سولہ سالہ اختر کی لاش کی کہانی
اسی سال لاہور میں جولائی میں پاکستان مسلم لیگ ن کی ایم پی ائے شاہ جہاں بی بی کے گھر سے ایک لاش ملی تھی ،یہ لاش سولہ سالہ لڑکے کی تھی ،جس کا نام اختر تھا ،جو شاہ جہاں بی بی کی بیٹی فوزیہ کا ملازم تھا ،مطلب گھر کے کام کاج کرتا تھا ،وہ بازار سے سودہ سلف لینے گیا ،تھوڑی دیر کے لئے لیٹ ہو گیا تو فوزیہ نے اس پر اتنا تشدد کیا کہ وہ بیچارہ مر گیا ۔اختر کی غریب بہن عطیہ نے پولیس کو بتایا کہ اس کے بھائی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے وہ مر گیا ۔پولیس کو اختر کی لاش فوزیہ کے گھر سے بوری بند ملی تھی ۔قتل کرنے والی ساری فیملی بھاگ گئی ،ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکا ،ابھی تک اختر کو انصاف کے اعلی عدالتی نظام نے انصاف نہیں دیا ۔اب کہا جارہا ہے کہ اختر کے قتل کیس کے تمام گواہان منحرف ہو گئے ہیں ،کسی کو اختر کے قتل میں گرفتار نہیں کیا جاسکا ،فوزیہ جس نے قتل کیا تھا وہ اب بھی انصاف کے نظام پر ہنس رہی ہے ،بڑی بڑی مارکیٹوں میں اب اختر کی جگہ ایک اور ملازم اس کا سودہ سلف لینے جاتا ہے ،وہ قیمتی ملبوسات زیب تن کرکے فیشن شوز میں جاتی ہے ،زندگی اس کی سہل ہے ،لیکن اختر مر گیا ،ریاست کو اس کے مرنے پر دکھ نہیں ،انصاف کا نظام بھی خاموش ہے اور پولیس کا نظام تو پہلے دن ہی سے فوزیہ کے ساتھ ہے ،ایسے میں گواہوں نے تو منحرف ہونا تھا ۔بھیا یہ تھانے چھوٹے لوگوں کے لئے ہوتے ہیں ،کمی کمینوں کے لئے ہوتے ہیں ،یہ فوزیہ جیسی امیر والدین کی بیٹی کے لئے نہیں ہوتے ،سنا ہے لاہور کی سیشن کورٹ نے سب کو بری کردیا ہے ۔پولیس کی ایک رپورٹ تھی ،ایک مکمل تحقیقاتی رپورٹ تھی ،فرینزک رپورٹ تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اختر کو تتشدد کرکے قتل کیا گیا ،لیکن پھر بھی فوزیہ بچ گئی ،اور اختر مر گیا ۔یہ انصاف کا نظام ہے ،یہ خادم اعلی کی پولیس کا ںظام ہے ،یہ پنجاب ہے وڈیروں اور جاگیرداروں کی دھرتی ،شریفوں کی دھرتی جہاں مریم نواز پروٹوکول سے عدالت جاتی ہے ،جہاں فوزیہ کو انصاف ملتا ہے ،یہاں کیسے اختر کو انصاف مل سکتا تھا ،جو غریب تھا ،گلی کا لونڈا تھا ،اس کو کون انصاف دیتا ہے ۔پاکستان میں بے انصافی کا نظام ہے تو یہاں کیسے اختر کو انصاف ملتا ۔کسی نے اختر کی موت کا سو موٹو نہیں لیا ،ہاں اس ڈاکٹر کی لڑکی کو معاف کیا جاسکتا ہے جو داعش سے ملکر سینکروں انسانوں کا قتل عام کرنے جارہی تھی ،لیکن اختر کو انصاف کیوں ملے ؟کسی نے سو موٹو بھی نہیں لیا ،بھیا غریب کے لئے کہاں کا سو موٹو ایکشن ؟اختر کی بہن عطیہ اب بھی بھائی کی موت پر چیختی چلاتی ہے ،رات کو خوف سے اٹھ بیٹھتی ہے ،لیکن اس کے لئے کاہے کاانصاف ؟اسی طرح میڈیا پر ایک واقعے کو بہت اچھا لیا گیا تھا ،2015 تو سب کو یاد ہوگا جب یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ قصور میں 280 بچوں کے ساتھ ریپ کیا گیا ،ان کی ویڈیوز بنائی گئی ،اس کے بعد ان بچوں کے والدین کو بلیک میل کیا گیا ،اس پر بھی نو مقدمات درج ہوئے تھے ،بیس اگست کو ان نو مقدموں میں ایک مقدمے کو خارج کردیا گیا اور تمام چار ملزمان جنہوں نے ریپ کیا تھا ،ویڈیوز بنائی تھی ،انہیں بری کردیا گیا ۔قصور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے ،یہاں کیسے مظلومین کو انصاف ملتا ؟کراچی کا بلدیہ ٹاون کا کیس بھی سب کو یاد ہوگا ،تین سو افراد زندہ جلا دہیئے گئے ۔ملزمان کون ہیں ؟چالان کیا ہے ؟وہ کیس بھی تقریبا ختم ہو گیا ،تین سو مزدور زندہ جل گئے ،انصاف کہاں ہے ؟اس ملک میں غریب کا ایسا ہی انجام ہوگا ،بھیا یہ ملک امیروں کے لئے ہے ،صرف امیروں کے لئے ،غریب تو پیدا ہی جلنے مرنے کے لئے ہوتے ہیں ؟کبھی ہم نے سوچا کے غریبوں کے لئے گواہان کیوں منحرف ہوجاتے ،انصاف کا نظام غریبوں سے کیوں بھاگتا ہے ؟اختر غریب تھا ،فوزیہ امیر تھی ،اس نے اختر کو ماردیا ،فوزیہ کو انصاف مل گیا ،اختر کو مرنا ہی تھا مر گیا ،قصور میں درندوں نے غریبوں کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادیاں کی ،ویڈیوز بنائی ،ان ویڈیوز کو پورن سائیٹس والوں کے پاس بھیجا ،پیسے کمائے ،پکڑے گئے ،پھر چھوٹ گئے ،یہ انصاف ہے ،کراچی کی بلدیہ فیکٹری میں کسی امیر نے یا بھتہ خور نے آگ لگائی ،300 مزدور جل کر مر گئے ،انکوائریاں ہوئی ،ملزمان کا ابھی تک پتہ نہیں ،جل جانے والے غریبوں کےورثاٗ اب بھی چیخ رہے ہیں ،چیخنے دو کس نے کہا تھا غریب پیدا ہو ؟واہ رے پاکستان ،واہ رے میرے ملک کا انصاف کا ںطام
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