پیدائش: 18 اپریل 1954ء
وفات: 2 دسمبر 2016ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رؤف رضا جن کا خاندانی نام عبدالرؤف صدیقی ہے 18 اپریل 1954ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبدالرشید صدیقی کو شعر و ادب سے کوئی علاقہ نہیں تھا لیکن ان کی والدہ کو شعر و شاعری اور خاص طور پر نعتیہ شاعری سے کافی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے رؤف کے ہی شعر سے آشنا ہو چکے تھے۔ یہ آشنائی شعر گوئی کی شکل میں ڈھل گئی۔
ابتداء میں اسکول کے ہم سبق لڑکوں کو دکھانے کے لئے مصرعے کرتے اور شعر کہتے لیکن 1975ء میں سنجیدگی کے ساتھ شاعری شروع کی اور ڈاکٹر افتحار امام احمد علوی مرحوم کا تلمذ اختیار کیا۔
افتخار احمد علوی مرحوم ایک اسکول میں مدرس تھے اور فن عروض پر دسترس رکھتے تھے۔ رؤف رضا کاروباری انسان بھی ہیں اور ہر ذی شعور انسان کی طرح کاروبار کو دوسرے تمام معاملات پر ترجیح دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ رؤف رضا نے شاعری کو شہرت کا ذریعہ نہیں بنایا یا دوسرے لفظوں میں اپنے لہجے کی تازگی اور متاثر کن شاعری کا استحصال نہیں کیا بلکہ بڑی خاموشی کے ساتھ شعر و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں (تھے)۔
"دستکیں میری" رؤف رضا کا شعری مجموعہ ہے۔
رؤف رضا نے وہ شہرت اور ناموری تو حاصل نہیں کی جس کے وہ بجا طور پر حق دار تھے، مگر چونکہ وہ اپنی ذات، اپنی حدود اور اپنے دائرہ میں رہ کر زندگی گذارنے کے عادی تھے، اس لئے وہ سب کچھ نہ ہو سکا جو ہونا چاہئے تھا۔ شاعری میں ان کا مقام و مرتبہ بتانے کی میری کوشش اس وقت تک ادھوری ہی رہے گی جب تک کہ میں رؤف رضا کے ذخیرۂ اشعار میں سے چند غزلوں اور متفرق اشعار کے نمونے آپ کی خدمت میں پیش نہ کر دوں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم بھی اس سوکھتے تالاب کا چہرہ دیکھو
اور پھر میری طرح خواب میں دریا دیکھو
اب یہ پتھرائی ہوئی آنکھیں لیے پھرتے رہو
میں نے کب تم سے کہا تھا مجھے اتنا دیکھو
روشنی اپنی طرف آتی ہوئی لگتی ہے
تم کسی روز مرے شہر کا چہرہ دیکھو
حضرتِ خضر تو اس راہ میں ملنے سے رہے
میری مانو تو کسی پیڑ کا سایا دیکھو
لوگ مصروف ہیں موسم کی خریداری میں
گھر چلے جاؤ بھاؤ غزل کا دیکھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو بھی کچھ اچھا برا ہونا ہے جلدی ہوجائے
شہر جاگے یا مری نیند ہی گہری ہو جائے
یار اُکتائے ہوئے رہتے ہیں ایسا کر لو
آج کی شام کوئی جھوٹی کہانی ہو جائے
یوں بھی ہو جائے کہ برتا ہوا رستہ نہ ملے
کوئی شب لوٹ کے گھر جانا ضروری ہو جائے
یاد آئے تو بلدنے لگے گھر کی صورت
طاق میں جلتی ہوئی رات پرانی ہو جائے
ہم سے کیا پوچھتے ہو شہر کے بارے میں رضاؔ
بس کوئی بھیڑ جو گونگی کبھی بہری ہو جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر موسم میں مجبوری ہو جاؤ گے
اتنا اس کو یاد کیا تو پتھر بھی ہو جاؤ گے
ہنستے بھی ہو روتے تلک تو ایسا ہے
جب یہ موسم ساتھ نہ دیں گے تصویری ہو جاؤ گے
ہر آنے جانے والے سے گھر کا رستہ پوچھتے ہو
خود کو دھوکا دیتے دیتے بے گھر بھی ہو جاؤ گے
جینا مرنا کیا ہوتا ہے ہم تو اس دن پوچھیں گے
جس مٹی کے ہاتھوں کی تم مہندی ہو جاؤ گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے سب کے لئے جنت مانگی
اپنی حسرت کو دعا دیتا ہوں
ایک نیا رنگ بنانے کے لئے
سحر و شام ملا دیتا ہوں
ختم ہوتا نہیں پھولوں کا سفر
روز ایک شاخ ہلا دیتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہی سوچ کے لہجے میں خرابی لایا
تو سمجھ جائے تری بزم میں آ بیٹھا ہوں
موسم برگ و ثمر آ کے چلے جائیں گے
میں یہاں گوشۂ امکاں میں چھپا بیٹھا ہوں
کھیل ہی کھیل میں اک جسم بنا بیٹھا ہوں
اور اس جسم سے امید لگا بیٹھا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی بکھرے ہوئے لہجے پہ گزارے جاؤ
ورنہ ممکن ہے کہ چپ رہنے سے مارے جاؤ
ڈوبنا ہے تو چھلکتی ہوئی آنکھیں ڈھونڈھو
یا کسی ڈوبتے دریا کے کنارے جاؤ
وہ یہ کہتے ہیں صدا ہو تو تمہارے جیسی
اس کا مطلب تو یہی ہے کہ پکارے جاؤ
تم ہی کہتے تھے رضاؔ فرق دوئی ختم کرو
جاؤ اب اپنی ہی تصویر نہارے جاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد