ ، مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے درمیان دریائے گنگا کے کنارے پٹنہ سے 130کلو میٹر مغرب میں بنگال کے ایک چھوٹے قلعہ بند قصبہ بکسر میں لڑی گئی ، اس کا بھی وہی انجا م ہو اجو نہیں ہونا چاہئے تھا یعنی خاتمہ جنگ شکست پر ہوا، جس کی ایک وجہ اندرونی سازش تھی۔ہوا یہ کہ دہلی کانام نہاد شہنشاہ عالم جو کہ خوف جان سے بیرون دلی رہا کرتا تھا ، وہ بھی ایک لاکھ فوج کے ہمراہ اپنے صوبہ دار کی امداد کو پہونچا ، اس نے بنگال کی خواہش کی اور بطور ہدیہ اشرفیاں بھی پیش کیں ، اس ناعاقبت اندیش بادشاہ نے بنگال کا پٹہ انگریزوں کو لکھ دیا اور صوبہ دار کےتحفظ کی ذرہ برابر فکر نہ کرتے ہوئے اپنی ایک لاکھ فوج کے ہمراہ الٹے پاؤں واپس ہوگیا۔سو یہ شکست بھی اپنو ں کی درپردہ سیاست کے تحت ہوئی ۔
تاریخی سچائی ہے کہ حیدر علی کےجیالے فرزند اور مملکت میسور کے سلطان ٹیپو سلطان نے ملک کی آزادی کےلئے برطانوی سامراج کے خلاف کئی کامیاب جنگیں لڑیں ،ایسا سخت مقابلہ کیا کہ انگریز کے جارحانہ قدم اکھڑ گئے اور وہ کھٹے دانت واپس لوٹ جاتے ۔ یہی وجہ تھی کہ دشمن انہیں راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے جیسا کہ خود جرنیل جارج ہیرس نے اس کا اعتراف کیا تھا۔اینگلو میسور کی چوتھی جنگ 1798 تا 1799 کے دوران ہوئی ، یہ شیر میسور کی آخری جنگ تھی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر تسلیم نہ ہوا اوربالآخر فوج کے دوغدار میر صادق او رپورنیا نے اندرون خانہ سے انگریزوں کے ہاتھ اپنا سودا کرلیا ،میر صادق نے سرنگا پٹنم قلعہ کا نقشہ انگریزوں کو فراہم کردیا جبکہ پورنیا اپنے دستے کو تنخواہ کےبہانے پیچھے کی طرف لے کر چل دیا اوریوں سلطان شجاع اپنے درپردہ غداری کے سبب ملک کے لئے خود کونچھاور کرگیا۔
گروہ مخالف کا جنرل ہیرس کو جب سلطان کی موت کی اطلاع موصول ہوئی تو اس نے شیر میسور کی عظمت شجاعت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: ’اب ہندوستان ہماراہے ۔‘
مارچ 1799ء کی جنگ بھی درباری عہدیداروں کی سازشی ساز با ز کے نتیجہ میں شکست پر تما م ہوئی ۔
1757 سے پہلے آزادی کی خاطر بہت سی تحریکیں وجودمیں آئیں جن میں حالات کی ستم ظریفی، اپنوں کی غداری کے بموجب انگریزوں کے حوصلہ جوان ہوتے گئے اور وہ جستہ جستہ ہندوستان پر قابض ہوتے گئے۔اپنوں کی غداری نہ ہوتی تو جنگ پلاسی میں نواب بنگال ویسے ہی فاتح قرار پاتا جیسے 1754ء میں سراج الدولہ کے نانا علی وردی کے فاتح قرار پائے تھے، انہوں نے فورٹ ولی پر اتنا زبردست حملہ کیا تھاکہ انگریزوں کی ٹڈی دل فوج کو ڈائمنڈ ہاربر میں پناہ لینا پڑی۔
الغرض، مذکورہ اوراس کےماسو ااور بھی بہت ساری جنگیں تھیں جن میں آزادی کی خاطر جان کی بازی لگانے والے منظم اور متحد نہ تھے،اس لئے وہ ناکام رہے۔اہم وجہ اپنوں کی غدار ی اور نوابوں و راجاؤں کے کے دربار کا دشمنوں کی سازشوں کا اڈہ بننا بھی ہے جس نے ہمیں کامیابی سے کوسوں دور کردیا اور جس کے حصول کے لئے ہمیں دو سو برس تک مسلسل جدو جہد کرنا پڑی۔ اب ہم قانوناً آزاد ہیں مگر حقیقت میں اوربہر حال ،غلام ہیں۔
“