جس معرکے میں محسن انسانیت ﷺ بذات خود شریک ہوئے مورخین اسلام نے اس کو غزوہ قرار دیا ہے۔غزوہ بدر اسلام کا سب سے پہلا اہم ترین غزوہ ہے۔ محسن انسانیت ﷺاپنے اصحاب کے ساتھ ابو سفیان کے تجارتی قافلے کو تلاش کرنے کے لیے نکلے تھے،جنگ کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ابوسفیان کے قافلے کی حفاظت کے لیے مکہ سے قریش امڈپڑے اور مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی گئی۔مسلمان فتح یاب ہوئے۔کافروں کے ستر بڑے بڑے سردار مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے۔گرفتار شدگان میں سے دو کو محسن انسانیت ﷺنے قتل کروادیا کیونکہ وہ ذات نبویﷺ کی توہین کیاکرتے تھے۔بدرکے قیدیوں کو باندھ کرلشکراصحاب رسول کے ساتھ آپﷺ عازم مدینہ ہوئے توایک منزل چلنے کے بعد ایک شاعرکوبلایا اور حضرت علی ؓ کوحکم دیاکہ اس کا سرقلم کردو،اس شاعرنے کہاکہ اب معاف کردیں آئندہ آپﷺ کی ہجوبیان نہیں کروں گا،آپﷺ نے فرمایاکہ ایک دفعہ معاف کرچکاہوں اور حضرت علی نے اس گستاخ رسول کوخون میں نہلادیا۔ایک منزل مزیدچلنے کے بعد آپﷺ نے ایک اورشاعرکوطلب کیااور اس کے قتل کابھی حکم صادرفرمایا،اس نے بھی معافی چاہی لیکن دربارنبوت سے معافی صرف ایک بارہی ملاکرتی تھی اوردوسری بارقطعی سزا ہی ملتی تھی چنانچہ اسے بھی شیرخداکے توانا بازؤں نے اگلی دنیامیں پہنچادیا ۔مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد باقی جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا۔
دفاعی اثرات:معاش اور دفاع،انسانی معاشرے کے دو اہم ستون ہیں،بظاہر اور سطحی نظر سے معاش زیادہ اہم نظر آتا ہے کہ کھانے پینے پر انسانی زندگی کا انحصارہے۔لیکن حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے کیونکہ بچے کے اس دنیا میں آنے سے قبل ہی اسکا دفاعی نظام کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔نومولود ابھی ماں کے پیٹ سے برآمد ہورہا ہوتا ہے کہ ماحول کے جرثومے اس پر حملہ آور ہو چکتے ہیں،بچے کے زندہ بچ جانے کا انحصاراس دفاعی نظام کی کامیابی پر ہے بصورت دیگر موت کے مہیب سائے اسے اپنی آغوش میں لے کر منوں مٹی کے نیچے داب دیتے ہیں۔ محسن انسانیت ﷺاگر چہ قافلے کی تلاش میں نکلے کہ پیش نظر معاش تھا لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور ہی مقصود تھااور وہ عین فطرت انسانی کے مطابق تھا کہ معاش سے قبل دفاع مضبوط کیا جائے،خواہ پیٹ پر پتھر باندھ کر ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ میدان بدر کا پہلا نتیجہ مسلمانوں کی دفاعی کامیابی تھی اور دشمن کی دفاعی شکست تھی اگرچہ دشمن اپنی معاش یعنی وہ قافلہ بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔قرب و جوار کے قبائل پرخاص طور پر اور دیگر عرب قبائل پر عام طور پر دھاک بیٹھ گئی کہ قریش جو صدیوں سے ناقابل تسخیر تھے مسلمان قوت کے ہاتھوں بری طرح پٹ گئے۔مشیعت ایزدی میں معاش سے پہلے دفاعی شکست میں یہ پہلو بھی غالب ہوسکتاہے کہ معاشی شکست کے بعد معاشی اٹھان ممکن ہو سکتی ہے جس سے دفاعی قوت کادوبارہ حصول یقینی ہے لیکن دفاعی شکست کے بعد اس طرح کمر ٹوٹتی ہے کہ پھر سراٹھانا ممکن ہی نہیں رہتا اور دشمن کی معاش پر بھی قبضہ کرنا آسان ہوجاتاہے۔
معاشرتی اثرات:قریش مکہ کی معاشرتی بنیادیں ان کے سرداری نظام میں پنہاں تھیِ۔مکہ مکرمہ کے قبائلی نظام میں سرداران قوم اس قوم کے معاشرتی راہنما تھے۔تمام معاشرتی اقدارانہیں سرداران قریش کی عملی روایات سے پھوٹتی تھیں اور انہیں پر ہی تکمیل پزیزہوجاتی تھیں۔غزوہ بدر میں قریش کے ستر بڑے بڑے سردار تہ تیغ ہوئے۔ابوجہل نے اپنا سرقلم کرنے والے سے اس کی خاندان کی بابت پوچھا اور جواب سن کر کہا کہ ہائے اب کیامیں ایک نیچ خاندان والے فرد کے ہاتھوں ماراجاؤں گااور مجھے قتل کرنے کے لیے کوئی اعلی نسل کاخاندانی آدمی بھی نہ آیا؟؟؟۔پھرابوجہل نے قتل کرنے والے سے کہاکہ میراسرذرانیچے سے کاٹنا تاکہ جب سروں میں میراسرپڑاہوتووہ اونچا نظرآئے اور دیکھنے والے کو پتہ چلے کہ کسی سردارکا سرہے۔آپ ﷺ جب ابوجہل کی لاش پر تشریف لائے تو فرمایا کہ یہ میری امت کا فرعون تھا۔حضرت بلال ؓ نے اپنے سابق آقا کو تاک کر ایسانیزہ ماراکہ وہ واصل جہنم ہوا۔قریش کے تمام سرداروں کی لاشوں کو بدرکے کنویں میں انڈیل دیاگیااور آپﷺ نے کنویں کی منڈیرپر کھڑے ہو کر ایک ایک کانام پکارااور پوچھا کہ میرے رب نے میرے ساتھ تواپنا (فتح کا)وعدہ پوراکردیاہے توکیاتمہارے ساتھ بھی (عذاب کا)وعدہ پوراہواہے؟؟؟قریش مکہ کی ایک معاشرتی روایت تھی کہ مرنے والے پر بآواز بلند آہ وبکا کیاکرتے تھے،بدرکی بدترین شکست کے بعد اپنی خفت مٹانے کے لیے سرداران قریش نے مقتولین بدرپر رونے پٹنے کی پابندی لگادی تھی۔ایک بارپڑوس سے رونے کی آواز آئی توایک بوڑھے نے اپنے پوتے کوبھیجاکہ جاؤ دیکھ آؤ کیامقتولین بدرپر رونے کی اجازت مل گئی ہے تو میں بھی اپنے بیٹے پر کھل کر رو لوں اور دل کابوجھ ہلکا کر لوں؟؟؟ اس کے پوتے نے بتایا کہ پڑوسی اپنے اونٹ کی گمشدگی پر رو رہاہے، اس پر اس بوڑھے نے بڑے دل سوز اشعار کہے کہ ہمیں تو بیٹے پررونے کی اجازت نہیں اورتواپنے اونٹ کا گریہ کررہاہے۔
تعلیمی اثرات:اللہ تعالی نے تخلیق کے آدم علیہ السلام کے فوری بعد جبکہ ان کا جسم کپڑوں سے ناآشنا تھا،شکم خالی تھا اور رشتہ دار عنقا تھے اولین جو ضرورت پوری کی وہ ترسیل تعلیم تھی۔اسی طرح بچہ دنیا میں آنے سے قبل ہی قدرت کے ہاں سے اپنی حاجات ضروریہ کی تعلیم حاصل کر کے آتا ہے۔اللہ تعالی اسے رو کر اپنے اظہار کی تعلیم دے کر بھیجتا ہے اسکے سارے اعضائے جسمانی اپنا اپنا کام سیکھ کر اس دنیا میں وارد ہوتے ہیں اورآدم علیہ السلام کو تعلیم میں برتری کے باعث ہی خلافت ارضی کا منصب عطا ہواتھا۔غزوہ بدر کے اثرات میں فروغ تعلیم ایک اور بڑا عنصر ہے۔اس زمانے میں تعلیم کا کوئی بہت زیادہ رواج نہ تھا اور مکہ جیسے قلب عرب میں کل 17پڑھے لکھے افراد تھے۔عرب اگرچہ اپنی زبان دانی کی بنیاد پر دوسروں کو عجمی یعنی گونگا کہتے تھے لیکن انکی اپنی زبان بھی ہنوز اعراب،نقطوں اور ڈنڈوں سے ناآشنا تھی،ان حالات میں نظر نبوی ﷺ مسلمان بچوں کی خواندگی کی طرف اٹھی اور قیدیان بدر میں سے پڑھے لکھے لوگوں کو اس شرط پر آزاد کر دیا گیا کہ وہ مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں اگرچہ وہ معلم غیر مسلم ہی تھے۔
