17اگست 1988
29سال پہلے سترہ اگست کے دن جو ابھی ایک دن پہلے ہی گزرا ہے بہاول پور کے نزدیک بستی لال کمال کے اوپر ایک سی ون تھرٹی طیارہ تباہ ہوا تھا ،اس میں جنرل ضیاٗ الحق اور ان کے ساتھی سوار تھے ۔یہ تمام افراد اس حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے ۔لیکن آج اس واقعے کو گزرے 29 سال ہو گئے ،اب بھی ایک ہی تزکرہ ہورہا ہوتا ہے ،پاکستان کی تباہی کا زمہ دار جنرل ضیاٗ ہے۔اب بھی ہم ہم سب کہتے ہیں کہ پاکستان میں آمرانہ زہنیت اور سوچ کی وجہ جنرل ضیاٗ کا دور ہے ۔آج بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ لوگ اس لئے پاکستان میں آواز نہیں اٹھاتے کہ پاکستان میں جگہ جگہ جنرل ضیاٗ کی سوچ کی وحشت ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جبر اور خوف کا جو خوف ہے ،اس کے پیچھے ضیائی زہنیت کار فرما ہے ۔اگر پاکستان کی دنیا میں کوئی عزت نہیں ،تو اس کی وجہ بھی ضیاٗ ہے اور رہے گا۔آج پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کی آمجگاہ بناہوا ہے ،اس کی وجہ بھی وہ گیارہ سالہ بدترین اور منافقانہ دور حکومت ہے ۔جو یہ کہتے ہیں کہ حکمران اور سیاستدان سب کچھ ضیاٗ پر ڈال کر بری الزمہ ہوجاتے ہیں ،وہ بھی درست فرماتے ہیں ۔ضیاٗ نے معاشرے میں جو زہر گھولا تھا ،اسے زہر کو نکلتے نکلتے عرصہ تو لگے گا ،لیکن کتنا عرصہ ،بھیا ۲۹ سال ہو گئے ،ہم 2017 میں پہنچ گئے ۔ایسا کب تک چلے گا کہ سب کچھ اس پر ڈال کر ہم صرف باتیں ہی کرتے رہیں گے؟ضیاٗ کی آمریت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی تین مرتبہ برسر اقتدار آئی ۔اس کے علاوہ مسلم لیگ نے تین باریاں لی ۔اس کے علاوہ ایک اور آمر آیا جو اپنے آپ کو روشن خیال شخصیت کہتا تھا ،اس نے دس سال گزار دیئے ۔لیکن تان آج بھی بدترین آمر ضیاٗ پر آکر ہی ٹوٹتی ہے؟اس میں کوئی شک نہیں ضیاٗ ایک شخص کا نام نہیں ،ایک بدترین ابنارمل زہنیت کا نام ہے ،وہ جس نے سوچ پر پہرا بٹھادیا ،آج بھی سوچ پر پہراداری کا سماں ہے ،وہ جس نے دانشوروں ،مفکروں اور شاعروں تک کو پکڑا ،انہیں کوڑے لگائے اور ان کی سوچ پر تالے لگوادیئے ،آج بھی ویسا ہی سماں ہے ۔اس وقت بھی جماعت اسلامی اور فضل الرحمان صاحب جنرل ضیاٗ کے ساتھ تھے اور ان کی سوچ کو آگے بڑھا رہے تھے ،آج بھی وہ وہی کررہے ہیں ۔جس قتل و غارت گری کا آغاز جنرل ضیاٗ نے آج سے انتیس سال قبل کیا ،وہ چلا گیا ،لیکن قتل و غارت گری جاری و ساری ہے ۔یہ جو مسلم لیگ ہے جس کا دفاع لبرل حلقے بھی کررہے ہیں ،یہ بھی جنرل ضیاٗ کی لونڈی رہی ہے ،اس آمر نے گیارہ سال صرف حکومت نہیں کی ،بلکہ سوشل انجینیئرنگ کی کی ،سماج کی نفسیات میں زہر گھولا ،تاریخ کا قتل کیا ۔سماج کی برین واشنگ کی ،یہ ایک حقیقت ہے ،یہ ایک سچ ہے ،مگر یہ سچ ایک مکمل سچ نہیں ہے ؟سچ یہ بھی تو ہے کہ کسی نے ایک کمیونٹی کو کافر قرار دیا تھا ،سچ یہ بھی ہے کہ انتہا پسند عناصر کو نشوونما نظیر بھٹو اور نصیر اللہ بابر نے بھی کی تھی ۔سچ یہ بھی ہے کہ ضیائی سوچ کو کاونٹر کرنے کے لئے لیفٹ اور لبرل حلقے نے بھی کوئی کام نہیں کیا ۔سچ یہ بھی ہے کہ پی پی پی پر بھی جنرل ضیاٗ کی باقیات کا غلبہ تھا ،ہے اور رہے گا ؟بھٹو کی حقیقت شخصیت کا ضیاٗ کے معاملے پر پی پی پی نے موثر استعمال نہیں کیا ۔سچ یہ بھی ہے کہ ضیاٗ پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کرسکا ،پی پی پی کو اس کی اپنی قیادت نے نقصان پہنچایا ۔