ﺷﻮﮐﺖ ﺻﺪﯾﻘﯽ 20 ﻣﺎﺭﭺ ، 1923 ﺀ ﮐﻮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ۔
1946 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺎﺳﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻢ ﺍﮮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
1950 ﺀ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﺁﮔﺌﮯ۔
ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ 1952 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺛﺮﯾﺎ ﺑﯿﮕﻢ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﻧﺎﻭﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﮐﮩﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺠﻤﻮﻋﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﺎﻟﻖ ﮐﮯ ﻋﻼﻭہ ﻭﮦ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯﺍﯾﮏ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﺻﺤﺎﻓﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺌﮯﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯﺍﻭﺭ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﺻﺤﺎﻓﯽ ﺍﻥ ﺳﮯﺻﺤﺎﻓﺖ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻭﮦ ﮐﺌﯽ ﮨﻔﺖ ﺭﻭﺯﮦ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﻧﺎﻣﮧ ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﺭﮨﮯ۔ ﺗﺎﮨﻢ ﻋﻤﻠﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺍﻧﯿﺲ ﺳﻮ ﭼﻮﺍﻟﯿﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮨﻨﺎﻣﮧ ’ ﺗﺮﮐﺶ ‘ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﺭﻭﺯﻧﺎﻣﮧ ’ ﻣﺴﺎﻭﺍﺕ ‘ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﻧﯽ ﺍﯾﮉﯾﭩﺮ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﻧﺎﻣﮧ " ﻣﺴﺎﻭﺍﺕ " ﻻﮨﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﻧﺎﻣﮧ " ﺍﻧﺠﺎﻡ " ﮐﮯﭼﯿﻒ ﺍﯾﮉﯾﭩﺮ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﻋﺮﺻﮧ ﺗﮏ ﻭﮦ ﮨﻔﺖ ﺭﻭﺯﮦ ’ ﺍﻟﻔﺘﺢ ‘ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﮐﮯﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﮯ اس ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺍﺩﺑﯽ ﺻﺤﺎﻓﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺁﺝ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺻﺤﺎﻓﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
تخلیقات:
افسانے:
’ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﺁﺩﻣﯽ ‘ 1952 ﺀ ،
’ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ‘ 1955 ﺀ ،
’ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﮩﺮ ‘ 1956 ﺀ ،
’ ﮐﯿﻤﯿﺎ ﮔﺮ ‘ 1984 ﺀ
ناول:
’ ﮐﻤﯿﮟ ﮔﺎﮦ ‘ 1956 ﺀ ،
’ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ‘ 1958 ﺀ ،
’ ﺟﺎﻧﮕﻠﻮﺱ ‘ 1988 ﺀ
’ ﭼﺎﺭ ﺩﯾﻮﺍﺭﯼ ‘ 1990 ﺀ
" ﺟﺎﻧﮕﻠﻮﺱ " ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻃﻮﯾﻞ ﻧﺎﻭﻝ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﮉﯾﺸﻦ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﭼﮑﮯﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﻧﺎﻭﻝ ﮐﻮ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﯽ ﺍﻟﻒ ﻟﯿﻠﯽٰ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻭﻝ " ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ " ﮐﮯ 46 ﺍﯾﮉﯾﺸﻦ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺋﮯﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻧﺎﻭﻝ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ 42 ﺩﯾﮕﺮ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ۔
’ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ‘ ﮐﻮ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻗﻮﻣﯽ ﭨﯿﻠﯽ ﻭﮊﻥ ﭘﺮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺒﮑﮧ " ﺟﺎﻧﮕﻠﻮﺱ " ﮐﮯ ﭨﯽ ﻭﯼ ﭘﺮﻭﮈﮐﺸﻦ ﮐﮯ ﺣﻘﻮﻕ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﺠﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﭼﯿﻨﻞ ﺧﺮﯾﺪ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻭﻝ " ﭼﺎﺭ ﺩﯾﻮﺍﺭﯼ " ﮐﻮ ﻟﮑﮭﻨﻮﯼ ﺍﻟﻒ ﻟﯿﻠﯽٰ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ۔ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﮐﮯ ﺯﻭﺍﻝ ﭘﺰﯾﺮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ، ﺟﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺧﺘﻢ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺟﻨﻢ ﻟﮯ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻈﻤﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﯿﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﻼﻟﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ 18 ﺩﺳﻤﺒﺮ ، 2006 ﺀ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺋﮯ۔
بشکریہ وکی پیڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوکت صدیقی پاکستانی ادب کے وہ ستون ہیں جنہوں نے اردو ناول نگاری کو محض داستان طرازی سے نکال کر اس میں ڈاکیومینٹلزم اور ریئلزم کو فروغ دیا ۔ وہ سوشلزم ، مساوات اور انسان دوستی کے حامی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں ظلم ، جب اور سماجی ناانصافی کے خلاف ایک شدید ردِ عمل پایا جاتا ہے۔
شوکت صدیقی نے اگرچہ افسانے ، کہانیاں اور کالم لکھنے کے علاوہ شاعری بھی کی لیکن ناولوں نے انہیں غیر معمولی شہرت دی اور وہی ان کی پہچان بنے۔
خدا کی بستی اور جانگلوس ان کے ایسے ناول ہیں جن کے کردار آپ کو اپنے اردگرد مل جائیں گے ۔ خدا کے بستی کے جرائم پیشہ افراد ان کی حقیقی زندگی میں اس وقت آئے جب وہ انیس سو پچاس میں ہندوستان سے کراچی آئے اور ہجرت کے بعد کی تکلیفیں اُٹھائیں ۔
ایک انٹرویو کے مطابق ان کے پاس رہنے کی جگہ تک نہ تھی اور اس دوران انہوں نے زندگی اور اس کے کرداروں کو بہت قریب سے دیکھا ۔ اسی دوران منظم جرائم پیشہ گروہوں اور انڈر ورلڈ کے لوگوں سے بھی اُن کی ملاقات ہوئی۔ انیس سو ساٹھ کے عشرے میں شائع ہونے والا یہ ناول غربت اور اس سے پیدا ہونے والے جرائم کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ خدا کی بستی کے پچاس ایڈیشن شائع ہوئے اور اس کا ترجمہ متعدد زبانوں میں شائع ہوا جس نے ثابت کردیا کہ اردو زبان میں عالمی اہمیت کا ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔
اس ناول میں ایک جوان عورت سلطانہ اور اس کا بھائی انو، مرکزی کردار ہیں۔ دونوں غربت کے ہاتھوں تنگ اور ایک کے بعد ایک مصیبت میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ خدا کی بستی میں غربت کے ہاتھوں بچوں پر ظلم دکھایا گیا ہے کہ کسطرح جرائم پیشہ افراد انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
اردو زبان پر معاشرتی ناول نگاری کی وجہ سے ان کا موازنہ چارلس ڈکنز سے بھی کیا جاتا ہے ۔ بقول پروفیسر انتظار حسین وہ، انسانوں سے قریب تھے اور اسی لئے ان کے ناول بے حد مقبول ہوئے۔ بعض مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ناولوں اور کہانیوں میں انسانیت ایڑیاں رگڑتی اور شرافت لہو روتی ہے ، جسے پڑھ کر مایوسی کا گمان ہوتا ہے لیکن یہاں ان کی حقیقت پسندی ہی ہے جو ان کی کردار نگاری میں نمایاں نظر آتی ہے۔ تین جلدوں پر مشتمل جانگلوس میں اُن کا یہ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
خدا کی بستی کے پچاس ایڈیشن شائع ہوئے اور اس کا ترجمہ تقریباً چھبیس زبانوں میں شائع ہوا جس نے ثابت کردیا کہ اردو زبان میں عالمی اہمیت کا ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔
پنجاب اور سندھ کے ظلم اور نا انصافی سے بھرے جاگیردارانہ نظام کو سمجھنے کیلئے جانگلوس ایک اہم دستاویز بھی ہے جس کا بیان تصوراتی ، غیر فطری اور بے اعتبار نہیں۔ اسے سندھ کے حروں اور پنجاب میں بسنے والی مختلف برادریوں کے بارے میں معلومات کا ایک اہم ذریعہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ پنجاب میں فصل کٹائی پر گائے جانے والے گیت، فصلوں ، مویشیوں اور زراعت کی معلومات بھی اس ناول میں سمودی گئی ہیں۔ دوسری جانب اس ناول میں غضب کی منظر نگاری ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ناول کے متعلق شوکت صدیقی کہتے ہیں۔