درس انسانیت:غزوہ بدر سے پہلے پوری انسانی تاریخ میں کہیں یہ تصور ہی موجود نہ تھا کہ جنگی قیدیوں کو رہا بھی کیا جا سکتا ہے،بڑی بڑی تہذیبیں اور علمی و تعلیمی تحریکیں اپنی اپنی عمر پوری کر چکی تھیں لیکن کسی کے ہاں انسانیت کا یہ تصور خیال بن کر بھی نہ ابھراکہ جنگی قیدی کو حق زندگی بھی حاصل ہوسکتاہے۔کل کے کل مردان جنگی تہ تیغ کر دیے جاتے تھے اور مفتوحہ علاقوں کے زن و مرد غلام بنا کر ہانک لیے جاتے تھے اور نسلوں تک طوق غلامی انکی گردنوں کا زیوبنے رہتے۔محسن انسانیت ﷺنے انسانی تاریخ عالم میں سب سے پہلے جنگی قیدیوں کو آزاد کیا جبکہ یہ مشورہ بھی دیاگیاتھا انکو قتل کر دیا جائے۔پھراس سے بڑھ کر درس انسانیت کہاں سے آئے گا کہ محسن انسانیت ﷺکروٹ پر کروٹ لیے چلے جا رہے ہیں اور مسلمان پوچھتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں نیند کیوں نہیں آرہی؟فرمایا چچاعباس(جوجنگی قیدیوں میں سے تھے اور انکی مشکیں کسی ہوئی تھیں) انکی آہیں سونے نہیں دیتیں،پہرے پر موجود مسلمانوں نے چچاعباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں اور وہ آسودہ ہو کر محو استراحت ہو چکے۔لیکن محسن انسانیت ﷺ ابھی بھی کبھی ادھر کروٹ لیتے ہیں اور کبھی ادھر۔مسلمانوں نے پھر عرض کیا ہمارے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں اب نیند کیوں نہیں آرہی؟ ارشاد ہوا جب جرم سب کا برابر ہے تو سب کی رسیاں ڈھیلی کرو،پھر صرف عباس بن عبدالمطلب کی ہی کیوں؟؟؟چنانچہ سب جنگی قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کردی گئیں توپہلے جنگی قیدیوں پر نیندکی دیوی مہربان ہوئی اور بعد میں محسن انسانیت ﷺ نے آرام فرمایا۔
اجتماعی اعتمادنفسی:یہ معرکہ بدر کے اثرات میں سے وہ اہم امر ہے جس کا براہ راست اثرنومولودمسلمان معاشرے پر ثبت ہوا۔وہ مسلمان جو تیرہ سال تک مکہ کی سرزمین پر پٹتے رہے،ماریں کھاتے رہے،پتھرسہتے رہے،گرم ریت پر لٹائے جاتے رہے،جن کی راتوں کا چین اور دن کا سکون چھین لیا گیا تھا حتی کہ مکہ مکرمہ جیسے آبائی وطن کی سرزمین ان پر تنگ کر دی گئی اور وہ ہجرت پر مجبور ہوگئے۔پھر مدینہ منورہ میں بھی پورا عرب،منافقین اور یہودمدینہ انہیں بھگوڑے سمجھتے رہے،مجرم گردانتے رہے اور سازشیں تیار کی جاتی رہیں کہ کب اور کس طرح انہیں قریش کے حوالے کر دیا جائے۔ان حالات میں انہیں مکہ والوں کے خلاف جنگ لڑ کر فتح حاصل کرنا،انہیں تہ تیغ کرنا اور بڑے بڑے سرداروں کوجن کی گردنیں خم نہ ہوتی تھیں اور جن کے ہاتھ کوڑے مار مار کر تھکتے نہ تھے انکی لاشیں بے گوروکفن مٹی میں رلتے ہوئے دیکھنااور بقیہ کو گرفتار کر کے ساتھ لے آنااور سینکڑوں قریش مکہ کو میدان سے ذلت و شکست خوردگی کے ساتھ جانیں بچاکربھاگتے ہو ئے دیکھنا خوشی مسرت اور اعتماد نفسی کا وہ ذریعہ ہے جو شاید کسی اور طریقے سے کبھی حاصل نہ ہو سکتاتھا۔اب وہی مارکھاکھاکرہجرت کرنے والا مسلمان فاتح ہے،جنگ جیت کر پرانے قرض چکانے کے مقام پر ہے اورغلام،غریب اور مجرم اب مد مقابل ہے اور جیت کے احساس کے ساتھ رب کے سامنے شکر گزار ہے۔
یوم الفرقان:قرآن عظیم نے اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے یوم الفرقان کہا ہے یعنی حق اور شر کے درمیان فرق کرنے والا دن۔بظاہر حالات بتاتے تھے کہ مسلمانوں کی شکست یقینی ہے 313افراد اور واجبی سے کپڑوں کے ساتھ ہتھیار بھی سلامت نہیں تھے جبکہ پورے لشکر میں
کل دو گھوڑے اور باربرداری کے لیے دس بارہ اونٹ تھے اور مقابلہ اس لشکرجرار کے ساتھ تھا جو سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈوبا ہواتھا اور ہتھیاروں اور گھوڑوں کی کوئی کمی نہ تھی،لشکریوں کے لیے ایک دن 90اور دوسرے دن 100اونٹ ذبح کیے جاتے تھے۔ان حالات میں قرآن کے مطابق صرف حق کی قوت تھی اور قیادت نبویﷺ تھی جس نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا تھا۔اس فتح مندی سے حق اور باطل کافرق ظاہر ہوگیاتھا اور میدان بدر کے اس فرق واضع کرنے والے کردارکے باعث اس دن کو ”یوم فرقان“کہاگیا۔
مذہبی اثرات:یہود مدینہ جو قدیم آسمانی کتب کے حامل تھے،اور منافقین جو اندر سے مسلمانوں کے دشمن تھے غزوہ بدر سے قبل یہ دونوں گروہ پھولے نہیں سما رہے تھے اب مسلمانوں کا قلع قمع ہو چکے گا اور بھلا قریش سے ٹکر لے کر کون بچ سکتا ہے اور بس ایک آدھ دن میں اس نئے نبیﷺ کا دین قصہ پارینہ ہو کر کتابوں میں دفن ہو نے والا ہے العیاذ بااللہ تعالی۔اور یہاں تک کہ انہوں نے مدینہ منورہ میں موجود مسلمانوں کے گھر انے اور عورتیں بچے بھی آپس میں بانٹ لیے تھے کہ شکست کی خبر آتے ہی کسے کیا کیا ملے گا۔لیکن نتائج نے سب کو حیران کر دیا جب مسلمان لشکر فاتحانہ انداز سے اپنے گھروں کو لوٹا تواس سے مسلمانوں کے نومولود مذہب کی حقانیت ان دونوں گروہوں کے دلوں پر ثبت ہو گئی۔
معاشی اثرات:لٹے پٹے مسلمان ہجرت کر کے تو مدینہ پہنچے تھے،ان کے لیے اپنی جان بچا آنا بھی بہت بڑی کامیابی تھی۔ایسے میں جب ایک چھوٹی سی بستی میں بہت سے مہاجر آن پہنچیں اور اوپر سے جنگ کا خوف اور یہود و منافقین کی سازشیں ہر دم تلوار کی طرح سر پر لٹک رہی ہوں تو ان امور کا لازمی نتیجہ معاشی بدحالی تھا۔چنانچہ مسجد نبوی میں نماز سے قبل ایک اعلان کرنے والا خواتین کی طرف منہ کر کے اعلان کرتا تھا کہ بی بیو نماز میں مردوں کے اٹھنے کے تھوڑی بعد اپنا سر اٹھانا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ غربت کے مارے مسلمانوں نے ٹاٹ کے کپڑے محض ناف سے گھٹنے تک باندھ رکھے ہوتے تھے اور وہ کپڑے اس قدر بھی نہ تھے کہ ایک پلو دوسرے پر چڑھ سکے بلکہ پلو کھینچ کر انہیں کھجور کے پتوں سے سی لیا گیا ہوتا تھا،ایسے میں امکان تھا کہ نماز میں اٹھتے ہوئے کسی نمازی کا پلو جسم سے سرک جائے اور کسی مقدس خاتون کی نگاہ پڑ جائے۔غربت اور فاقہ کشی کے ان حالات میں قیدیان بدر سے حاصل کیا گیا فدیہ مسلمانوں کی معاشی حالت سنبھالنے کا باعث بنا۔جوصحابہ کرام بدرمیں شریک ہوئے انہیں ”بدری صحابی“کہاجاتاہے،بعدکے ادوارمیں ان کا وظیفہ مقررکردیاگیاتھاجوانہیں تاحیات ملتارہا لیکن ایسے صحابی بھی تھے جو سارامہینہ قرض لے کرگزاراکرتے اور وظیفہ ملنے پر پہلے قرض لوٹاتے اور پھرباقی رقم صدقہ کردیتے اور اگلا مہینہ پھر ادھااٹھااٹھا کر گزارہ کرتے۔
شہدائے بدر:قیامت تک زندہ رہنے والی اس امت میں شہدائے بدر وہ خوش قسمت گروہ ہے جس کی نصیب حاصل کرنے کی خواہش ہی کی جاتی رہے گی۔روایات کے مطابق یہ لوگ جب جنت میں داخل کیے گئے اور نعمتیں دیکھ کر حیران ہو گئے،یہ ایسی نعمتیں تھیں جنہیں کسی کان نے سنانہیں تھااورکسی آنکھ نے کبھی دیکھانہیں تھا،اللہ تعالی کی یہ میزبانیاں دیکھ کر شہدائے بدردنگ رہ گئے۔دفعتاََ انہیں پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کا خیال دامن گیرہواتواللہ تعالی سے کہنے لگے ہمیں تھوڑی دیر کے لیے دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم پیچھے رہ جانے والوں کو تیری جنت کے بارے میں کچھ بتا دیں۔اللہ تعالی نے جواب دیا کہ یہ میری سنت کے خلاف ہے۔پھر انہوں نے بارالہ میں عرض کی کہ اچھا ہم میں سے کسی ایک کو بھیج دے تاکہ ہم پچھلوں کو بتاتودیں کی تیری جنت کی نعمتیں کیسی اور کیسی ہیں اس پر بھی انکار ہوا تو تب انہوں نے عرض کی اے رب العلمین ہمارا پیغام ہمارے مسلمان بھائیوں تک پہنچا دے چنانچہ اسی شان نزول میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ(۳:۹۶۱) فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِہِمْ مِّنْ خَلْفَہِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ(۳:۰۷۱) یعنی جو لوگ اللہ تعالی کی راہ میں قتل ہوئے انہیں مردہ نہ سمجھو،وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں جو اللہ تعالی نے انہیں دیا ہے اس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو خوشخبری دے رہے ہیں کہ ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم۔
بدری فرشتے:تاقیامت اہل ایمان جس طرح بدری صحابہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہیں گے اسی طرح فرشتوں میں بدری فرشتوں کوقدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے،بدری فرشتے وہ ہیں جنہوں میں میدان بدر میں مسلمانوں کی مدد کی تھی۔آسمانوں میں بدری فرشتے بڑے مقامات کے حامل ہیں کیونکہ انہوں نے میدان بدرجیسے معرکے میں آخری نبیﷺ جیسی ہستی اور ان کے اہل ایمان،سابقون الاولون جاں نثاروں جیسی قابل قدر نفوس قدسیہ کی مدد کی تھی اور انہیں ابوجہل اور اس کے فوجیوں پر فتح عطافرمائی تھی۔اس وجہ سے اللہ تعالی نے ان بدری فرشتوں کی عزت و وقار میں اضافہ کیا اور باقی فرشتے ان ملائکۃ البدر کو بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بڑے ادب و احترام سے ان کا نام لیتے ہیں۔