اس نے غیر جماعتی انتخابات کرائے ،پارلیمانی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی ،لیکن پارلیمانی نظام آج بھی ہے ،کیا یہ پارلیمانی نظام اس زہنیت کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو سکا ہے جس کی سوشل انجینیئرنگ ضیاٗ نے کی تھی ؟پارلیمنٹ چاہتی تو ضیائی زہنیت کے مقابلے میں ایک مختلف لبرل بیانیہ سامنے لاسکتی تھی ،لیکن ایسا نہیں کیا گیا َ۔پارلیمانی نظام آخر کیوں موثر ثابت نہیں ہو سکا ؟اس کو یہاں سے گئے انتیس سال ہو گئے ،سیاست اور جمہوریت کیوں طاقت ور نہیں ہو سکی ،اس کا کون زمہ دار ہے؟کہیں پارلیمانی نظام ۲۹ سال پہلے والی زہنیت کے ساتھ تو نہیں کھڑا ہے ؟ٹھیک ہے بھٹو سے نواز شریف تک تمام سیاستدانوں کی پیدائش مارشل لاٗ میں ہوئی ،لیکن بعد میں یہ سیاستدان کچھ بیانیہ تو دے سکتے تھے ،کیا انہوں نے جمہوریت اور آزادی کے تحفظ کے لئے کچھ کیا؟ضیاٗ کی گیارہ سالہ آمریت کو مستقل بہانہ بنایا جارہا ہے اور یہی سب سے بڑی ٹریجیڈی ہے؟ٹھیک ہے اس زہر کا اثر ختم ہونے میں وقت لگے گا ،مگر کتنا وقت ؟آج بھی فارن پالیسی اور سیکیورٹی پالیسی وہی چل رہی ہے جس کی بنیاد انتیس سال پہلے رکھی گئی تھی ؟لیکن اسٹریٹیجک ڈیپتھ کا پودا تو ضیاٗ سے بھی پہلے لگایا گیا تھا ؟انتیس سال گزر گئے کوئی اور فیض اور کوئی اور جلب اس ملک میں نظر کیوں نہیں آرہا ؟بھائی جب جنرل ضیاٗ ظیارہ حادثے میں ہلاک ہوا تھا تو لاکھوں انسانوں کو اس کے جنازے میں لایا گیا ،لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ آج کوئی سترہ اگست کو اس کی قبر پر کیوں نہیں جاتا ؟کہا جاتا ہے بہت بڑا جنازہ تھا ،لیکن آج ضیاٗ کا مزار ویران پڑا ہے ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ جو زہر پھیلا یا گیا تھا وہ پاکستان کے سماج کی زہنیت سے کبھی بھی نہیں نکلے گا ؟لبرل اور لیفٹ کے دانشور صرف آمر ضیا کی پالیسیوں پر انتیس سال سے تنقید کے علاوہ اور کچھ کررہے ہیں ،تو بتادیں کیا کررہے ہیں؟اگر ضیاٗ کی پالیسیوں کا متبادل بیانیہ نہ لایا گیا تو جب تک پاکستان رہے گا ،ہر گلی کوچے اور شہر میں جنرل ضیاٗ رہے گا ۔جب تک انتہا پسندانہ سوچ ہے ،فرقہ واریت ہے ،تعصب ،نفرت اور کلاشنکوف کلچر ہے ،اس کا مطلب ہے جنرل ضیاٗ کہیں نہیں گیا ،وہ اب بھی یہاں ہے اور حکومت کررہا ہے ۔لیکن ضیاٗ کے کور میں لبرل ،لیفٹسٹ ،سیاستدان اور جمہوری لوگ اپنی غلطیاں نہ چھپائیں ۔جنرل ضیاٗ سے بھی زیادہ نقصان اس ملک کا ایک اور آمر نے کیا تھا جس کا نام مشرف تھا ۔جو اب اسی سال کا ہوگیا ہے ۔وہ اتا ترک کی وردی پہن کر آیا تھا ،کتوں سے کھیلتا تھا ،لبرل رویئے رکھتا تھا ،لیکن کیا مشرف نے آمر ضیاٗ کے مقابلے میں کوئی روشن خیال اور اعتدال پسند بیانیہ دیا ؟وہ چاہتا تو معاشرے کو ٹرانسفارم کر سکتا تھا ۔جس طرح ضیاٗ نے سوشل انجئیرنگ کی ،برین واشنگ کی اور سماج کے زہن کو بدلا ،مشرف بھی ایس کرسکتا تھا ،لیکن مشرف نے ان دس سالوں میں منافقت کا کمال مظاہرہ کیا ۔اس کا مطلب ہے کمال اتاترک کی توپی پہن کر اور کتے پالنا بھی لبرل ازم نہیں ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں سب ہی ڈکٹیٹرز ہیں ،ہم سب ،سب اپنی زات اور سوچ میں آمر ہیں ۔روش خیالی کی آڑ میں جو مشرف نے کیا ،کیا وہ اچھی پالیسیاں تھی ؟ہم آج بھی ایک اور لبرل ڈکٹیٹر کا انتظار کررہے ہیں ،کسی سیاستدان ،کسی سیاسی نظام اور کسی جمہوری نظام سے ہم آج بھی یہ توقع نہیں کرتے کہ ان کی وجہ سے ہماری سوچ پر پہرہ داری کا خاتمہ ہوسکتا ہے ؟ہم آج بھی کسی کمال اتاترک کے انتظار میں ہیں ،یہ ہے وہ زہنیت جس کی وجہ سے سارے مسائل ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