’’ جانگلوس کے ابتدائی مراحل میں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے لکھنے کیلئے صرف مشاہدہ اور تجربہ کافی نہیں بلکہ مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اس کے لئے پنجابی کے ساتھ ساتھ سرائیکی بھی سیکھنا پڑی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرا لکھنے پڑھنے کا کمرہ اسٹڈی سے ورکشاپ بن گیا۔ پنجاب اور پنجابی عوام کے بارے میں مجھے جو کچھ مل سکتا تھا، میں نے حاصل کیا۔ کمرے کے درویوار پر جگہ جگہ پنجاب کے نقشے لگے تھے۔ میری میز پر اور ارد گرد ایسی کتابیں نظر آنے لگیں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح پنجاب سے تھا ان میں اردو پنجابی لغت، پنجابی نامہ، پنجاب کی عورت، لغات سرائیکی، پنجاب رنگ، نغمہ صحرا ، کلامِ فرید، گروگرنتھ اور اُردو پنجاب کے دیہہ خدا، تاریخی پنجاب، پاور ان پنجاب ولیج، ڈسٹرکٹ اینڈ اسٹیٹس گزیٹریز، ہسٹری آف دی پنجاب ، اے بک آف ریڈنگز، ان دی ہسٹری آف دی پنجاب کاسٹس اور بے شمار کتابیں اور پمفلٹس شامل ہیں۔‘‘
جانگلوس میں انہوں نے جرائم بیان کرتے ہوئے اپنا طویل صحافتی تجربے کو بھی استعمال کیا کیونکہ بہت سی خبریں ان کے حافظے میں موجود تھیں۔ انہوں نے حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے ’ق‘ کو ’ک‘ سے بھی بدلا اور اپنے کرداروں سے کیدی ، کتل، طاکت اور کادرآباد کے الفاظ کہلوائے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے ظلم اور نا انصافی سے بھرے جاگیردارانہ نظام کو سمجھنے کیلئے جانگلوس ایک اہم دستاویز بھی ہے جس کا بیان تصوراتی ، غیر فطری اور بے اعتبار نہیں۔ اسے سندھ کے حروں اور پنجاب میں بسنے والی مختلف برادریوں کے بارے میں معلومات کا ایک اہم ذریعہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
شوکت صدیقی نے ایسے لوگوں کے چہرے سے بھی نقاب اُتار ا ہے جو معاشرے میں باعز ت نظر آتے ہیں لیکن اند ر سے گھناؤنے کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ مثلاً وہ ایک جگہ لکھتے ہیں۔
’’ ۔۔۔۔ پاکستان کے بعض سرکردہ اور معزز افراد یہ حیلہ تراش کر بیرونی ممالک کا دورہ کرتے ہیں کہ وہاں زراعت کے جدید اور ترقی یافتہ طریقوں کا مشاہدہ کریں گے۔ نئی صنعتوں کی نشوونما کے متعلق ضروری معلومات حاصل کریں گے۔ مگر اس کے برعکس یہ ہوتا ہے کہ ان کی راتیں نائٹ کلبوں، شراب خانوں ، قمارخانوں اور عیاشی کے اڈوں میں گزرتی ہیں۔‘ ‘
ایک اور افسانے میں وہ پاکستان کواسلامی تشخص دینے کی سرکاری کوششوں پر اپنے خاص انداز سے تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’ ۔۔۔۔پوچھا ، حضور یہ عبدالباری صاحب کون بزرگوار ہیں؟۔۔ ہنس کر بولے، دیکھئے استاد، پاکستان اسلامی ملک ہے، یہاں ہندوؤں کا شام مراری نہیں چل سکتا، یہاں تو ٹھمری میں عبدالباری ہی چلے گا.۔۔۔۔ خاموشی سے سارنگی پر غلاف چڑھایا ، ہاتھ باندھ کر پروڈوسر صاحب سے عرض کیا، سرکار میں آپ کے عبدالباری کے ساتھ نہیں چل سکتا۔‘‘
شوکت صدیقی بیس مارچ انیس سو تیئس کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ لیکن جانگلوس پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ برسوں سے پنجاب میں آباد ہیں اور اس کی نبض پر ان کا ہاتھ ہے۔ ان کے دیگر ناول میں چار دیواری بھی بے حد مقبول ہوا ۔
شوکت صدیقی کے فن پر پاکستان میں ایم اے اور ایم فل سطح کے مقالے بھی لکھے گئے۔ انیس سو ساٹھ میں انہیں آدمجی ایوارڈ اور انیس سو ستانوے میں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ دوہزار دو میں انہیں حکومت کی جانب سے کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
معروف کالم نگار اور ادیب منو بھائی کہتے ہیں کہ شوکت صدیقی ایک بہت بڑے صحافی بھی تھے۔ روزنامہ مساوات میں اپنی وابستگی کے دوران انہوں نے صحافت میں وہ تبدیلیاں کیں جو آگے چل کر اس شعبے کی پہچان بنیں اور دیگر لوگوں نے بھی ان پر عمل کیا۔
جانگلوس پر کام کرتے ہوئے وہ امراضِ قلب میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اٹھا رہ دسمبر دوہزار چھ کو تراسی سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔
بشکریہ سہیل یوسف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود